Topics

تعطل + تکرار = اسپیس

   

                                                                                                قرآن کریم پڑھتے ہوئے دعا کا ذکر آتا ہے لاشعور کی ہدایت کے مطابق وہ دعاؤں کو ترجمہ کے ساتھ یاد کر لیتا ہے اور وقتاً فوقتاً دہراتا ہے۔ اس جانب اس وقت متوجہ ہواجب خواب میں سورہ بقرۃ کی آخری آیت کے کثرت سے ورد کی ہدایت ملی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے ترجمہ کے ساتھ آیت یاد کی اور اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ورد کیا۔عمل کرنے سے حکمت واضح ہوئی۔

                                                             مرشد کریم فرماتے ہیں کہ ” اللہ سےمعافی مانگتے اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں عذاب کا ذکر ہے، اس کے ساتھ اللہ کی رحمت کا بھی تذکرہ ہے۔غفور الرحیم ہستی کے حضور عجز اور بے مائیگی کے اعتراف سے محاسبہ کی مشق ہوتی ہے۔ اندر کی آواز سننا، اندر میں فریکوئنسی سے ہم آہنگ ہونا ہے۔“

                                                            تفکر نے بند ذہن کھولا اور بتایا کہ اللہ کا بندہ بننا ہے تو وہ دعائیں مانگو جو قرآن میں ہیں نہ کہ وہ جو تم مانگتے ہو۔ کثیف آدمی کثافت اور لطیف۔۔ لطافت مانگتا ہے۔

                                                                                 ایک روز مرشد کریم نے فرمایا ، ” دعا میں مادی وسائل مانگے جاتے ہیں لیکن روحانی وسائل کی طرف ذہن نہیں جاتا ۔ بنیادی ضروریات ہر فرد کی پوری ہوتی ہیں اور روحانی وسائل کو استعمال کرنے کے لئے جو ذہن چاہئے  وہ بھی موجود ہے البتہ ۔۔۔ مغلوب ہے۔ سرسری طور پر پڑھنے یا معنی و مفہوم کے بغیر یاد کرنے کے بجائے باریک بینی سے غور کرو تو الہامی کلمات میں روشنی دیکھ لو گے۔“

                                                                                          قرآن کریم میں یک سوئی سے فکر میں گہرائی پیدا ہوئی اور ادراک ہوا کہ ان دعاؤں میں طرز ِ فکر کی درستی کی نشان دہی ہے تا کہ شیطان الرجیم سے متاثر ذہن مغلوب اور علم الاسما سے واقف ذہن غالب ہو جائے۔

                                                          اللہ کی صفات سے واقف ذہن جنت میں بغاوت کی وجہ سے مغلوب ہوا۔ اس لئے جب بغاوت پیدا ہوتی ہے تو اللہ رب العالمین کی مہربانی سے لاشعور قرآنی دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔راست طرزِ فکر کے حصول اور گناہوں سے بخشش کی دعائیں یاد کیں۔ آیات کا ورد کیا کہ نہیں معلوم ایسی غلطیاں کی ہوں گی جن کا احساس نہیں ہوا۔ استغفار کی تسبیح سے ذہن اور الفاظ میں ہم آہنگی ہوئی تو ایک ایک لفظ پر جھما کا ہوا۔ محسوس کیا کہ لفظ وجود ہیں، وجود میں حیات ہے اور حیات عرفان کی دعوت دے رہی ہے۔

                                                                اس نے سوچا کہ تسبیح کیا ہے؟ خیال نے کہا ، درجنوں دانے لڑی میں پرونے سے تسبیح بن جاتی ہے۔ غور سے دیکھو ! تسبیح میں دانہ ایک ہے اور ۔۔۔ ایک ہی دانہ کی تکرار ہے۔ شے کو مظاہرہ کے لئے درکار توانائی کسی کے ایک حکم سے پوری ہو جاتی ہے اور کسی کو سو یا سوا لاکھ بار دہرانا پڑتا ہے تا کہ تعطل کے باوجود ۔۔۔ تعطل نہ ہو۔

                                                                  پوچھا ، تعطل کے باوجود تعطل نہ ہونا۔۔۔؟

خیال نے کہا، تسبیح میں سو دانے ہوتے ہیں ۔ ننانوے دانے۔۔ ایک دانہ کی ننانوے تصویریں ہیں۔ ہر دانہ کی شکل دوسرے دانہ جیسی ہے لیکن درمیان میں اسپیس ہے اس لئے ہم ایک دانہ کو سو مرتبہ دیکھتے ہیں تب جا کر سو دانے کی تسبیح پوری ہوتی ہے۔

                                                               یعنی ایک تسبیح کی توانائی کو پورا کرنے کے لئے سو وقفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک شے کے درمیان سو وقفے آجائیں تو رفتا کم ہو جائے گی۔ یہ باتیں نظر انداز کرنے کی نہیں ہیں مگر ہم غور نہیں کرتے۔۔۔ جو ہستی ان قوانین سے واقف ہے اسے تلاش نہیں کرتے۔

                                                                            اس بات کو سمجھانے کے لئے مرشد کریم نے ریل گاڑی اور تیز گام کی مثال دی اور فرمایا ، ” ریل گاڑی ہر اسٹیشن پر ٹھہرتی ہے جب کہ تیز گام کم سے کم اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔۔ رفتار کا عالم دونوں پہ مضمر ہے۔“

                                                           تعطل۔۔۔ فاصلہ ہے۔۔۔ تعطل کے باوجود تعطل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسپیس حذف ہو کر رفتار بڑھ جائے۔ تسبیح۔۔ تکرار ہے۔۔ تکرار کا ایک رخ شک اور دوسرا یقین ہے۔

                                                              سوچا کہ تکرار تو ارادہ کو مضبوط کرنے کے لئے کی جاتی ہے پھر اس کا ایک رخ شک کیسے ہو گیا۔ صاحب حق الیقین سے پوچھا کہ تکرار کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟

                                      فرمایا، ” تکرار کا مطلب ہے کہ ذہن پُر یقین یا اس میں شک ہے۔ اگر تکرار اللہ کے لئے ہوگی تو پھر قانون بدل جائے گا اس لئے کہ اللہ مقداروں سے ماورا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ذٰلک الکتاب ۔۔۔ یہ کتاب ، لاریب فیہ۔۔ اس میں شک نہیں۔                       

                                                                                      بات الہامی کلمات میں موجود توانائی کے مظاہرہ سے شروع ہوئی تھی کہ جب وہ استغفار کی آیتیں دہراتا ، ہر لفظ پر ذہن میں جھماکا ہوتا۔ سب حفظ دعائیں لکھی نہیں جاسکتیں لہذا تین آیات کے تراجم درج ِ ذیل ہیں۔

                        ” اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر۔ ہمیں ثابت قدم رکھ۔ انکارکرنے والوں پر ہمیں فتح دے۔“        ( البقرۃ : ۲۵۰)

ــــــــــــــــــــــــــــــ

” اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے در گزر فرما، ہمارے اعمال میں اسراف سے بھی۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور انکار کرنے والوں پر فتح دے۔“ ( آل عمران : ۱۴۷)

                   ــــــــــــــــــــــــــــ

” اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو مت پھیر ہدایت دینے کےبعد اور ہمیں اپنی رحمت کے خزانوں میں سے عطا کر۔ بلاشبہ آپ  ہی عطا کرنےوالے ہیں۔“  ( آل عمران : ۸)

تینوں دعاؤں کا مختصر مفہوم یہ ہے:

                                          صبر سے حق الیقین عطا ہوتا ہے اور  حق الیقین کا فیضان معرفت ہے۔ غلطی اور کوتاہی اس وقت ہوتی ہے جب نظر کے سامنے موجود شے نظر انداز ہو۔ محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ غیب ظاہر ہو جائے۔ اعمال میں اسراف کا مفہوم یہ سمجھ آیا کہ جس کام کے لئے جو مقدار معین ہے، آدمی اس سے واقف ہو۔ اطلاع کی مقداریں معین ہیں لیکن معنی پہنانے سے تغیر پیدا ہوتا ہے ، یہ حد سے تجاوز یا بے اعتدالی ہے۔ مثلاً ایک آدمی نوکری پر جاتا ہے اور جو وقت وہاں دیتا ہے اس کے پیسے لیتا ہے ۔ ایمان داری کا تقاضا ہے کہ کام میں صرف کام پر دھیان ہو۔ ادھر اُدھر کی خیالات، کام میں تغیر ہیں اور تغیر اسراف ہے۔۔

         اسی طرح جن و انس کو اللہ نے بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ کوئی بھی کام کرتے ہوئے ذہن اللہ سے ہٹ جائے تو یہ اپنے ساتھ زیادتی ہے اور زیادتی اسراف ہے۔ کام اللہ نے دیا، کام کے لئے توانائی اللہ نے دی، ذہن و دل اللہ کا عطاکردہ ہے۔ آدمی سارے کام کرتا ہے اور خالق و مالک کو بھول جاتا ہے تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اللہ کو ہر وقت یاد یا ساتھ محسوس کرنے سے ذہن کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ ہر شے کی مقدار ہے اور بندگی کی مقدار وصال ہے۔

                                     9 مئی 2016 ء کی بات ہے ، مرشد کریم کے پاس بیٹھا تھا۔ کام مکمل کر کے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور پہلی بات یہ فرمائی۔۔۔ ” دنیا ایسی چیز ہے کہ آدمی جب اس کے پیچھے جاتا ہے تو یہ اس سے بھاگتی ہے اور آدمی اس سے بھاگے تو یہ اس کے پیچھے آتی ہے۔“

                                                                  انہوں نے اس کا موبائل فون اور پنسل کیس اٹھا کر اپنے سامنے مناسب فاصلہ سے رکھے اور فرمایا،

” یہ موبائل فون تم ہو اور پنسل کیس ، دنیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ فاصلہ مقداریں ہیں جس نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا ہے۔ فاصلہ رہنا ضروری ہے۔ جب موبائل فون یعنی تم دنیا کی طرف جاؤ گے تو کیا ہوگا۔۔؟ دنیا تم سے دور ہو جائے گی اس لئے کہ فاصلہ برقرار رہنا ضروری ہے ورنہ دونوں ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں گے۔ جتنا دنیا کی طرف جاؤ گے، دنیا تم سے دور ہوتی جائے گی لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم دنیا میں داخل ہو جاؤ گے ۔ اس کو صم ”بکم“ کہتے ہیں۔ اسی طرح جب تم دنیا سے دور جاؤ گے، اب دنیا تمہارے پیچھے آئے گی کیوں کہ فاصلہ برقرار رہنا ضروری ہے۔ ذہن میں دنیا کی اہمیت نہیں ہونی چاہیئے۔ چاہے پیسے جمع کرنے ہوں، روپیہ سونا چاندی ہو یا دوسرے معاملات ۔۔۔ کسی چیز کی اہمیت نہ ہو۔“

                                                        مرشد کریم نے فرمایا، ” جو میں نے سمجھایا ہے موبائل فون اور پنسل کیس کو سامنے رکھ کر اس پر غور کرو!“

                                                                       راستہ دین کا ہو یا دنیا کا، تکمیل کا تعلق فرماں برداری سے ہے۔قرآن کریم کی دعاؤں میں ”فتح“ کے الفاظ ہیں اور فتح فرماں برداری سے نصیب ہوتی ہے۔ فتح کا مطلب ذہن کا کھلنا یا مشاہدہ ہونا ہے۔ فتح کی تعریف و تفصیل سور ہ فاتحہ ہے۔ ہر اطلاع ہدایت ہے۔ دیکھنے کا زاویہ اللہ کے حکم کے خلاف ہو تو نگاہ فکشن دیکھتی ہے، صرف دل کا دیکھنا برحق ہے۔ اس لئے ہر لمحہ یہ دعا کرنی چاہئے  کہ یا اللہ ہمیں اپنی رحمت میں رکھ۔

                                                                                                                   ایک بات کو سمجھنے کے لئے خیال کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ لکھنے کو تو آدمی ہر خیال لکھ لے لیکن ہر خیال لکھا نہیں جا سکتا۔ شعور محدود ہے مگر اللہ مہربان ہے ۔ ”مثالوں“ سے سمجھاتا ہے تا کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے منزل آسان ہو جائے۔

                                                                                           لاشعور نے لفظ مثال کی طرف متوجہ کیا اور مثال سے سورہ نور کی آیت ذہن میں آئی۔ سورہ نور میں اللہ نے کائنات کی ساخت مثالوں سے سمجھائی ہے۔

Topics


مرشد کی باتیں

خواجہ شمس الدین عظیمی