Topics
ماحولیات کے سائنسدانوں نے قطبین پر سے برف کے نمونہ لے کر اس کا تجزیہ کیا ہے انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائیٹروجن اور آکسیجن کے مرکبات اور سلفر و آکسیجن سے بننے والی گیسوں کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار نمونے اکٹھے کئے ہیں۔ ان کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ہر دس ہزار سال بعد ہوا میں ان گیسوں کی مقدار اپنی انتہا کو پہنچ کر اچانک نیچے گر جاتی ہے اور یہ سائیکل ہر دس ہزار سال بعد دہرایا جاتا ہے۔
یہ گیسیں زیادہ تر صنعت میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے فضاء میں بڑھ جاتی ہیں، جب صنعتی ترقی صفر تھی یا دوسرے لفظوں میں جب انسان Stone Ageمیں تھا اور کوئی صنعتی ترقی نہیں تھی ان گیسوں کا اخراج کم سے کم لیول پر تھا، جوں جوں دنیا میں صنعت نے ترقی کی ان گیسوں کا ہوا میں تناسب بڑھتا گیا۔
سائنسدان ہر دس ہزار سال میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ Ice Ageکے آثار کو بتاتے ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال کے مطابق ہر دس ہزار سال کے بعد زمین پر ایسا زمانہ آتا ہے جس کو ہم ’’آئس ایج‘‘ کہہ سکتے ہیں، آئس ایج کی وجہ سے زمین پر گیسوں کا اخراج کم ہو جاتا ہے، موجودہ دور کے ماحولیاتی سائنسدانوں کا قیاس ہے کہ یہ تبدیلی آئندہ تیس سال کے اندر آ سکتی ہے یعنی پچھلی آئس ایج سے اب تک تقریباً دس ہزارسال گزر چکے ہیں۔
روحانی سائنسدانوں کے نزدیک ہر دس ہزار سال کے بعد میں زمین میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ جہاں سمندر ہے وہاں زمین ظاہر ہو جاتی ہے اور جہاں زمین ہے وہاں سمندر آ جاتا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں طوفان نوح کو گذرے ہوئے دس ہزار سال ہو جائیں گے اور سال ۲۰۰۶ء کے بعد بتدریج زیادہ ہوتے ہوتے طوفان نوح جیسا ایک سیلاب آئے گا اور زمین پر سے صنعتی ترقی ختم ہو جائے گی، انسانوں کی آبادی چھ ارب سے کم ہو کر ایک چوتھائی رہ جائے گی اور دوبارہ Stone Ageشروع ہو جائے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کوئی سورہ، کوئی آیت اور کوئی نقطہ مفہوم و معانی سے خالی نہیں ہے۔ اﷲ کے علوم لامتناہی ہیں۔ اﷲ کا منشاء یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھائیں اور اﷲ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ قرآن پاک میں انبیاء سے متعلق جتنے واقعات بیان ہوئے ہیں ان میں ہمارے لئے اور تمام نوع انسانی کیلئے ہدایت اور روشنی ہے۔ کتاب محمد رسول اﷲ۔ جلد سوئم میں عظیمی صاحب نے مختلف انبیاء کرام کے واقعات میں روحانی نقطۂ نظر سے اﷲ تعالیٰ کی حکمت بیان فرمائی ہے۔