Topics
دن کا بیش تر حصہ وہ کتابوں کے مطالعہ اور قرآن کریم میں غور و فکر میں صرف
کرتا ہے۔اس کے علاوہ کوئی کام ایسا نہیں جس میں اس کا دل لگے۔ کسی وقت ذہن پر بوجھ
محسوس ہو تو کتاب اس کے کام آتی ہے۔ ذہن لمحوں میں یکسو ہو کر نیند کی دنیا میں گم
اور وزن بے وزن ہو جاتا ہے۔ جو باتیں کتاب میں پڑھتا ہے وہ خواب میں نظر آتی ہیں۔
کتابوں سے اس حد تک دوستی ہے کہ جس دن قرآن کریم کو زیادہ وقت دیتا ہے، خواب میں
بھی قرآن پڑھتا ہے۔ جس آیت پر غور کرتا ہے، خواب میں الفاظ کی تکرار ہوتی ہے۔ جو
قانون سمجھنا چاہتا ہے، خواب میں بھی دہراتا ہے۔
نیند کی دنیا میں داخل ہو ا تو دیکھا کسی
کا عرس ہو رہا ہے اور وہ دسویں پارہ کے پہلے رکوع کی ترجمہ کے ساتھ تلاوت کر رہا
ہے۔ نیند سے جاگا تو زبان پر ” واعلموا“ اور ” واعتصموا بحبل اللہ جمیعاولاتفر قوا“ کا ورد
تھا۔ یاد آیا کہ دسواں پارہ ” واعلموا“ کے الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔پھر دیکھا کہ وہ
ظاہر اور باطن سے متعلق آیت کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے
کہ ” وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے“۔ جاگنے کے بعد قرآن کریم کھول کر دیکھا کہ دسویں
پارہ کے پہلے رکوع میں کیا لکھا ہے اور اس کا خواب میں پڑھی جانے والی دوسری آیات
سے کیا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ خواب کے ذریعے کس جانب متوجہ کر رہے ہیں۔۔۔؟
قرآن کریم کے
دسویں پارہ کے پہلے رکوع کا ترجمہ ہے،
” اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت
تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ؐ اور رشتہ داروں اور
مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو
فیصلہ کے روز یعنی دونو ں فوجوں کی مڈبھیڑکے دن ہم نے اپنے بندہ پر نازل کی تھی، (
تو یہ بخوشی ادا کرو) اللہ ہر چیز پر قادر
ہے۔ یاد کرو وہ وقت جب کہ تم وادی کے اس جانب تھے اور دوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے
تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف تھا۔اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور اس کے درمیان مقابلہ کی قرار داد
ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کرجاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا، وہ اس
لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہور میں لے آئے تا کہ جسے ہلاک
ہونا ہووہ دلیل ِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو۔
اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل ِ روشن کے ساتھ زندہ رہے۔ یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور یاد کرو وہ وقت جب کہ
اے نبی ؐ ، اللہ ان کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر کہیں وہ تمہیں ان
کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار
جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اس سے
تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو جب کہ مقابلہ کے
وقت اللہ نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں
تمہیں کم کر کے پیش کیا تاکہ جو بات ہونی تھی اسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخر
کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع
ہوتے ہیں۔“ (الانفال
: ۴۱۔ ۴۴ )
” اللہ کی رسی
کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو۔“ ( ٰال عمران : ۱۰۳ )
کچھ خواب دن کی طرح روشن ہوتے ہیں یا ضمیر
راہ نمائی کر دیتا ہے۔ ان آیات سے وہ یہ سمجھا کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر
بحیثیت مسلمان ہم جس طرح فرقوں میں بٹ گئے
ہیں اس نے تیل اور دوسرے معدنی ذخائر کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود نقصان پہنچانے
والوں کی نظر میں ہمیں تھوڑا کر دیا ہے۔ اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت سے دور ہو کر
ہمارے اندر جو کمزوری پیدا ہو گئی ہے اس نے پیروں کے نیچے سے زمین نکال لی ہے۔
جب ہم نصیحتیں کرتے ہیں تو ”ہم“ کہنے کے
باوجود ہم اس میں نہیں ہوتے۔ جب کہ اللہ کے دوستوں کا طریق یہ ہے کہ وہ صدیق ہیں۔ ان
کا قول ، فعل اور فعل، قول ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی سنت تفکر ہے۔ جب تک مسلمانوں نے
قرآن میں تفکر کو شعار بنایا، علم کے ہر شعبہ میں سکہ جمایا۔
سائنس کا آغاز یونان سے ہوا جو ساتویں صدی عیسوی تک اس کرۂ ارض پر سب سے
زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا۔ جب یونان جنگ کا حصہ بنا تو ترقی رک گئی۔ اس وقت تک
اسلامی دنیا میں یونانی حکما کی کتابوں کے تراجم پر کام شروع ہو چکا تھا۔یونانی
اور مسلم محققین میں نمایاں فرق یہ تھا کہ اہل یونان کے علوم نظریاتی تھے جب کہ
مسلم محققین نے علوم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر رکھی اور ان میں بیش بہا اضافہ
کیا۔ اگلے پانچ سو سال تک اسلامی دنیا سائنس و ٹیکنا لوجی کا مرکز رہی جس کا دار
الخلافہ بغداد تھا۔ کوئی ایجاد یا دریافت ایسی نہیں ہے جس کا سہرا مسلمانوں کے سر
نہ ہو۔ اس امر کا ذکر مشہور مصنف میکس مائر ہاف (Max Meyerhof) نے اس طرح کیا ہے۔
” ڈوبتے ہوئے یونانی سورج ( علم) روشنی کو لے کر اسلامی
سائنس کا چاند اب چمکنے لگا اور اس نے یورپ کے قرون وسطیٰ کی تاریک ترین رات کو
روشن کیا۔ یہ چاند بعد میں یورپ کے نشاۃ ثانیہ کا دن طلوع ہونے کے بعد ماند پڑ
گیا۔“
مسلمانوں کا
زوال اس وقت شروع ہوا جب تفکر کی تحریک کمزور ہوئی۔ اس دوران یورپ میں عربی کتابوں
کے لاطینی اور دیگر زبانوں میں تراجم شروع ہو چکے تھے۔ یورپ اور امریکہ کی درس
گاہوں میں پڑھائے جانے والے تمام علوم مسلمانوں کی کتابو ں کے تراجم ہیں جن سے
وہاں کے محققین نے فائدہ اٹھایا۔ان علوم میں جو اضافہ کیا گیا اس کی بنیاد مسلمان
محققین کا کام ہے جنہوں نے ریسرچ کی بنیاد مشاہدہ پر رکھی۔مسلمانوں نے جب یونانی
کتابوں کے تراجم کیے تو نام تبدیل نہیں کئے لیکن مغرب نے ترجمہ کرتے ہوئے محققین
اور کتابوں کے ناموں کا بھی ترجمہ کر کے بیش تر مقامات پر انہیں اپنے محققین سے
منسوب کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں انسائیکلو پیڈیا اور تاریخِ سائنس کی کتابوں
سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کو پروان چڑھانے میں صرف مغرب کا عمل دخل ہے۔
مصنف
محمد زکریا ورک نے اپنی کتاب ” مسلمانوں کے سائنسی کارنامے“ کے ایک حصہ میں
ان سائنسی حقائق کو بے نقاب کیا ہے جن کی تعلیم یورپ اور امریکہ میں دی جاتی ہے
مگر ان میں مسلمان محققین کی دریافتوں اور سائنس کی ترقی میں ان کا حصہ کا تذکرہ
نہیں کیا جاتا۔ کتاب علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تحت شائع کی گئی ہے۔ کتاب میں
موجود حقائق میں چند کو مختصر کر کے لکھا جا رہا ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ آئزک نیوٹن
نے روشنی (light)، عدسہ (lens) اور پرزم کا
صحیح مصرف بیان کیا جو علمِ مناظر (optics) کی بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علمِ مناظر
( بصریات)
کا جد امجد عظیم مسلمان محقق ابن الہیشم ہے جس نے گیارہویں صدی میں آنکھ کے
مختلف حصوں کی تشریح کی۔ آنکھ کے بیچ ابھرے ہوئے حصہ کا نام عدسہ تجویز کیا۔ یہ
مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ عدسہ کا لاطینی ترجمہ لینس ہے۔ لاطینی میں مسور کو
lentil کہتے ہیں جس سے
لفظ لینس بن گیا۔ ابن الہیشم کی حد بی عدسوں پر تحقیق کے سبب یورپ میں مائیکرو
اسکوپ اور ٹیلی اسکوپ ایجاد ہوئیں۔
روشنی کے قوانین ابن الہیشم نے دریافت
کیے۔لیکن مغرب نے آئزک نیوٹن سے منسوب کر
دیا۔اس نے آنکھ کی فزیالوجی ، فریب نظر (optical
illusion)
، علم ِ تناظر (perspective) ، دور بینی
تصویر
(
binocular vision) ، رنگ، سراب (mirage) ، انعکاس اور
انعطاف کے نظریے، علم ِ مرایا diotrics/catoptrics)
( ہالے(holes) ، قوس قزح (rainbow) ، کہکشاں(galaxy) ، دم دار ستارے
(comet) جیسے گہرے
موضوعات پر سائنسی توجیہات پیش کیں۔
اس نے تجربہ کیا کہ سورج اور چاند افق پر
بڑے نظر کیوں آتے ہیں اور ڈوبتے اور نکلتے کیسے ہیں۔ستارے رات کے وقت جھلملاتے
کیوں ہیں۔ اللہ نے انسان کو ایک کے بجائے دو آنکھیں کیوں دی ہیں ۔ چھڑی کو پانی
میں رکھا جائے تو وہ ٹیڑھی کیوں نظر آتی ہیں۔ ہم کس طرح دیکھتے ہیں اور ہمیں چیزیں
کیوں اور کیسے نظر آتی ہیں؟
گوگل کیجئے تو کیمرے کا موجد مغربی محققین
کو بتایا گیا ہے۔ کیمرے کا موجد ابن الہیشم ہے۔ اس نے تجربہ سے ثابت کیا کسی تاریک
کمرے کی دیوار میں چھوٹا سوراخ سورج کے رخ پر ہو اور اس سوراخ کے دوسری طرف کمرے
میں ایک پردہ اس طرح ہو کہ باہر کی روشنی کا عکس اس پردہ پر پڑے تو پردہ پر جن
اشیا کا عکس بنے گا وہ الٹی نظر آئیں گی۔ اس کو کیمرا آبسکیورا کہا جاتا ہے۔ صدیوں
بعد کیمرا اسی اصول کے تحت بنایا گیا۔
قطب الدین شیرازی نے ابن الہیشم کے کیمرا
آبسکیورا پر مزید تجربات سے بتایا کہ کیمرے میں چھوٹے سوراخ سے روشنی کے آنے پر جو
عکس بنتا ہے وہ سوراخ کے سائز پر منحصر ہوتا ہے۔ سوراخ جتنا چھوٹا ہوگا، عکس اتنا
شفاف بنے گا۔
کہا جاتا ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے نظریہ
پیش کیا کہ سفید روشنی مختلف رنگوں کی شعاعوں سے بنتی ہے جب کہ یہ دریافت ابن
الہیشم اور چودھویں صدی کے ایرانی محقق کمال الدین فارسی کے سر ہے۔ ابن الہیشم نے
اصول ِجمود (Law
of Inertia) دریافت کیا۔ صدیوں بعد یہی اصول گیلیلیو اور نیوٹن کے قوانین حرکت کا
جزو قرار پایا۔
مغرب کے مطابق دنیا کی پہلی لیبارٹری (1546-1601) Tycho Brahe نے تعمیر کی۔ حقیقت یہ ہے
کہ ماہر فلکیات ابن اسحٰق الکندی نے باقاعدہ اس نظام کی پیش رفت کی۔
خلیفہ مامون کے عہد میں بغداد میں متعدد ر
صد گاہیں تھیں۔ کہا جاتا ہے اڑنے کی مشین کا ڈایا گرام بنا کر پرواز کا پہلا تصور
راجر بیکن نے 1929 ء میں پیش کیا جب کہ قرطبہ کا باشندہ عباس ابن فرناس وہ پہلا
شخص تھا جس نے نویں صدی میں فلائنگ مشین بنائی اور تماشائیوں کے سامنے قرطبہ کی
پہاڑی سے کچھ دور لمبی پرواز کی لیکن اس کے glider میں اترنے کے لیے پرندوں
جیسی دُم نہیں تھی اس لیے اسے اترتے وقت چوٹیں آئیں۔
اہل یورپ کہتے ہیں کہ شیشہ کے بنے ہوئے
آئینوں کی ایجاد وینس میں 1291ء میں ہوئی۔ جب کہ وینس کے لوگوں نے شیشہ سازی کا
علم شام کے ماہرین سے نویں اور دسویں صدی میں حاصل کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلی
Menchanical
clock
میلان میں 1335ء میں بنائی گئی لیکن پہلی گھڑی اسلامی سپین میں ابن فرناس نے نویں
صدی میں بنائی۔ اس کا نام المقاطہ تھا۔
پینڈولم کی ایجاد سترویں صدی میں گیلیلیو
سے منسوب کی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قاہرہ کی سائنس اکیڈمی کے عبدالرحمٰن ابن یونس
نے 1009 ء میں وقت کی پیمائش کے لیے پینڈولم ایجاد کیا۔کہا جاتا ہے کہ trigonometry کو یونانیوں نے
فروغ دیا۔ یونانیوں کا علم نظریاتی تھا۔البتانی وہ پہلا محقق ہے جس نے ٹر گنو
میٹری کی اصطلاحیں سائن (sine) ، کو سائن اور ٹینجنٹ
استعمال کیں۔سائن کی اصل عربی ” جیب“ ہے جس کا لاطینی ترجمہ سائن ہے۔ اس نے شمسی
سال پر تحقیق کی اور دریافت کیا کہ ایک سال 365 دن، پانچ گھنٹے، چالیس منٹ اور
چوبیس سیکنڈ طویل ہوتا ہے۔
لو گارتھم اور لوگارتھم ٹیبلز کی دریافت John Napier سے منسوب کی جاتی ہے جب کہ الگورتھم کا لفظ
الخوارزمی کے نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ابن شاطر نے مرکری کی حرکت اور چاند کا جو
ماڈل تیار کیا اسے ہو بہو بعد میں کو پر نیکس نے پیش کیا۔ جامع کمالات رازی پہلا
کیمیا دان تھا جس نے بیان کیا کہ گندھک (Sulphur) ، نمک (Salt) اور پارہ ( Mercury) ہر قسم کی اشیا میں پائے جاتے ہیں۔ یورپ
میں Paracelsus نے اسے صدیوں بعد دریافت
کیا۔
عظیم سرجن ابو القاسم زہراوی نے اپنی کتاب
میں سرجری کے دو سو آلات کی تصویریں دی ہیں۔اس کے علاوہ اس نے نقلی دانت (Denture) گائے کی ہڈی سے بنائے اور orthodontistry کی بنیاد رکھی۔
عدیم المثال طبیب محمد بن زکریا رازی نے بغداد میں ہسپتال کی تعمیر کے لیے شہر کے
مختلف علاقوں میں گوشت لٹکانے کے بعد مشاہدہ کیا کہ کس جگہ پر گوشت سب سے آخر میں
خراب ہوا اور اس مقام پر ہسپتال تعمیر کرنے کا مشورہ دیا۔
یورپ میں کہا جاتا ہے کہ کوپرنیکس( 1473 – 1543) نے سب سے پہلے
زمین کی گردش کا نظریہ پیش کیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سجستانی پانچ سو سال قبل اس
نظریہ کو دلائل کے ساتھ بیان کر چکا ہے۔ ابو الحسن احمد نسوی کی اہم دریافت (1030ء)
وقت کی تقسیم در تقسیم ہے۔ اس نے دقیقہ اور ثانیہ کے الفاظ دیئے جس کا انگریزی میں
ترجمہ منٹ اور سیکنڈ کیا گیا۔بلبل ہزار داستان اور معروف ریاضی دان عمر خیام نے
سال کی مدت
365.24219858156 دن نکالی جب کہ
اس وقت کمپیوٹر نہیں تھے۔
عبدالرحمن الصوفی وہ پہلا عالمی ہیئت دان
ہے جسے خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چاند کے 47 کلو میٹر کریٹر(crater) کا نام الصوفی (Azophi) رکھا گیا ہے۔ ابو اسحٰق
الکندی نے چاند کی 28 منزلیں بیان کیں۔
طب میں ابن سینا کے نام سے کون واقف نہیں۔
رازی اور ابن سینا نے ذہنی امراض کی تشخیص اور ان کے علاج کے لیے ایسے طریقے
استعمال کیے جو فرائڈ اور کارل یونگ نے بیسویں صدی میں مریضوں پر آزمائے۔ ابن سینا
نے جریان کے امیر قابوس بن و شمگیر کے بھانجے کا علاج Word Association سے کیا جو آج بھی عمدہ
نفسیاتی طریقۂ علاج ہے۔
قابوس بن وشمگیر کا بھانجا ہر وقت خاموش
پڑا رہتا ۔ ابن سینا نے مریض کی نبض دیکھی اور کہا کسی ایسے شخص کو بلایا جائے جو
جرجان کے گلی کوچوں سے واقف ہو۔ وہ شخص آیا تو
ابن سینا نے اسے گلی کوچوں کے نام ٹھہر ٹھہر کر بتلانے کو کہا۔ شیخ کی نظریں مریض
کے چہرہ پر تھیں ۔ وہ شخص نام بولتا جاتا رہا
تھا۔ ایک محلہ کا نام آیا تو شیخ نے نبض میں عجیب حرکت محسوس کی۔ مریض کا رنگ بدل گیا۔ اب شیخ نے کسی ایسے شخص کو بلانے کا کہا جو
محلہ کے سب گھروں سے واقف ہو اور ہر ایک کا نام جانتا ہو۔ ایک گھرانے کا نام آیا
تو مریض کی حالت غیر معمولی اور نبض تیز ہو گئی۔ گھر والوں کے نام دہرانے پر مریض
تڑپنے لگا۔ ابن سینا نے امیر قابوس سے کہا، یہ نوجوان عشق میں مبتلا ہے۔ فلاں
محلہ کے فلاں گھر جو خاتون رہتی ہے اس سے
اس کی شادی بلالیت و لعل کر دی جائے۔ شادی کر دی گئی اور مریض صحت یاب ہو گیا۔
مسلمان محققین کے کارناموں کی فہرست طویل
ہے اور صفحات کم۔ موجودہ سائنس کی ترقی ان کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن بعد کے دور میں
ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ پر غلبہ کی وجہ سے ایجادات مغرب سے منسوب کر دی گئیں
ہیں۔
مسلمانوں کی ایجادات لکھنے کا مقصد قصہ
کہانیاں سنانا نہیں بلکہ یہ سوچنا ہے کہ عہد رفتہ کے مسلمانوں اور ہم میں کیا فرق
ہے۔۔۔۔؟ وہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔۔۔؟
بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے حکم پر عمل کر کے کائنات میں تفکر کیا اور
تفرقہ سے محفوظ رہے۔ آج پدرم سلطان بود پر مسلمانوں کو فخر ہے لیکن باپ نے اس کے
لیے کیا کیا۔۔ مسلمان جانتے ہوئے بھی انجان ہیں۔
اللہ نے پاکستان جیسا ملک عطا کیا۔ کون سی
ایسی نعمت ہے جو یہاں نہیں۔ سارے موسم، ان کے پھل، زرخیز زمین، زیرِ زمین معدنیات
کے ذخائر۔۔ محاسبہ اپنے آپ سے شروع کیا جائے تو کس کا دامن کتنا داغ دار ہے جواب
دن کی طرح روشن اور حقیقت رات کی طرح تاریک ہے۔
نیند سے جاگنے کے بعد اس نے سوچا تھا کہ
وسیع النظر نظر ہی خواب کے مفہوم کو واضح کرے گی لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ کچھ
سوالات ایسے ہیں انہیں مرشد کریم سے جاننے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کس منہ سے جا کر اس
خواب کی تعبیر معلوم کرے۔ خامیوں سے پُر آدمی اپنے مرشد سے پوچھے کہ حضور بتایئے
مجھ میں کیا خامی ہے۔ تو بتائیے اس کا کیا
جواب ہوگا۔۔۔؟