Topics
قربت قدم قدم
محاسبہ ہے۔اندر کی آواز رابطہ میں ہے۔۔ آواز کو سننے کی اس کی صلاحیت بھی بڑھ گئی
ہے۔ پہلے غلطی کر کے آواز کو سنتا تھا۔۔ اب کام کرنے سے پہلے سن لیتا ہے۔ ملامت
دماغ کو بوجھل کر دیتی ہے، پہلے سن لینے سے قلب مطمئن رہتا ہے۔ استاد طریقت نے اندر کی آواز کو سننے
کا جو اصول بتایا ، وہ سنہرا ہے۔ فرماتے ہیں۔۔ ” ہر شخص کے اندر ایسی آواز ہے جو غلطی کا احساس دلاتی
ہے۔۔ یہ آواز آدمی کا ضمیر ہے۔ عمل کیا جائے تو تزکیۂ نفس ہے اور غلطی کرنے سے
پہلے آواز کو سن لیا جائے تو ہر عمل ضمیر کا عمل بن جاتا ہے اور ضمیر باطن کا نور
ہے۔“
دل کے دریچے کھلے اور قرآن کریم کے الفاظ
روشنی بنے،
” اے نفس مطمئنہ ، پھر چل اپنے رب کی طرف،
تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا
میری جنت میں۔ “ (
الفجر : ۲۷۔۳۰ )
اللہ کا بندہ
سے اور بندہ کا اللہ سے راضی ہونا کیا ہے۔۔۔۔؟
کتاب ” محمد رسول اللہؐ جلد اول“ کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک سوال پوچھنے پر
مرشد نے یہ بات سمجھائی تھی۔ اس خوب صورت مقام پر پہنچنے کے لیے نفس ِ مطمئنہ
ضروری ہے۔ نفس مطمئنہ کیا ہے۔۔۔؟
قرآن کریم کو ترتیب سے پڑھنا چاہئے اور جو پڑھیں اس پر غورو فکر ضروری ہے۔ مخصوص
سورتوں کی تلاوت وظیفہ بن جاتی ہے اور بغیر اجازت وظائف سے شعور پر دباؤ پڑتا ہے۔
قرآن کی ہر آیت اہم ہے اور بندہ کا اللہ سے ربط قائم کرتی ہے۔پہلے وہ روزانہ تین
چار صفحات ترجمہ کے ساتھ پڑھتا تھا۔ درمیان میں بہت سی آیات پر ذہن متوجہ کرتا کہ
یہاں رک کر غور کرنا چاہئیے۔
جب باقاعدگی سے ایسا ہونے لگا تو اس نے
سوچا تین چار صفحات ایک وقت میں پڑھنے سے سپارہ تو چار دن میں ختم ہو جائے گا لیکن
تفکر کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس کا منشا قرآن پہ قرآن ختم کرنا نہیں بلکہ
باطن در باطن
، باطن در باطن قرآن کریم کی آیات سے واقف ہونا ہے۔لہذا اب تین چار صفحات
پڑھنے کے بجائے جس آیت پر اندر کی آواز متوجہ کرتی ہے وہیں رک جاتا ہے۔ مشق سے ہوا
یہ کہ اندر کی آواز کو سننے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے اور اب وہ سنتا ہے کہ آواز مخصوص
آیات پر نہیں ، ہر آیت پر متوجہ کر رہی ہے۔
شیخ طریقت زمین و آسمان کی پیدائش میں
غورو فکر کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو آسمان سے متعلق یہ آیت اکثر تلاوت فرماتے ہیں
کہ ” اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ستون کے ۔“
جتنی مرتبہ یہ آیت سنی ، ذہن پر دباؤ
محسوس ہوا۔ چوں کہ غور و فکر کی عادت نہیں تھی اس لیے ذہن دوسری طرف متوجہ ہوگیا۔
مرشد کریم کی خدمت میں حاضر تھا تو آیت یاد آئی۔
اس نے پوچھا۔۔۔ سر ! ستون کے بغیر عمارت
نہیں ہوتی لیکن آسمان کو اللہ نے ستون کے بغیر بنایا اور واضع کر دیا کہ اصل عمارت
ستون کے بغیر بنتی ہے۔ پھر آسمان کیا ہے۔۔۔؟ آسمان میں ستارے ہیں سورج اور چاند
بھی۔۔ انہوں نے سورہ حجر کی آیت تلاوت فرمائی۔
” اور ہم نے بنائے ہیں آسمان میں
بروج ، اور آراستہ کیا اسے دیکھنے والوں کے لیے
اور محفوظ کر دیا اس کو شیطان مردود
سے۔“
( الحجر
: ۱۶۔۱۷)
فرمایا ، ” اللہ نے کائنات کو جن قوانین
کے تحت بنایا ہے قرآن کریم میں ان قوانین کو بیان کر کے سمجھنا آسان کر دیا ہے۔اگر
آدمی بروج کی حقیقت سے واقف نہیں، فرشتوں کو نہیں دیکھتا، اجرام فلکی اور دیگر
مخلوقات جن سے اللہ نے آسمان کو زینت دی، اگر وہ اسے نظر نہیں آتیں تو وہ کس گروہ
میں شامل ہے۔۔۔؟ شیطان الرجیم کا مطلب ٹھکرایا
ہوا۔ اللہ کی نظروں سے گر جانا۔
اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دنیا میں اس
لیے بھیجا کہ میری مصنوعات پر غور کرو، آسمانوں کی زینت دیکھو اور ان لوگوں میں
شامل ہو جاؤ جو میری قدرت کی کرشمہ سازی دیکھتے ہیں اور میرے دوستوں میں شامل ہو
جاتے ہیں۔“
ان دنوں وہ سورہ رعد پر ہے۔ مرشد کریم
فرماتے ہیں کہ سورہ رعد میں بہت زیادہ تخلیقی قوانین بیان ہوئے ہیں۔ خالق کائنات
فرماتے ہیں،
” اللہ وہ ہے جس نے بلند کیے
آسمان ایسے ستونوں کے بغیر جن کو تم دیکھتے ہو، پھر
قائم ہوا عرش پر، اور مسخر کیا
سورج اور چاند کو۔ ہر ایک چلتا ہے ایک ٹھہری مدت
تک۔ تدبیر کرتا ہے کام کی، کھولتا
ہے نشانیاں، تاکہ تمہیں اپنے رب سے ملاقات
کا یقین حاصل ہو۔“ ( الرعد : ۲ )
رات کا وقت تھا۔ مرشد کی بات ذہن میں ، نظر آسمان پر تھی۔ بروج نظر آئے نہ
فرشتے۔ ستاروں کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے نہیں ان کا Reflection ہے۔ ستارے پیچھے ہیں۔ حال
یہ ہے کہ ستاروں سے بھرا آسمان ہے لیکن وہ ستاروں سے ناواقف ہے۔ استغفار پڑھنا
شروع کیا۔ خیال نے جب ملامت کرتے دیکھا تو کہا۔۔۔ اس سے پہلے کہ تمہاری قسمت کے
ستارے گردش میں آئیں۔۔۔ وقت کی گردش کو بدل دو۔ جو لوگ زمین کی طرف مائل رہتے ہیں
اللہ آسمان کی دنیا کو ان کی نظروں سے محفوظ کر لیتا ہے اور پھر۔۔۔ اور پھر خیال
خاموش لیکن اس سے آگے سوچتے ہوئے اس پر کپکپی طاری ہوگئی۔
سوال کا جواب مرشد دے سکتے تھے مگر نہیں
دیا شاید اس لیے کہ وہ ذہن کو استعمال کرنا سیکھے۔ خیال میں بے خیال اس نے سوچا
بغیر ستون کے آسمان بلند ہونے کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟
دل بولا۔۔۔ آسمان کشش ثقل سے آزاد ہے۔ اگر
ستون ہوتا تو ستون کی بنیاد زمین میں ہوتی۔ اس نے قلم اٹھایا اور آنے والے خیالات
ڈائری میں لکھنا شروع کر دیئے۔
لاشعور بتا رہا تھا۔۔۔ ثقل کا تعلق زمین
سے ہے ۔ جو شے ثقل سے آزاد ہو جائے وہ بلند ہو جاتی ہے۔ زمین کی حدوں سے نکل کر
فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ستون کیا ہے۔۔۔۔؟
ستون میخوں کا کام دیتے ہیں جیسے پہاڑ
زمین کے لیے میخیں ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں،
” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے
زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں
کی طرح گاڑ دیا۔“ ( النبا : ۶۔۷)
ستون کہیں ، پہاڑ یا میخ۔۔۔ ثقل ہے۔۔۔ ثقل
بوجھ ہے ۔۔ وزن بے وزن ہو جائے تو شے کا زون بدل جاتا ہے۔ ستون کے قائم مقام ہے۔
سوچتے سوچتے دل کی دھڑکن تیز اور تیز تر
ہو گئی۔ شعور اس طرح متوجہ ہوا کہ بیداری پر نیند غالب آگئی اور مٹی سے بنا ہو ا
جسم نظر سے اوجھل ہو گیا۔لیکن جسم کا ہر عضو دیکھ رہا تھا اور اس دیکھنے میں بے
وزنی اتنی زیادہ تھی کہ جسم ہوا میں اڑتا ہو دیکھا۔زمین نظر تو آرہی تھی لیکن اس
طرح جیسے شعوری دنیا میں آسمان نظر آتا ہے۔ عجیب منظر تھا کہ شعوری دنیا سے الگ
اسے اپنی پہچان تھی اور پرندہ کی طرح نہیں بلکہ بے بال و پر کاغذ کی طرح فضا میں
معلق پتہ نہیں کون سی کائنات اس کے سامنے تھی۔آنکھیں، دل، کان، ہاتھ، پیر سب موجود
ہی نہیں تھے، حرکت میں تھے۔ چلنا، پینا، کھانا، اڑنا سب موجود تھا۔ انتہا یہ کہ
غسل واجب ہونے کے عمل سے بھی گزر گیا۔ ڈر اور خوف کا غلبہ ہوا تو دل کی دھڑکن اتنی
زیادہ ہوگئی کہ دل میں ٹیسیں اٹھنے سے کیفیت بے کیف ہوگئی۔ زمین کا بوجھ ثقل اتنا
زیادہ ہوا کہ اس آزاد دنیا سے پابند دنیا کا قیدی بن گیا۔
اللہ نے قرآن کریم میں سماوات کا ذکر کیا
ہے اور ان کی تعداد سات بتائی ہے ۔ یعنی آسمان سے اوپر اور آسمان ہیں۔ ہر آسمان
دوسرے آسمان کے لیے زمین ہے۔ بات کو سمجھنے کے لیے اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ
آسمان میں رہنے والی مخلوقات کے لیے آسمان زمین ہے اس لیے ہر آسمان ایک طرف آسمان
اور آسمان کا دوسرا رخ زمین ہے۔ ہر آسمان اپنے سے پہلے آسمان سے زیادہ لطیف ہے۔
جہاں بوجھ ہوتا ذہن کی رفتار کم ہوتی ہے۔ بوجھ ہٹ جائے رفتار بڑھ جاتی ہے۔ زمین
میں ثقل ہے اس لیے زمین کی طرف مائل رہنے والوں کے ذہن کی رفتار کم ترین درجہ پر
ہے جسے قرآن کریم نے اسفل سافلین فرمایا
ہے۔ جو انسان کائنات کی ساخت میں غور کرتا ہے اس کے لیے ستاروں سے آگے جہاں ا ور
بھی ہیں۔
آیت
کے دوسرے حصہ میں ہے کہ ” مسخر کیا سورج اور چاند کو “ ۔ خیال نے بتایا کہ
سورج کے ایک معنی دن کے حواس اور چاند رات کے حواس کے قائم مقام ہے۔ دونوں حواس کو
مسخر کیا انسان کے لیے۔ مسخر ہونے سے مراد آدمی دن رات کے حواس سے آزاد ہو کر
سلطان سے واقف ہو۔
تیسرے حصہ میں ہے کہ ” ہر ایک چلتا ہے ایک
مقررہ مدت تک ۔“ اس نے سوچا مقررہ مدت کے معنی کیا ہیں؟ مدت ختم ہوگی تو کیا
ہوگا؟ کیا اس کے بعد سب اپنی حالت پر واپس
چلے جائیں گے؟ اپنے ہی خیال پر وہ چونک گیا۔ اپنی حالت پر واپس جانے کا کیا مطلب
ہے۔۔۔؟ یہاں سے آنے سے پہلے سب کیا تھے۔ یہاں سے جانے کے بعد کیا ہوگا۔۔؟ وہ اصل
ہے یا پھر یہ۔۔۔۔؟ اگر یہ حالت اصل ہے تو اس کے لیے مدت کیوں مقرر ہے۔۔۔؟ خیال نے
کہا جس موجودہ حالت میں ہم ہیں اسے دوام نہیں اس لیے لکھا ہے کہ مقررہ مدت تک۔۔
سوچنا یہ ہے جس حالت کو دوام ہے وہ کیا ہے۔۔۔؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے،
” انسان پر لامتناہی زمانہ کا ایک
وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل
ذکر شے نہ تھا۔“ (الدھر : ۱ )
اس بات کو سمجھنے کے لیے ذہن پر زور دیا لیکن شرح صدر نہیں ہوا۔
پانچویں حصہ میں ہے کہ تدبیر کرتا ہے
امر کی۔ یعنی مخلوق کی مقداریں معین ہیں۔ چھٹے حصہ میں ہے کہ کھولتا ہے نشانیاں۔
جو لوگ مقداروں میں غور کرتے ہیں اللہ انہیں تفصیل سے اپنے قوانین سمجھاتا ہے۔ یہ
سب اس لیے ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملاقات کا یقین حاصل ہو۔
حقائق غور و فکر سے روشن ہوتے ہیں۔ عجیب
بات ہے وہ یہ کیوں کہتا ہے کہ حقائق ذہن میں روشن ہوئے یا ذہن میں آیت روشن ہوئی۔
روشن ہونے کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟ کیا وہ پہلے
سے ذہن میں موجود ہے لیکن تاریکی میں ہے۔ جب غور کرتے ہیں تو روشنی ہو جاتی ہے۔
جتنا تفکر گہرا ہو، روشنی پھیلتی ہے۔ کوئی حصہ زیادہ روشن ہوتا ہے اور کوئی کم۔
کہیں پر اس سے کم اور کوئی جگہ بالکل تاریک۔ سوال در سوال ہیں۔ ہر جواب میں سوال
اور سوال جواب طلب ہے۔
انسان بذات خود کائنات ہے۔ کائنات پر غورو
فکر کے دوران ایسا سرا ضرور ہاتھ آتا ہے جس سے سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ بات نفسِ
مطمئنہ سے شروع ہوئی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ نفس مطمئنہ کے بارے میں کیسے اور کس
زاویہ سے سوچے۔
خیال گویا ہوا، تم
کب مطمئن ہوتے ہو۔۔۔۔؟
اس نے کہا،
محبوب کی قربت میں۔
پوچھا
، قربت
کیا ہے۔۔۔؟
اس نے کہا، خود
کو بھولنا۔
پوچھا ، ایسا
کب ہوتا ہے۔۔۔؟
آنکھیں پانی ہوگئیں۔ منظر پر دھند چھا
گئی۔ آنکھیں بند ہوئیں تو اندر روشن ہو گیا۔
خیال نے پھر پوچھا ۔ آدمی خود کو کب
بھولتا ہے۔۔۔؟
اس نے کہا، جب وہ کسی کا ہو جاتا ہے۔
خیال نے کہا، تمہارے سوال کا جواب اسی میں
ہے۔
ایک بار اس نے محبوب کو تحریر پڑھ کر
سنائی جس میں اپنے جذبات لکھے تھے۔ ” سرتاپا محبت“ نے تحریر میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا ۔۔۔ یہاں
لکھو،
من تو شدم تو من شدی
|
من تن شدم تو جاں شدی |
تاکس نہ
گوید بعد ازیں |
من
دیگرم
تو دیگری |
کسی کے طرز عمل سے سخت تکلیف پہنچی۔ ذہنی
صدمہ نے حواس بے حواس کر دیئے۔ خواب میں نشان دہی ہو گئی تھی کہ سمت درست نہیں
لیکن وہ سمجھ نہیں سکا۔سمجھ میں آیا تو دیر ہو چکی تھی۔ ڈائری پڑھتے ہوئے ماضی کے
چند صفحات کو کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ڈرتا ہے کہیں پڑھ کر یہ محسوس نہ ہو کہ وہ
آج بھی وہیں ہے۔ نہ جانے کیا سوچ کر آج اوراق پلٹے تو الحمد اللہ بدل چکا تھا۔
لوگ کہتے ہیں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر
نہیں۔ غلط کہتے ہیں۔ یقیناً اللہ کے ہاں اندھیر نہیں اس لیے کہ عدل اس کا وصف ہے
لیکن اللہ کے ہاں دیر بھی نہیں ہے۔ اللہ اعتدال پسند ہے اور کائنات معین مقداروں
پر قائم۔۔۔ پھر اللہ کے ہاں دیر کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔؟ اس کا ہر کام وقت پر ہوتا ہے۔
آدمی جلد باز ہے۔ صبر کرتا نہیں وقت اس کے لیے طویل ہوجاتا ہے۔
اللہ فرماتے ہیں میں صبر کرنے والوں کے
ساتھ ہوں۔
ٹھوکر لگی تو ذہن بوجھل ہو گیا۔ نہیں
معلوم اسے ذہن کا بوجھل ہونا کہتے ہیں ، خالی ہونا یا پھر کسی ایسے نکتے پر رک
جانا جہاں آگے دکھائی نہ دے۔۔۔ پیچھے سب ختم ہو چکا ہو۔
مرشد کریم کے پاس انتظامی امور کے سلسلہ
میں کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ جب وہ گئے اور کسی اور نے آنا چاہا تو انہوں نے روک دیا
اور اس کی طرف دیکھ کر فرمایا۔۔۔” ادھر آ!“
اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ جو خاموش بیٹھا
تنہائی کا منتظر تھا، یہ سنتے ہی قریب گیا۔ دل بھرا ہوا تھ آنکھیں پانی ہو گیئں۔
شفیق مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے فرمایا،
پانی
پانی
کر گئی
مجھ
کو
قلندر
کی
یہ
بات
تو
جھکا
جب غیر کے
آگے ، نہ من تیرا نہ تن
اپنے
من
میں
ڈوب کر پا
جا
سراغِ زندگی
تو
اگر
میرا
نہیں بنتا
نہ
بن ،
اپنا
تو
بن
شیخ کی زبان سے یہ اشعار سن کر وہ خاموشی
سے انہیں دیکھنے لگا۔
پوچھا ، ” کیا سمجھے۔۔۔۔؟“
وہ خاموش رہا اور سر تخت سے ٹکا کر رونے
لگا۔
انہوں نے گلے لگا لیا۔
فرمایا، ” جانتا تھا کہ آؤ گے۔ بندہ کسی
چیز کی خواہش کرتا ہے، وہ ایک چیز چاہتا ہے لیکن وہ بندہ اللہ سے محبت بھی کرتا ہے
تو اللہ اسے نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں۔ زندگی کا مقصد اللہ سے واقف ہونا ہے۔ اللہ
میں دل لگاؤ اطمینان قلب ہوگا۔“
آج مرشد کی باتیں پڑھیں تو آنسو رواں
ہوگئے۔ یہ آنسو مرشد کی محبت کے ہیں۔
خیال کا رخ تبدیل ہوا اور اس نے سوچا
تکلیف پہنچانے والوں کا انجام کیا ہوا۔۔۔۔؟
دوسروں کو تکلیف دینے والوں کو سخت سزا ملنی چاہئے ۔ خیال نے کہا۔۔۔ اپنے
لیے اللہ سے معافی چاہئے اور دوسرے کے لیے
انتقام۔۔۔؟ وہ دہل گیا۔ کہا کچھ نہیں کہ
دماغ سن ہو گیا تھا۔
خیال نے کہا، اللہ سے محبت کرنے والا
مخلوق کا ہم دم وہم درد ہوتا ہے۔ جب اپنے لیے ہدایت مانگنے والا دوسرے کے لیے
ہدایت نہیں، سزا کا منتظر ہو تو وہ اللہ کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟ اللہ نے
تمہیں معاف کیا تو وہ چاہتا ہے کہ تکلیف پہنچانے والا بھی راہ راست پر آئے۔ ایک کے
بعد ایک غلطی کرنے کے بعد جب تم مرشد کریم سے معافی مانگتے ہو تو وہ در گزر فرماتے
ہیں۔ ہر بار اس طرح سمجھاتے ہیں جیسے پہلی مرتبہ سمجھا رہے ہوں۔ جب اللہ اور اس کے
دوستوں کا دوست بننا ہے تو دوست کی طرز فکر معاف کرنا ہے۔