Topics

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

حضور ! ہاتھ۔۔۔ ہاتھ سے مل کر بھی فاصلہ موجود ہے لیکن ( دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے عرض کیا) یہاں جو قربت محسوس ہوئی وہ کیا ہے۔۔؟

فرمایا،” ہاتھ اس لئے ایک نہیں ہوئے کہ دونوں ہاتھوں کی مقداریں الگ ہیں۔ ہاتھ ملانے سے فاصلہ کی پیمائش نہیں ہو سکتی لیکن فاصلہ موجود ہے۔“

بات سمجھ میں آئی تو اس نے سر نفی میں ہلایا۔

” لیکن ہاتھ تو دو ہیں ۔ کیا اس کو قربت کہیں گے۔۔؟“

عرض کیا ، ہاتھ ۔۔۔ ہاتھ سے مل گیا۔

”کیسے۔۔؟“

جی ! فاصلہ ختم ہو گیا۔

                                                                    ایک روز پیر طریقت نے قانون سمجھایا۔۔ شئے کتنی ہی قریب ہو، خلا موجود رہتا ہے۔ وجود ایک نہیں ہوتا ، دو  رہتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا، ” کیا فاصلہ ختم ہو گیا ۔۔؟“

جب تک مرید جسم اور مرشد جان نہ  بن جائے ، خلا باقی رہتا ہے۔ خلا پر نہ ہو اور دوئی باقی رہے تو فراق۔۔ وصال اور وصال، فراق میں الٹ پلٹ ہتا رہتا ہے۔

” یک سو ہونا ، داخل ہونا ہے“ پر تفکر کیا تو ادراک ہوا داخل ہونے کا مطلب مقداروں کا ایک ہونا ہے۔ پانی ، پانی سے ملنے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں پانیوں کی مقدار ایک ہو ورنہ ساتھ رہ کر بھی وہ الگ ہوتے ہیں۔ ایک ہونے کے لئے ذہن ملنا ضروری ہے اور ذہن اس وقت ملتا ہے جب ذہن ۔۔۔ ذہن میں داخل ہوتا ہے۔یعنی جس سے محبت ہوتی ہے، اس کے حکم کی تعمیل سے اس کا ذہن ہمارے ذہن میں داخل ہو جاتا ہے ۔ صاحب دل نے فرمایا تھا کہ خیال آجائے تو خوش ہو جایا کرو۔ سارا راستہ سوچتا رہا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے ۔۔ جواب خیال ہی دے سکتا ہے ۔ بولا۔۔ خیال اس وقت آتا ہے جب کوئی یاد کرتا ہے۔

                                                پوری تحریر قانون ہے۔ جتنی بار پڑھ کر غور کیا جائے ، ایک کے بعد ایک راز کھلتا ہے۔

                                     ۴۔ مکان کے باہر کھڑے رہ کر نہیں بتایا جا سکتا کہ اندر کیا ہے۔۔ اندر کیا ہے۔۔ یہ دیکھنے کے لئے مکان کے اندر جانا ہو گا۔ ایک طرف فرد مکان کے اندر اور دوسری طرف مکان فردکے اندر داخل ہو جاتا ہے۔

                                         ۳۔ نگاہ رات میں یک سو ہو تو سیاہی سے مانوس ہوتی ۔ یک سو ہونا ، شے میں داخل ہونا ہے۔

                                                ۲۔ کسی شے سے واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اندر میں ” کنہ “ کا کھوج لگایا جائے۔

                                               ۱۔ روشنی کے لئے روشنی اور اندھیرا دیکھنے کے لئے اندھیرا ضروری ہے۔

                                               جون 2017ء کے ” آج کی بات “ میں لکھا ہے :

 ” یک سوئی“  ہے ورنہ واہمہ خیال میں ، خیال تصور میں، تصور احساس میں اور احساس مظہر میں داخل نہیں ہوگا۔ یک سو ہونا ۔۔۔ داخل ہونا ہے۔

                                                                                 غور کیا تو یہ سمجھا کہ واہمہ ، خیال، تصور ، احساس اور مظہر ۔۔ ہر مرحلہ سے واقف ہونے کے لئے مشترکہ نکتہ

فرمایا، ” جس کی تشنگی ہے اس کی طرف ذہن کر لو، وژن بنے گا تو کام ہوگا ، وژن نہیں بنا تو کام نہیں ہوگا۔“ مزید وضاحت کی ۔۔۔ ” اطلاع کے بغیر دنیا میں کچھ نہیں ہوتا۔ پہلے واہمہ آتا ہے ، پھر خیال ۔ خیال میں توجہ مرکوز ہو جائے تو تصور قائم ہو تا ہے، ذہن تصور میں یک سو ہونے سے احساس بنتا ہے اور احساس میں گہرائی مظہر ہے۔ تصور کا مظاہرہ ضروری ہے۔ مظہر بننے سے زمان و مکان مغلوب ہو جاتے ہیں۔ ایسا  ہو تو وہ ظاہر ہو جائے گا یا ہم وہاں حاضر ہو جائیں گے۔ یہ جو واہمہ اور خیال میں سمجھا رہا ہوں ، اس پر غور کرنا ۔ کوئی شے وہم، خیال ، تصور ، احساس اور مظہر سے باہر ہے ۔۔ وہم ۔۔ خیال میں تبدیل ہوتا ہے تو ہلکا سا خاکہ بنتا ہے ، اس میں ذہن رکا تو خیال فوراً تصور کی شکل اختیار کر گیا، محسوس کرنے سے مظہر بنا اور قربت مل جاتی ہے۔“

پوچھا ، کیا اس طرح تشنگی دور ہو جائے گی؟

فرمایا،” خیال آجائے تو اس پر خوش ہو جایا کرو۔“

عرض کیا کہ حضور ! محاورہ ہے، ایک انار سو بیمار لیکن جب انار ایک اور بیمار ہزاروں  ہوں تو سب کو تو انار نہیں مل سکتا، پھر کیا کیا جائے۔۔۔؟

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی

سینے سے لگالوں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی

آرام وہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

یہ آنکھیں ہیں ٹھہری ہوئی ، چنچل وہ نگاہیں

یہ ہاتھ ہیں سہمے ہوئے اور مست وہ بانہیں

پرچھائیں تو انسان کے کام آ نہ سکے گی

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

ان ہونٹوں کو فیاضؔ میں کچھ دے نہ سکوں گا

اس زلف کو میں ہاتھ میں بھی لے نہ سکوں گا

الجھی ہوئی راتوں کو یہ سلجھا نہ سکے گی

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

مصرعہ اس کے حال کے مطابق تھا اس لئے پہلی فرصت میں تلاش کیا۔ معلوم ہوا کہ غزل ہے جو شاعر فیاض ؔ ہاشمی نے  1940 ء میں لکھی۔

میں نے سوچا ، بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ ان صاحب کی بات یاد آتی ہے تو یہ مصرعہ زبان پر آجاتا ہے، پتہ نہیں محض مصرعہ ہے یا پورا کلام۔“

وہ صاحب بولے ، خواب میں دیکھنا بھی کیا دیکھنا۔۔ آنکھ کھلی، سب غائب!

                                                                  میں نے کہا، خواب میں ملاقات ہو جاتی ہے۔

مرشد کریم کے لبوں پر خوب صورت مسکراہٹ تھی۔ قلم روک دیا اور مسکراہٹ کی وجہ جاننا چاہی لیکن پوچھ نہیں سکا۔ تھوڑی دیر بعد مرشد کریم نے فرمایا۔۔۔ ” جن دنوں میں انگلینڈ میں تھا ، وہاں ایک صاحب نے کہا ، دور رہنے والوں کے لئے مشکل یہ ہے کہ طویل عرصہ بعد ملاقات ہوتی ہے۔

                                ؎                                                    تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

وہ مرشد کریم کے پاس بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا ، انہوں نے مصرعہ پڑھا،

فرمایا ، ” فرزند ! ہم بھی تمہارے فراق میں تڑپ رہے تھے۔ خالق عالم کا یہی نظام ہے۔۔ فراق کے بعد وصال اور وصال کے بعد فراق ہے ۔ شکر ادا کرو کہ آسودۂ منزل ہو گئے ورنہ بے شمار لوگ راستہ ہی میں پیاسے مر جاتے ہیں۔“

عرض کیا ، شیخ! میں بہت تھک گیا ہوں۔

شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ     نے شعر سنا تو حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانی ؒ کو گلے لگا لیا۔

ترجمہ                    :                میں آج تیرے عشق میں گرفتار نہیں ہوا بلکہ یہ گرفتاری تو روزِ ازل سے میرا مقدر ہے۔

ما بہ عشق تو نہ امروز گرفتار شدم

کہ گرفتاری مرا بہ تو زروز ازل است

                                            کچھ دیر تک جذب کی کیفیت طاری رہی۔ پھر والہانہ انداز میں شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ؒ کی طرف بڑھے اور مرد جلیل کے سامنے جھک گئے۔  دست بوسی کی سعادت حاصل کی اور شعر پڑھا،

حضرت شیخ بہا الدین زکریا ملتانی           ؒ                        ، حضرت شہاب الدین ؒ                 کی خانقاہ میں داخل ہوئے ، نظر پڑتے ہی بے اختیار دل سے آواز آئی۔۔۔” بہاالدین ! یہی تیری منزل اور یہی تیرا گوہرِ مقصود ہے۔“

اولیا ء اللہ سے متعلق ایک کتاب مطالعہ میں تھی جس میں حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی ؒ                        کی اپنے مرشد سے پہلی ملاقات کے ذکر نے بہت متاثر کیا۔ اس نے سبق آموز واقعہ کو ڈائری میں نوٹ کر لیا۔

                                              وہ کھو سا گیا ہے۔۔ اندر میں کوئی ہے جو محیط ہونے کے باوجود مطمئن نہیں اور کہتا ہے کہ نظروں میں یا پاس موجود ہو کر بھی خود سے الگ دیکھنا ، وصال نہیں۔۔۔ فراق ہے۔

                                  یاد میں میں شدت سے سینہ میں حدت بڑھتی ہے، جلن آنکھوں میں محسوس ہوتی ہے اور بدن میں نا قابل بیان سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے ۔ کیفیت برداشت سے باہر ہو جائے تو سب کام چھوڑ کر سونے کی کوشش کرتا ہے تا کہ جو وقت شعور میں نہ گزرے ، وہ لاشعور میں گزر جائے۔

ادراک ہوتا ہے کہ آنکھیں خلا ہیں ، خلا میں کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے ،۔ جاننے کی کوشش کی تو لاشعور میں دیکھا کہ آنکھ کی پتلی میں کسی کی تصویر نقش ہے، جس کی تصویر ہے وہ اس کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔

                            عرض کیا، گرڈ اسٹیشن سے ۔ اور بات ختم ہوگئی۔

                                                             پوچھا ، میں یاد کرتا ہوں یا آپ یاد کرتے ہیں؟                     فرمایا ، ” بلب میں بجلی کہاں سے آتی ہے؟“

پہلے محسوس ہوتا تھا کہ وہ مرشد کریم کو یاد کرتا ہے، اب کئی روز سے لاشعوری طور پر یہ احساس محیط ہے کہ میں نہیں، وہ یاد کر رہے ہیں۔ ابتدا میں اس کیفیت کو ذہن کی اختراع سمجھا مگر مسلسل ایک ہی کیفیت ۔۔ کیف میں سکون، سکون سے سینہ میں شور ، شور میں حرارت ، حرارت میں حدت اور حدت میں قربت کا احساس ۔۔ سب لاشعوری طور پر ایک ہی بات کہتے ہیں کہ مرید حصار میں ہے۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے لیکن لوگ اس طرف دھیان نہیں دیتے۔ جو شخص جس فرد، جذبہ یا شے کے بارے سوچتا ہے وہ اس شے ، جذبہ یا فرد کے حصار میں آجاتا ہے۔


فرمایا ۔۔” وہ اور بات ہے !“


Topics


مرشد کی باتیں

خواجہ شمس الدین عظیمی