Topics

پہلا دوسرا کچھ نہیں


گھر کے دائیں جانب درخت پر ہمیشہ خزاں رہتی۔ نہیں معلوم یہ درخت پتوں سے خالی کیوں تھا۔ جب


                            کہ جس زمین پر یہ آباد تھا وہاں چاروں طرف گھاس تھی۔ہرے بھرے پتوں سے خالی ٹہنیاں اسے اداس کر دیتیں لیکن دور دراز کا سفر طے کر کے خوش رنگ اور خوش آواز پرندوں کا کوئی جوڑا جب کچھ دنوں کے لئے اس درخت پر بسیرا کرتا تو بے موسم بہار آجاتی۔ درخت کی ایک اونچی شاخ پر گھونسلہ تھا جو کوؤں نے بنایا تھا۔ پھر وہ کسی نئی جگہ آباد ہو گئے اور یہ گھونسلہ اب سرائے بن گیا۔


        قدرت کی ننھی منی رنگ برنگی ، کومل اور ملائم، الگ الگ سروں کو بکھیرنے والی اس مخلوق کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ کتنے پرندے یہاں آتے ہیں لیکن کوئل کیوں نہیں آتی۔۔۔؟خوشی کی انتہا نہ رہی جب اگلے روز ان پرندوں میں کوئل کی کوک بھی شامل تھی لیکن کوئل نظر نہیں آئی۔ وہ گھر کے دائیں جانب مڑا تو اجاڑ درخت کی انچی شاخ پر گھونسلے کے پاس سیاہ رنگ کے پرندے کا جوڑا بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کوک گونجی اور سہانی شام مسحور ہوگئی۔ کتنی دیر میٹھے رسیلے سُروں سے خوش ہوتا رہا۔ اس نے سوچا زندگی ان میٹھے رس بھرے سُروں میں ہے۔


           اندر سے کوئی مسکرایا اور کہا ، یہ سُر تو ختم ہو جائیں گے۔


        پھر زندگی کیا ہے۔۔۔؟ اس نے خود سے پوچھا۔


        جواب آیا اس ہستی سے واقف ہونا زندگی ہے جس نے ان سُروں کو بنایا۔


        اور اسے کئی سال پہلے مرشد کریم کی کہی بات یاد آگئی۔


        امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہو اتھا۔ مرشد کریم کے پاس آیا اور اپنی خوشی میں ان کو بھی شامل کیا۔ انہوں نے مبارک باد اور دعائیں دیں اور فرمایا" یہ خوشی کی بات ہے کہ آپ کو کامیابی ملی لیکن یہ اصل کامیابی نہیں۔۔ جب تک بندہ زندگی کے مقصد سے واقف نہ ہو جائے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا اور زندگی کا مقصد اللہ کو جاننا ہے۔"


        کوئل  کی سریلی آواز نے ڈھلتی شام کا احساس دلایا۔ وہ مسکرا دیا کہ خیال سے خیال ملتا ہے اور  وہ یہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور پھر یہی خیال اسے کہاں سے یہاں لے آتا ہے۔ کسی اور کے لیے خزاں رسیدہ درخت پر کوئل  کا ہونا کشش نہ رکھتا ہو لیکن اس کے لیے دلچسپ تھا۔شاید یہ آواز پہلے سے اس کے اندر کہیں موجود تھی۔ ماضی کے دریچوں سے وہ واپس آیا اور واپس آکر پھر ماضی میں چلا گیا۔ اس بار کوئل اس کے من کے تاروں کو چھیڑتی۔ دنوں، مہینوں اور برسوں کو لمحہ  سے بھی کم وقت میں طے کر کے بچپن میں لے گئی اور شام گہری رات کی خاموشی میں بدل گئی۔


        تاروں بھری رات میں اچانک بانسری کی آواز سنائی دی وہ حیرت زدہ ہو کر ٹیرس پر گیا۔ چاند کا چہرہ اتنا پر نور تھا جیسے سجدہ میں ہو۔ستارے بھی عبادت میں مگن ، منور تھے۔ زمین پر ہر طرف سناٹا تھا۔ بانسری کی آواز کی لہریں سناٹے کو توڑتی ہوئی دل کے اس حصہ سے ٹکرائیں جہاں احساسات بنتے اور محسوس ہوتے ہیں۔ وہ بانسری کا دیوانہ تھا۔ یہ آواز اس کے اندر ان تاروں کو چھیڑتی جو اسے کسی کھوج کی طرف مائل کرتے۔ خاموشی سے بیٹھ کر بانسری سننے لگا۔ بجانے والا کون تھا، غرض نہیں تھی۔ نانی اماں جب بانسری کے لیے اس کا یہ شوق دیکھتیں تو پریشان ہو جاتیں اور فوراً وہاں سے ہٹا دیتیں کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ جائے اور وہ ہنس پڑتا۔

        کوئل  اور بانسری کی آواز میں  کتنی مماثلت ہے۔ جو کھوج، کسک اور کشش کوئل  کی کوک میں ہے وہ بانسری کے سُروں میں ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ جو سازینے سانس سے زندہ ہوتے ہیں ان کا پہلا سُر ، چاہے وہ کسی لے یا انگ رنگ سے ہو، سرمدی ہوتا ہے۔ اس نے سوچا پہلا سُر سرمدی ہوتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں، دوسرا سانس بھی تو پہلا ہوتا ہے۔

        خیال نے بتایا پہلا اور دوسرا کچھ نہیں ، جو ہے بس سانس ہے اور یہ سانس خود کو بار بار دہرا رہا ہے۔ بجانے والا جب صفات ِ الہٰی میں مگن ہو تو ہر سُر سرمدی ہو جاتا ہے۔ وہ جو کچھ بولتا ہے کیئر آف اللہ بولتا ہے۔

        پرندوں کی آواز، بانسری کی آواز، سرسراتے پتوں کی آواز، ہوا کی آواز اور اس کے اندر کی آواز۔۔ ہر طرف آوازیں ہیں۔۔ یہ آوازیں نہیں ساز ہیں۔ اتنا سوچ کر اس نے ہاتھ میں موجود کتاب کھولی تو اول صفحہ پر مرشد کریم کی روشن تحریر جگمگا رہی تھی اور عنوان تھا،


زندگی                                                      کا                                                             ساز                                                بھی                                                       کیا                                                            ساز                                                   ہے

بج                                             رہا                                              ہے                                                    اور                                                         بے                                                           آواز                                                                                    ہے

      اس نے توجہ باہر کی دنیا سے ہ  اندر کی دنیا کی طرف مرکوز کر دی۔ لکھا تھا،


                                                                         "   آواز تو آپ سنتے رہتے ہیں جو نہیں سنتے وہ بھی سنتے ہیں اس لیے کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں وہ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اللہ کے قانون کے مطابق آواز کی طولِ موج ( wave length )  ختم نہیں ہوتی۔۔ برقرار رہتی ہے۔ یہ مرحلہ اظہار بیان سے مخفی ہے کہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں اور آوازوں کی ویو لینتھ کس قانون کے تحت تسلسل سے جاری ہے۔۔؟ آواز کی لہروں کا اور لہروں کے مدوجزر کا ایک ضابطہ ہے اور یہ ضابطہ علم ہے۔ جس طرح ہر شے بولتی ہے بانسری بھی آہ و فریاد کرتی ہے۔ بانسری کی آواز سنیے۔ سوچئے وہ کیا بول رہی ہے۔

        بانسری اپنے کنبہ برادری میں، کنبہ کے افراد کے ساتھ جنگل میں رہتی تھی۔ کھلا آسمان تھا ، زمین پر قطار در قطار درختوں کے قافلے تھے، اودے اودے نیلے نیلے پیرہن، پھولوں سے برات سجی ہوئی تھی، فضا میں عطر بیز خوشبو ؤں کے طوفان اٹھتے تھے۔ دن کی روشنی میں پرندوں کے غول ترانے گاتے ہوئے اڑتے تھے۔ غزال چوکڑیاں بھرتے ہوئے ادھر اُدھر محو رقص تھے۔ ندی ، نالے، دریا، سمندر، زمین کی زینت تھے۔ خمار آلود سبک رفتار ہوائیں چلتی تھیں۔ آسمان پر کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ دن چین، رات سکون کا گہوارہ تھی۔"

بقیہ کہانی مرشد کریم نے بانسری کی زبانی سنائی۔۔۔۔

        " میں اپنے کنبہ برادری کے ساتھ محو استراحت تھی کہ کوئی ابلتی آنکھوں والا خشک چہرہ آیا اور مجھے اغوا کر لیا۔میں قیدی بن کر آگئی۔ پھر یہ ہوا کہ اس خشک چہرہ آدمی نے میرے انگ انگ میں کسی نوکیلی چیز سے سوراخ کر دیئے۔صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میرے چہرہ کو مسخ کر کے مجھے سانپ کا پھن بنا دیا۔ مجھے تو اب بھی یہ معلوم نہیں کہ میں کس دیس کی باسی ہوں۔۔ میں کیا ہوں۔۔ میرا کنبہ، قبیلہ، خاندان کہاں غائب ہو گیا۔۔۔؟

        بےرحم آدمی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ میرے جسم میں گھاؤ ڈال دیئے۔ جب آدمی میرے منہ کو اپنے ہونٹوں میں قید کر کے سانس کی دھونکنی سے مجھے تکلیف دیتا ہے، میں آہ و زاری کرتی ہوں اور جدائی کی تڑپ میں فریاد کرتی ہوں۔ میں سوال کرتی ہوں کہ اگر کسی کو اس کے قبیلہ، خاندان ، اس کے بہن بھائی اور ماں باپ سے جدا کر دیا جائے تو کیا وہ میری طرح آہ و زاری نہیں کرتا۔۔۔؟

        آدمی جب میرے جسم میں اپنی توانائی اس لئے داخل کرتا ہے کہ آدم زاد اس سے خوش ہوں، متاثر ہوں اور سننے والے کی دنیا زیرو زبر ہو جائے تو میں اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتی ہوں کہ۔۔ اضطراب، بے چینی اور جدائی کا عذاب آدمی کو بھی ملا ہے جس نے ظلم کر کے میری آزادی کو سلب کیا ہے اور خاندان میں اضطراب کی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ آدمی خود اپنے کیے پر شرمندہ  تو نہیں  لیکن اضطراب کی آگ اسے بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس سے تکلیف تو کم نہیں ہوتی لیکن یہ بات میرے باطن میں روشن ہو جاتی ہے کہ جدائی کا اضطراب آدمی کو بھی  چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔"

کتنی دیر مرشد کریم کے لکھے گئے لفظوں پر غور کرتا رہا اور خود سے پوچھا کہ بانسری کیا ہے۔۔؟ اس کا خاندان اور کنبہ برادری کون ہے۔ کیوں آدمی بانسری کو جدائی کی ناقابل بیان تکلیف دے رہا ہے اور خود بھی بے سکون ہے۔مرشد پڑھنے والوں، اپنے بچوں، بیٹیوں اور بیٹوں کو جو ان کے شاگرد بھی ہیں، کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔؟

        ذہن میں خیال آیا۔ اس نے بانسری کی جگہ اس خیال کو رکھ کر ایک بار پھر بانسری کی کہانی پڑھی۔

خیال نے بتایا بانسری ، بانسری، روح کی آواز ہے۔ روح کی فطرت میں آزادی ہےلیکن آدمی نے روح کو مٹی کے جسم میں قید کر دیا ہے اور یہ قید دونوں کو مضطرب رکھتی ہے۔روح خالق کا وصال چاہتی ہے لیکن خاک، خاک میں مل جانے پر مصر ہے۔ فراق کی گھڑیاں روح کے لیے قیامت ہیں لیکن خاک بھی چین سے نہیں۔ بظاہر پتلا نظر آتا ہے مگر منتشر ہے۔ اس انتشار نے زمین پر موجود کتنے قوانین اور چیزوں کی شکل مسخ کر دی ہے۔ خود آدمی کی صورت بھی وہ نہیں رہی جس پر وہ پیدا ہواتھا۔ خاک نے اپنی بدنیتوں، کثافتوں اور بداعمالیوں سے روح کو ایسے گھاؤ دیئے ہیں کہ جب وہ آہ وزاری کرتی ہے تو ماں زمین بھی اس کرب کو محسوس کرتی ہے۔ زمین کی خوب صورتی راحت و ترتیب میں ہے لیکن خاک نے خاکسار نہ ہو کر اسے فراق کا وہ غم دیا کہ صورت بگڑ چکی ہے اور دامن لہو لہو ہے۔

        باطنی علوم کے ماہرین بیان کرتے ہیں کہ دنیا سترہ بار ختم ہو کر دوبارہ آباد ہوئی ہے۔تقریباً ہر دس ہزار سال بعد زمین میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ سمندر کے نیچے کی زمین اوپر آجاتی ہے اور شہروں میں بسی آبادیاں پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ پہلے دنیا طوفان نوح سے ختم ہوئی تھی اور یہ طوفان ایک بڑھیا کے تنور سے شروع ہو ا تھا جو عراق میں ہے۔ حضرت نوح ؑ کا وطن موجودہ عراق تھا۔ کہتے ہیں کہ آج بھی تنور کے مقام پر سخت سڑی ہوئی بو پھیلی ہوئی ہے۔

        بتایا جاتا ہے کہ سال  2006 میں طوفان نوح ؑ کو دس ہزار مکمل ہو چکے ہیں اور 2006 ءکو  بھی گزرے آٹھ سال ہو چکے ہیں۔

سوچا آئندہ دنیا کیسی ہوگی، مرشد کریم سے جانے گا۔ لیکن ایسی بات پوچھتے ہمیشہ ڈرتا تھا۔ کون سے اچھے اعمال تھے اس کے جو وہ دنیا کا مستقبل پوچھے۔ کیا وہ نہیں جانتا جس ڈگر پر فرد ، قوم اور اقوام عالم گامزن ہیں ، وہ انھیں کہاں لے کر جا رہی ہے۔اگر جو مرشد نے کہا کہ پہلے اپنا احتساب کرو پھر سوال کرو۔۔تو؟

        اندر سے کسی نے کہا ، کیا ہوا جو وہ ڈانٹ دیں کیا تمہاری انا اتنی بڑی ہے۔۔۔؟

        وہ فوراً بولا ، نہیں ایسی بات نہیں۔

        اندر والا مسکرایا اور کہا، بات تو ایسی ہی ہے اگر ایسی نہیں تو پھر بتاؤ کیسی ہے۔۔۔؟

        اس نے کہا، ڈانٹ سے میرا دل بہت چھوٹا ہو جاتا ہے اور پھر بھی میں یہ نہیں چاہتا کہ میری بات مرشد کریم کی ناراضی اور ناگواری کا سبب بنے۔

        اندر میں آواز نے کہا، اگر دوسری بات پہلے کہتے تو بہتر تھا لیکن تم نےتو پہلے خود کو رکھا۔ کیا یہ انا نہیں۔۔؟ مرشد کا پہلے سوچو گے تو خود سمیت کسی کے ذکر کی حاجت نہیں رہے گی۔

        اسے غلطی کا احساس ہوا۔ اس زاویہ سے کبھی سوچا نہیں تھا۔ مہربانی اندر والے کی جو راہنمائی کی۔

        اندر میں پھر کسی نے کہا،میرے دوست ! احتساب لازمی ہے اور مرشد کا ادب بھی لیکن یاد رکھو !

ڈر اور ادب میں فرق ہے۔ ڈر فاصلے پیدا کرتا ہے اور ادب۔۔۔ پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!

        ڈر اور ادب سے مرشد کریم کی بات یاد آگئی۔ ان کی شخصیت کتنی باوقار ہے اور وقار کی لہروں میں جو رعب ہے، مرید محسوس کرتا ہے اس لیے روحانی سلاسل میں " باادب بانصیب " پہلا سبق ہے۔ مرید وہ ہے جو ادب کو مرشد کی جسمانی طور پر موجودگی میں بھی ملحوظ خاطر رکھے اور غیر موجودگی میں بھی حاضر سمجھے، علمی نشست کے دوران اگر کسی کو ڈانٹ پڑ جاتی تو سب دہل کر خاموش ہو جاتے۔

        یہ دیکھ کر شفیق مرشد نے سمجھایا۔۔۔ " میرے بچو! ڈر اور ادب میں فرق ہے۔ ڈر خوف کو بڑھاتا ہے اور ادب سے محبت بڑھتی ہے۔ میرے ہزاروں شاگرد ہیں۔ کیا میں سب کو ڈانٹتا ہوں؟ جسے ڈانٹتا ہوں اس کے لیے سعادت ہے۔"


        یہ سننا تھا کہ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور سب نے کلاس کی سرگرمی میں حصہ لیا۔



 


        جب وہ کلاس کا حصہ بنا تو آخری نشستوں پر بیٹھتا تھا۔آگے بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور پیچھے بیٹھنے سے خوف بڑھ جاتا ۔ اس کیفیت سے نکلنا چاہتا تھا۔ خیال نے راہ نمائی کی اور سمجھایا کہ معاشرہ  کا سامنا کرنے کے لیے جو اعتماد بچہ کو باپ سے ملتا ہے وہ کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ اور مرشد تو وہ شفیق باپ ہیں  جو ماں بھی ہیں، دوست بھی ہیں اور استاد بھی، راہ بر بھی ہیں ، راستہ اور منزل بھی، اتنے رشتے اور سارے مہربان۔۔۔ کوئی کیوں کر اور کیسے دور رہے۔ تم محدود حواس میں رہتے ہو، بھلا تمہارا جواب بھی کیا جواب ہوگا۔ تمہارے مرشد کو اس سے غرض نہیں کہ جواب صحیح ہے یا غلط۔۔ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ کوشش کون کرتا ہے، پڑھ کر کون آتا ہے۔


با ادب با نصیب۔۔ بے ادب بے نصیب


        یہ باتیں ہمت بڑھانے کے لیے کافی تھیں۔ سوچا مرشد کریم کی خدمت میں جب وہ بیٹھا ہوگا اور اسے خیال آئے کہ دنیا کے مستقبل کے بارے میں سوال پوچھنا ہے تو عرض کرے گا لیکن اگر ذرا بھی کھٹکا ہو گیا اور اندر والے نے خبردار کیا کہ نہیں۔۔۔ تو ایسی غلطی نہیں کرے گا۔

Topics


مرشد کی باتیں

خواجہ شمس الدین عظیمی