Topics
چاہنے والے
لاکھوں میں ہوں تو ظاہری قربت کے لمحات بہت کم میسر آتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ
قربت سے نا واقف تھا۔ ملاقات نصیب ہوتی۔۔
تھوڑی دیر کے لئے اور اس ملاقات میں وہ کسی مسئلہ سے متعلق دریافت کرتا تھا۔ احساس
ہوا کہ مرشد اور مرید کا رشتہ یہ نہیں ہے کہ بندہ ملاقات میں کوئی مسئلہ یا اپنی
غرض بتائے۔ دنیا کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مسائل کا تعلق طرز عمل اور طرز عمل
کا انحصار تربیت پر ہے۔ تربیت میں نقص ہے اور طرز عمل درست نہیں اس لئے ایک مسئلہ
حل ہونے کے بعد دوسرا معاملہ ۔۔۔ مسئلہ بن جاتا ہے۔۔۔ زندگی محض خسارہ ہے۔
ایک روز ان کے
پاس بیٹھے لوگوں کو دیکھا تو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔ دل میں ارمان پیدا ہوا
کہ کیا مجھے بھی کبھی قربت ملے گی۔۔۔؟
خیال نے کہا،
بھائی بات سنو! تم جس کام کے لئے جاتے ہو، وہ ہو جاتا ہے پھر کیسا ارمان۔۔۔؟
خیال آئینہ
ہے۔۔۔ آئینہ میں اپنا عکس دیکھ کر دہل گیا۔ آئینہ نے دنیا دار اور ایک خود غرض شخص
سے متعارف کرایا جس کا رنگ زرد، چہرہ پر دنیاوی حسرتوں کی چھاپ اور آنکھیں چمک سے
عاری تھیں۔ یہ الفاظ کہ ” تم جس کام سے جاتے ہو ، وہ ہو جاتا ہے“ نے محاسبہ پر
مجبور کر دیا۔
بیعت کا مطلب
خود سپردگی ہے۔ کردار تعمیل حکم سے عاری ہو تو یہ بیعت کی خلاف ورزی ہے۔
خیال نے کہا کہ
اسباق تم نہیں پڑھتے، قواعد و ضوابط اور اغراض و مقاصد تمہیں یاد نہیں۔ قاعدہ اور
ضابطہ میں نہ رہنے والا کیا شاگرد ہو سکتا ہے۔۔؟ فوج میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی
ہو تو کورٹ مارشل ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی لاشعوری تحریکات پر عمل کرتی ہے اور صحیح
پھولوں کا رس لے کر آتی ہے۔
پہرے دار غلط
رس لانے والی شہد کی مکھی کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ رس غلط کیوں آیا۔۔۔؟ اس لئے کہ ذہن
لاشعور سے ہٹ گیا اور خیال کی صحیح تعمیل نہیں ہوئی۔ خیال غیبی آواز ہے۔ آواز
زندگی کی بنیاد ہے۔ ایک غلط پورے چھتے کو متاثر کرتا ہے۔جب کہ تم نے کبھی سوچا
نہیں کہ خیال کیا ہے اور زندگی بامقصد کیوں نہیں ہے۔۔۔؟ شاگرد اسباق پر عمل نہ کرے
تو اس کا مطلب وہ کسی اور سبق پر عمل کر رہا ہے ۔ کسی نہ کسی دستور پر تو زندگی
گزرتی ہے۔ خیال نے آئینہ دکھایا کہ عمل ہے نہیں لیکن قربت چاہئے ۔۔۔ کس لئے۔۔۔؟
تاکہ دنیاوی مسائل حل ہوسکیں!
غیب کی تعمیل
کر کے طرز عمل تبدیل کیا۔ اب جب ملاقات کے لئے گیا تو ان کے لئے گیا تا کہ مرشد
مرید اور مرید مرشد سے واقف ہو۔ محبت کی کونپل کھلی۔۔ بیج کا ذکر اس لئے نہیں کر
رہا کہ بیج بیعت کے ساتھ ہی بو دیا جاتا ہے۔ مرید کا اخلاص بیج کے لئے پانی ہے۔
ڈائری میں ان
دنوں کی یاد لکھتے ہوئے خیال نے ملامت کی کہ یہ بتانا چاہ رہے ہو کہ تمہارے دل میں
اخلاص ہے، اس لئے قربت ملی۔۔۔؟
اس نے کہا،
نہیں! میں نادان اور کثافتوں میں لتھڑا ہوا ہوں ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ میں جیسا
بھی ہوں، اب صرف محبت کے لئے جاتا ہوں۔ مرشد کے پاس مرشد کے لئے جانا اخلاص ہے۔
ایک مرتبہ
ملاقات میں بہت تاخیر ہوئی۔ شام کا وقت تھا، وہ تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیشہ کی
طرح شفقت سے ملے اور فرمایا،” کیا مصروفیت بہت زیادہ تھی۔۔۔؟“
نادم ہوا اور
عرض کیا، حضور ایسی بات نہیں۔
فرمایا، ” جب
مرید نہیں آتا تو مرشد یاد کرتا ہے، وہ اسے دیکھنا چاہتا ہے۔“
شیخ کے الفاظ
زندگی بن گئے۔
اللہ رحیم و
کریم ہے۔ ایک وقت آیا کہ دعا قبول ہوئی اور رحمٰن و رحیم ہستی نے قربت سے نوازا۔
ایک روز پاس
بیٹھا ہوا تھا۔ عرض کیا، ایک وقت تھا کہ جب لوگوں کو آپ کے قریب دیکھتا تو سوچتا
تھا کہ کتنے خوش نصیب ہیں دل میں ارمان ہوتا کہ کیا مجھے بھی قربت ملے گی۔۔۔؟
تبسم فرمایا اور کہا، ” اللہ نے آپ کی
دعا قبول فرمائی۔ زندگی پر غور کرو اور دیکھو کہ اللہ نے سب کچھ دیا ہے ۔ شکر ادا
کیا کرو، آپ کی زندگی میں شکر بہت کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کی آل سے
فرمایا کہ شکر ادا کرو ، شکر ادا کرنے والے بندے قلیل ہیں۔“
صاحب ِ دل سے عرض کیا، شکر کیسے
ادا کرتے ہیں، کون سی دعا پڑھوں کہ بآسانی ورد کر سکوں؟
فرمایا، ” یا اللہ ! تیرا شکر ہے۔“
مرشد اور مرید
کا رشتہ۔۔۔ مرید کی زندگی ہے۔ مرشد حقیقی محبت سے متعارف کراتا ہے۔ دنیا کی محبت
چاہے وہ مال و زر کی ہو یا مرد و زن کی۔۔ فکشن ہے۔
دنیا کی محبت
اسے بھی ہوئی لیکن حالات و واقعات اس طرح پیش آئے کہ بہت کچھ تبدیل ہو گیا اور پتہ
نہیں چلا۔ کئی خواب آئے اور نشان دہی ہوئی کہ راستہ کا انتخاب درست نہیں لیکن سمجھ
میں نہیں آیا کہ یہ خواب میں نے کیوں دیکھا۔ سوچا کہ مرشد کریم کو بتا دیتا ہوں ،
وہ مدد کریں گے۔
عرض کیا ، حضور
! کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن مرید کی حیثیت سے نہیں، بیٹے کی حیثیت سے۔ مرید کا
امتحان ہوتا ہے، بیٹے کا امتحان نہیں ہوتا۔
مسکرائے اور
فرمایا ،” کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔؟“
عرض پیش کی اور
خواب سنایا۔ خواب کچھ یوں تھا کہ اسے ٹاسک دیا گیا جس میں شطرنج کی طرح ایک بساط
پر ایک رنگ کی روشنیوں کو ملانا تھا۔ ایک جیسے رنگوں کو ملاتے ملاتے جب وہ آخری
مرحلہ میں داخل ہوا تو اچانک کوئی بندہ آیا اور غلط چال چل کر ساری ترتیب خراب کر
دی۔ ترتیب ٹھیک کرنے کے لئے وہ جو چال چلتا ، مزید بگڑ جاتی۔ اچانک غیب سے ہاتھ
آیا اور ساری روشنیاں غائب ہوگئیں، ان کی جگہ نئی روشنیاں آگئیں۔ ہاتھ رحمت ہی
رحمت تھا۔ اس کے بعد روشنیوں کو ملایا تو ہر چال صحیح ہوتی گئی۔ محسوس ہوا کہ اب
گڑ بڑ اس لئے نہیں ہو رہی ہے کہ مہربان ہستی۔۔۔ نگران ہے!
خواب سن کر
مرشد کریم نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ حفاظت کرنا چاہتے ہیں لہذا ذہن کو اللہ کے
تابع کر دو۔ جو ذہن خود کو اللہ کے تابع کر دیتا ہے، اللہ کا چاہنا ، اس کا چاہنا
بن جاتا ہے۔“
” جو لوگ علم میں راسخ ہو جاتے
ہیں ان کا یقین ہوتا ہے کہ ہر شےہمارے رب کی طرف سے ہے۔“ ( آل عمران : ۷)
فرمایا ، ” آپ
جو چاہتے ہیں اس میں نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرما دی ہے۔“
مرشد کریم فرماتے ہیں کہ لوگ سوانح عمری لکھتے ہیں جس کی تعریفیں بیان کی
جاتی ہیں۔ یہ انصاف نہیں کیوں کہ دنیا کے سامنے ایسی تصویر پیش کی گئی ہے جس میں
حقیقت نہیں۔ انصاف یہ ہے کہ خامیاں بھی بیان کی جائیں تا کہ لوگ سیکھیں اور محتاط
رہیں۔
بات سوال کرنے والے نے بھی پوری نہیں کی۔ اگرچہ لکھ دی ہے لیکن پردہ میں
رکھی ہے اس طرح کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے اور کہتے کہتے رہ بھی گئے۔ شاعر
نے لکھا ہے،
باتیں جو زبان تک آ نہ سکیں |
آنکھوں نے کہیں آنکھوں نے سنیں |
کچھ ہونٹوں پر کچھ آنکھوں میں |
ان کہے فسانے رہ بھی گئے |
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے |
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے |
الفاظ جن
روشنیوں سے بنے ہیں، وہ روشنی مظہر بنتی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو غور و فکر کرتا
ہے میں اس کے لئے اپنی راہیں کھول دیتا
ہوں۔ سمجھ میں یہ آیا کہ کتاب پڑھنے سے معلومات بڑھتی ہیں۔۔۔ بندہ سیکھتا اس
وقت ہے جب معانی پر غور کرتا ہے اور الفاظ میں مخفی حکمت تلاش کرتا ہے۔ قرآن کریم
کی تعلیم یہ ہے کہ غور کرو، سوچو، سمجھو، سنو ، مشاہدہ کرو، ذکر کرو۔ کتاب پڑھنے
سے ذہن کھلتا ہے ، اور علم۔۔ عمل سے آتا ہے ۔ عمل سے زندگی کی قدریں ” ہموار“ ہوتی
ہیں۔ کسی روشنی کے قوانین بتا دیئے جائیں ، کیا وہ روشنیوں پر تصرف کر سکتا ہے جب
کہ اس نے روشنی دیکھی نہیں؟
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم
بھی |
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ
ناری ہے |
لفظ ” ہموار“ پر ذہن میں اسپارک ہوا۔ ہموار کا مطلب سطح کا
برابر برابر ہونا ہے۔ برابر کے معنی مشترک کے ہیں۔ جب تک سطح مشترک نہیں ہوگی۔۔۔
زمین ہموار نہیں ہوتی۔ اللہ کا ارشاد ہے،
” جس نے تخلیق کیا پھر
برابر کیا۔“ ( الاعلیٰ :۲)
”سویٰ“ کے معنی
برابر کے ہیں۔ اللہ نے تخلیق کیا اور مخلوق میں اشتراک رکھا۔ اشتراک کا مفہوم اگلی
آیت سے مزید واضح ہوتا ہے کہ اللہ نے قدریں معین کیں پھر ان مقداروں کی ہدایت
بخشی۔
جن مقداروں پر تخلیق
ہوئی وہ سب میں مشترک ہیں اور مقداروں کا علم روحانیت ہے۔
سوچا کہ جب
مقداریں مشترک ہیں تو پھر شکلیں ایک جیسی کیوں نہیں، الگ کیوں ہیں۔۔۔؟
کیا ایک دوسرے
سے مختلف ہونا نظر کا دھوکا ہے۔۔۔؟
تفکر گہرا ہوا
تو خواب میں راہ نمائی ہوئی کہ کائنات
معین مقداروں سے بنی ہے اور معین مقداروں کا مطلب یہ ہے کہ مقدار الگ الگ نہیں،
ایک ہے۔ سب ایک مقدار پر قائم ہیں، مقداروں کا ایک ہونا اشتراک ہے۔
مرشد
کریم نے سمجھایا کہ ” خواب میں کُن، کی مقداروں کی جانب اشارہ ہے۔ کائنات میں ہر
شے 'کُن' کا مظاہرہ ہے۔ ' ک' اور 'ن' کی مقداریں ہر مخلوق میں مشترک ہے۔“
سمجھ میں آیا کہ ” ہموار“ کا مطلب معین مقدار ہے۔ جس مخلوق پر غور کریں گے
” کُن “ کا قانون ملے گا۔
کائنات لفظ ”
کُن“ کی تشریح ہے۔ الفاظ بھی تخلیق ہیں اور ان میں کائناتی قوانین مخفی ہیں۔ شے میں تفکر کے ساتھ غور کیا جائے تو بندہ
”کُن“ تک پہنچ جاتا ہے۔
ذہن اس
بات پر رک گیا کہ علم کا تعلق عمل سے ہونے میں کیا حکمت ہے۔۔۔؟
خیالات کی فلم
چلی اور اس نے اطلاعات کاغذ پر منتقل کیں۔ لاشعور نے کہا، زندگی امر ہے۔ ذہن، جس
ذہن سے ملتا ہے، اس کے مطابق کام کرتا ہے۔ یعنی اب وہ ذہن کام کر رہا ہے جس سے ذہن
مل گیا ہے۔ ذہن کی فریکوئنسی دنیا سے ملتی ہے تو دنیا کشش ثقل میں بند ہے۔ ایسے
افراد کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے یہاں تک کہ نظر کے سامنے باریک
بال پردہ بن جائے تو پردہ کے اس پار نظر نہیں آتا۔
ہر شے میں
ذہن ہے۔۔ ذہن کے دو رخ ہیں۔ ہم خدوخال (لکیروں) کو دیکھتے ہیں، اس لئے خدوخال غالب
آجاتے ہیں۔ خدوخال لکیریں ہیں، لکیریں ملانے سے ناک بنتی ہے اور یہی لکیریں سمتوں
کی تبدیلی سے آنکھ بن جاتی ہیں۔ بندہ لکیروں سے باہر یا لکیروں کے اندر نہیں
دیکھتا، صرف لکیروں کو دیکھتا ہے۔ دوسرا رخ روشنی ہے جس پر لکیریں قائم ہیں۔ روشنی
لکیروں کے باہر ہے، دو لکیروں کے درمیان بھی اور لکیریں خود روشنی ہیں۔
اس
طرح پھول میں بھی ذہن ہے، درخت میں بھی ذہن ہے، مال و زر میں بھی ذہن ہے۔ نظر آنے والی
اور نظر نہ آنے والی ہر شے ذہن اور خواص رکھتی ہے۔
جنت
کی زندگی میں سبق یہ ہے کہ ہم جس شے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ غالب ہو جاتی ہے اور
ذہن مغلوب ہو کر اسے دیکھتا ہے۔ ابا آدم ؑ کو علم الاسما عطا کیا گیا۔ جب تک نظر
لامحدودیت میں رہی، جنت کا ٹائم اور اسپیس غالب تھی۔ توجہ شجر ممنوعہ کی طرف ہوئی
تو ذہن وسیع و عریض جنت سے ہٹ کر ایک درخت پر مرکوز ہو گیا۔ لامحدودیت کو نظر
انداز کر کے محدودیت میں یک سوئی سے ذہن محدود ہو جاتا ہے۔ خیال نے کہا کہ علم
اللہ کا وصف ہے اس لئے اللہ علیم ہے۔ جو لوگ راسخ فی العلم ہو جاتے ہیں ان کا کہنا
، اللہ کا کہنا ہوتا ہے۔ علم میں راسخ ہونا۔۔۔ فنا فی اللہ ہے۔
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود |
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود |
جنت میں فرماں برداری سے لامحدود ذہن غالب اور حکم عدولی سے
مغلوب ہو گیا۔علم۔۔۔ عمل سے
آتا ہے اس لئے کہ علم کی تفسیر عمل ہے۔
راہ نمائی ہوئی
کہ دنیا میں درخت والا قانون غالب ہے یہی وجہ کہ ہم پوری کائنات کو چھوڑ کر ایک شے
کو دیکھتے ہیں لیکن اس شے میں کائنات کو نہیں دیکھتے۔ ہر شے کو دوسری شے سے الگ
سمجھتے ہیں مگر دونوں اشیا میں جو ” حس “
مشترک ہے، اس پر غور نہیں کرتے۔ توجہ کا خدوخال پر مرکوز ہونا محدودیت ہے۔بالفاظ
دیگر شے کو دیکھنا محدودیت ، اور شے کے اندر کائنات کو دیکھنا ، لامحدودیت ہے۔ شے
کی بُنیاد کُن ہے۔ کُن سے زمان و مکان کو ثبات ہے اور کُن زمان و مکان کی نفی بھی ہے۔
علم حضوری کے امین سے عرض کیا، قرآن
کریم میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا قصہ بیان ہوا ہے۔حضرت خضر ؑ نے حضرت
موسیٰ ؑ سے فرمایا کہ اس سفر میں سوال مت کرنا، بعد میں حکمت سے آگاہ کر دوں گا۔حضرت
خضر ؑ تکوین کے بندہ ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ طریقت میں سوال نہیں ہوتے۔۔۔؟
فرمایا ۔۔۔ یس مین
(
Yes Man ) !
ازل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ' الست بربکم'، سعید روحوں نے کہا ، ' قالو
ابلیٰ'۔
جو روحیں خاموش
رہیں وہ گم راہ ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ کو 'یس مین' پسند ہے۔ ناں کہ حوالہ سے اللہ
تعالیٰ کچھ نہیں سننا چاہتے۔ شریعت میں بھی یہی ہے۔ پانچ وقت نماز فرض ہے۔ اس میں
چون و چرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف Yes سننا چاہتے ہیں۔ شیطان نے ناں کی تو کیا ہوا۔۔۔؟ فرشتوں کا استاد
تھا۔۔۔ معلم سے شیطان بن گیا!“