Topics
بحیرہ عرب میں موٹر بوٹ کے ذریعے ایک یا ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک جزیرہ
میں پہنچا۔ ساحل پر رہنے والے ماہی گیر ہر سال یہاں فیسٹیول مناتے تھے۔ جزیرہ کی
سجاوٹ نے حیران و پریشان کر دیا۔ یہ کوئی سہولیات سے آراستہ جزیرہ نہیں تھا بلکہ
سمندر کی چند لہروں سے اوپر پتھریلی زمین تھی۔ پانی کے درمیان یہ جگہ سمندر سے
اتنی اوپر تھی کہ بڑی لہر آتی اور زمین غائب ہو جاتی۔ پانی میں عمر گزارنے والے یہ
لوگ بغیر کسی خوف کے یہاں تہوار منارہے تھے۔
تھوڑی
دور چل کر جھونپڑی نظر آئی، دروازہ بند تھا اور باہر دو تین بچے کھیل رہے تھے۔
ماہی
گیر گائیڈ سے پوچھا کہ گہرے پانی کے بیچ خالی زمین پر کوئی رہتا ہے یا یہ بھی
فیسٹیول کی سجاوٹ کا حصہ ہے۔۔۔؟
وہ بولا ، یہاں بوڑھی عورت اپنے پوتوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس وقت گھر پر
موجود نہیں، راشن خریدنے شہر گئی ہے۔سخت تعجب ہوا کہ گہرے سمندر میں پوتوں کے ساتھ
بوڑھی عورت۔۔۔؟پوچھا کتنے طوفان ایسے آتے ہوں گے جن کی شہر والوں کو خبر نہیں
ہوتی، ایسے میں یہاں رہنا کس طرح ممکن ہے؟ گائیڈ نے بتایا کہ موسم خراب ہو تو یہ
لوگ شہر آجاتے ہیں لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ جھونپڑی دیکھنے کے باوجود گائیڈ کی
بات پر یقین نہیں آیا۔ جب بحیرہ عرب کا تذکرہ ہوتا ہے، بند جھونپڑی ذہن میں آجاتی
ہے۔
واپس
آتے ہوئے ادراک ہوا کہ جزیرہ کی پتھریلی زمین دراصل کسی بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی
ہے جو بحیرہ عرب کے گہرے پانی میں بھی نظر آتی ہے۔۔ پہاڑ کسی وقت بھی ظاہر ہو سکتا
ہے!
گلاس میں کنکریاں ڈالتے
ہیں تو پانی اوپر آتا ہے۔ اوپر آنے کا مطلب یہ نہیں کہ گلاس پانی سے بھرا ہوا ہے۔
پانی آدھا ہے، باقی کنکر یاں ہیں۔ پتھر نکال لئے جائیں تو پانی نیچے چلا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سمندر پانی اتنا اوپر نہیں ہے، جتنا نظر آتا ہے۔ سمندر پیالہ
کی مانند ہے اور پیالہ میں پانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ خیال نے یاد دہانی کرائی
کہ ہر چیز پانی سے بنتی ہے، جو شے پانی کے علاوہ نظر آتی ہے وہ بھی دراصل پانی ہے
لیکن ہیئت بدلنے کی وجہ سے ہم اس کو پانی نہیں کہتے۔
اس بات کو
سمجھنے کے لئے خیالات کی فلم چل پڑی۔ اس نے سارے مناظر مفہوم کے ساتھ دوسرے صفحہ
پر نوٹ کئے کیوں کہ یہاں پر لکھے تو بات کہاں سے کہاں نکل جائے گی اور جب گھوم پھر
کر واپس آئے گی تو تجربات، مشاہدات اور کیفیات سے گزرنے کی وجہ سے لکھنے کا زاویہ
تبدیل ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ بات سمجھنا مشکل ہو جائے۔
سمندر کے اندر بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کی بنیاد تہ میں میخوں کی طرح گڑی
ہوئی ہے۔ پہاڑوں کو استحکام نہ ملے تو پہاڑ کی چوٹیاں یعنی جزیرے سمندر میں تیریں
گے لیکن جزیرے اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ سمندر میں پہاڑوں کی وجہ سے پانی اوپر آگیا
ہے۔
کراچی کے مضافاتی علاقے بالخصوص وہ راستے جو بلوچستان یا حیدرآباد کی طرف
جاتے ہیں، ان پر سفر کیا جائے تو پتھریلی زمین، چھوٹے بڑے پہاڑوں پر نشانات اور
مٹی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر کبھی پانی رہا ہوگا اور کسی زمانہ میں یہ
سمندر کی تہ یا زمین ہو گی۔ ان علاقوں کو دیکھ کر Marine لائف سے متعلق دستاویزی فلمیں ( ڈاکومینٹریز)
ذہن میں آتی ہیں جن میں سمندر کے اندر علاقے دکھائے جاتے ہیں۔۔۔ پانی میں رہنے کی
وجہ سے کچی پکی مٹی جیسی زمین، کہیں کہیں سمندری گھاس اور پودے ، باغات ، غار ، ان
کے درمیان چھوٹی بڑی رنگ برنگ مچھلیوں کا تیرنا، پانی سے گلنے کی وجہ سے کھلی ہوئی
چٹانیں وغیرہ۔
بحیرہ
عرب۔۔۔ بحر ہند کا حصہ ہے جس کے شمال میں پاکستان اور ایران ، مغرب میں جزیرہ نما عرب ( سعودی عرب ، عمان اور یمن )
متحدہ عرب امارات اور صومالیہ جب کہ مشرق میں بھارت ہے۔ بحیرہ عرب کا رقبہ تقریباً
ڈیڑھ لاکھ مربع میل اور گہرائی زیادہ سے زیادہ چار ہزار چھ سو باون (4652) میٹر
بتائی جاتی ہے۔ اس کی حدود مغرب میں باب المندب یمن تک ، شمال میں خلیج فارس ایران
اور مشرق میں تامل ناڈو، بھارت کے ساحل کنیا کماری تک پھیلی ہوئی ہیں۔
جس جزیرہ پر وہ
گیا تھا ، شہر سے دور گہرے سمندر میں ہے۔ گہرے پانی میں پہاڑ کی چوٹی نظر آنے کا
مطلب پہاڑ کی طوالت اس مقام پر سمندر کی جو گہرائی ہے، اس کے برابر ہے۔
طوالت کا اندازہ لگانا چاہا تو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ پہاڑوں کے درمیان بل
کھاتے دریا کے ساتھ ساتھ اونچے نیچے راستوں پر گاڑی گزرتی ہے تو اندازہ نہیں ہوتا
کہ ہم کتنا اوپر آگئے ہیں۔ گاؤں جس علاقہ میں ہے وہ سطح سمندر سے اوسطاً نو ہزار
فٹ ( تین ہزار میٹر) کی بلندی پر ہے۔ گھر کے سامنے دریائے سندھ بہتا ہے جسے مقامی
زبان میں ابا سین کہتے ہیں۔ دور ۔۔ نہیں معلوم کتنی دور۔۔۔ برف سے ڈھکی پہاڑیوں
میں دنیا کی خطرناک ترین چوٹی K2 ہے۔
یہ بے انتہا خوب صورت اور جنت نظیر خطہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناہموار راستوں،
سہولیات کے فقدان اور قبائلی نظام کی وجہ سے سیاح یہاں تک نہیں پہنچے۔چھ سال قبل
یہ ” علاقہ غیر“ کہلاتا تھا لیکن اب صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہے، قانون کی عمل
داری ہے اور مکینوں کو تعلیم تک رسائی ملنا شروع ہو گئی ہے۔
دریائے سندھ ( ابا سین ) کا پانی جب لداخ ، چین سے پاکستان میں داخل ہوتا
ہے تو پہلے ان علاقوں سے گزرتا ہے اور صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ پہنچ کر بحیرہ عرب
میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس نے سوچا کہ جب اس کا گاؤں سطح
سمندر سے تقریباً تین ہزار میٹر ( نو ہزار فٹ) کی بلندی پر ہے تو بحیرہ عرب میں اس
پہاڑکی طوالت جس کی چوٹی (جزیرہ) پر وہ گیا تھا ، تقریباً اتنی ہی ہوگی یا اس سے
تھوڑی کم کیوں کہ بحیرہ عرب میں سب سے گہرا مقام چار ہزار چھ سو باون میٹر بتایا
جاتا ہے۔ اتنا طویل القامت پہاڑ بحیرہ عرب میں موجود ہے، اس سے آگے، دائیں بائیں
یا پیچھے نا جانے ایسے کتنے پہاڑ ہوں گے جن کی چوٹی کبھی نظر آ جاتی ہے اور کبھی
پانی میں ڈوب جاتی ہے، مقام کی مناسبت سے گہرائی بھی کم یا زیادہ ہو گی۔
سمندر کی زمین اور خشکی پر زمین کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پہاڑ اپنے مقام پر
رہتا ہے۔۔۔ پانی کی جگہ بدلتی ہے۔۔ اسکول کے زمانہ میں کراچی کی ایک دیوار پر پڑھا
ہوا شعر حافظہ میں روشن ہوا،
دن شہر میں اور رات مضافات میں رہنا |
بہتر ہے یہ کہ گردش حالات میں رہنا |
یہ شہر سمندر کے کنارے پر ہے آباد |
اس شہر میں رہنا تو پھر اوقات میں
رہنا |
مرشد کریم سے
سوال کیا تھا کہ پانی کو پانی میں دیکھنا کیا ہے؟ انہوں نے آیت پڑھی،
” اللہ ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس کے ذریعہسے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیدا کئے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا۔ جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کیا۔ جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ بے شک انسان بے انصاف اور نا شکرا ہے۔“ ( ابراھیم:۳۲۔۳۴)
انہوں نے فرمایا
کہ ” رزق کو وسائل سمجھ کر آیت پر غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔“
اس کے ساتھ سورہ نور کی آیت کی تلا وت کی اور
غور کرنے کا طریقہ بتایا۔
” اور اللہ جس کو چاہتا ہے، بے حساب رزق
عطا فرماتا ہے۔“ (
النور ۳۸)
پوچھا ، ” بے
حساب رزق کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟ “
عرض کیا کہ بے
حساب رزق کا مطلب ہم یہی سمجھتے ہیں کہ پیسوں کی فراوانی ۔ پیسے آئیں گے تو
ضروریات پوری ہوں گی اور آسائشیں ملیں گی۔
فرمایا ، ” اس کا مطلب پیسے نہیں ہیں، ہر چیز آگئی اس میں ہوا، دھوپ ،
چھاؤں ، چاندنی جو وسائل اللہ نے عطا کئے ہیں اس میں آکسیجن کتنی ہے، حرارت ،
ٹھنڈک ، پانی ، معدنیات ، فاسفورس ، مٹھاس اور نمک کتنا ہے، اس کے حصول کا آپ حساب
نہیں کر سکتے ، بالآخر وغیرہ وغیرہ لکھنا ہوگا۔ بغیر حساب کا مطلب یہ ہے کہ اس رزق
کا کسی بھی طرح حساب یا درجہ بندی کریں تو ناکام رہیں گے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے
تربوز اور خربوزہ پر غور کریں۔ ان کی مقداریں ، رنگ ، گودا، اوپر اور اندر کا رنگ
تلاش کریں۔“
عرض کیا کہ تربوز کا چھلکا گہرا اور کہیں کہیں ہلکا سبز ہے۔ بعض پر ہلکے
سبز رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں۔ تر بوز کو کھولیں
تو چھلکے کا سبز رنگ ہلکا ہوتے ہوتے پستئی اور اس کے بعد جب سفید رنگ میں
تبدیل ہوتا ہے تو وہاں سے سرخ رنگ شروع ہو جاتا ہے۔ سرخ بھی کہیں گہرا اور کہیں
ہلکا ہے، گودے کے درمیان جگہ جگہ بیج ہیں۔
سوال پوچھنا چاہتا تھا کہ سفید کے بعد ایک دم سے سرخ رنگ کہاں سے آگیا۔
سوال ذہن میں آتے ہی ذہن میں تربوز کی تصویر بنی اور اس نے دیکھا کہ قاشیں کاٹی
جاتی ہیں اور چھلکے کو گودے سے الگ کیا جاتا ہے تو جہاں سفید اور سرخ ملتے ہیں
وہاں سرخ رنگ بہت ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ سفید کے ایک رخ
پر مقداریں بڑھنے سے سبز رنگ اور دوسری طرف سرخ رنگ بن رہا ہے۔ سوچا کہ جس کو میں
سفید سمجھ رہا ہوں ، وہ کیا ہے۔ کیا یہ رنگ اس میں موجود ہیں، مجھے نظر نہیں آ رہے
اور کلر بلائنڈ ہو کر میں ان کو سفید کا نام دے رہا ہوں۔۔؟
مرشد
کریم نے فرمایا ، ” اب بیج پر غور کریں۔
بیج کالا ہے یا بھورا۔ بیج کو کھولیں اس میں گری بھی رنگین ہے۔ بیج میں دونوں
دالوں کے درمیان باریک لائن ہوتی ہے، اس کا رنگ الگ ہے اور وہی تربوز کی اصل ہے۔
اب ظاہر ہونے کے لئے اس کے اندر حرارت چاہئے ۔ آکسیجن ، وٹامن، گرمی، سردی کی صفات
اور بھوک مٹانے کے لئے صلاحیت ہونی چاہئے ۔ اس کو اللہ نے فرمایا، ' پاک اور بلند
مرتبہ ہے وہ ذات جس نے ہر شے معین مقداروں سے تخلیق کی اور ان مقداروں کی ہدایت
بخشی۔' معین مقداروں کی ہدایت سے اس کی ایک تصویر بنتی ہے اور اس میں مزہ ذائقہ،
خوش بو ، رنگ سب سے الگ ہو جاتا ہے۔آم بالکل الگ مقداروں سے بنتا ہے لیکن جب آپ
گٹھلی کو کھولیں تو گٹھلی میں گری، گری میں بال اسپرم ہے، وہ الگ ہو گا۔ آم کی
گٹھلی توڑ کر تجربہ کرو۔“
مرشد کریم نے فرمایا کہ ” کیا آپ کا
ذہن اس طرف نہیں گیا کہ تربوز کا چھلکا سخت اور گودا نرم کیوں ہے۔۔۔؟“
احساس ہوا کہ تفکر کے دوران ہر زاویہ کو مدِ نظر رکھنا چاہئے لیکن یہ اس وقت ہو جب خیال آئے ۔ خیال بولا،
گہرائی میں سوچنے کی عادت ڈالو اور جس چیز پر غور کر رہے ہو اسے وقت دو تو خیال
آجائے گا۔
اس کے بعد مرشد کریم نے فرمایا ، ” خربوزہ اور تربوز کو بھی غور سے دیکھو،
کسی بھی بیج کو توڑو، اندر سے گری نکلے گی۔ گری کیا ہے۔۔؟ یہ بھی غور طلب ہے کہ
تربوز کے بیج پر غلاف ہے جو سخت ہے اور بیج کے اوپر گودا نرم اور گودے کے اوپر پھر
سخت چھلکا ۔ یہ تین رخ بیان کئے گئے ہیں۔ایک چھلکا ، ایک گودا اور اس کے اندر
تخلیق کا ریکارڈ! یہ سب کیا ہے۔۔۔؟“
تین رخ سے ذہن میں آیت روشن ہوئی:
” وہ تمہاری ماؤں کے رحموں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔ پھر تم کہاں سے پھرے جاتے ہو۔“( الزمر : ۶)
شیخ طریقت کی
بات جاری تھی۔۔ ” ریکارڈ میں تربوز اور اس کی پوری نسل موجود ہے۔ اگر وہ ایک کروڑ
سال پہلے کی بھی ہے تو ایک کروڑ سال کی پوری تاریخ ریکارڈ ہے۔ سب سے پہلے چھلکا
زیر ِ بحث آتا ہے۔ چھلکا پرت در پرت ہونے کی وجہ سے سخت ہو گیا۔ یعنی چھلکے کا
تعلق قائم رہے اور بارش سے گودا محفوظ رہے۔“
قلم تیزی سے چل رہا تھا کہ کوئی نکتہ نہ رہ جائے۔ بعض باتیں جب تک وہ لکھ
نہ لے ذہن میں نقش نہیں ہوتیں۔ اور پھر یہ تو باطنی علم ہے اور جس آواز میں ہے وہ
باطن کا نور ہے۔ ایسے میں الفاظ کی معنویت
سے واقف ہونے کے لئے بار بار پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے سمجھایا، ” اسپر م میں حرارت پہنچنے سے نشوونما ہوتی ہے۔ گری کا
پھیلاؤ مادیت ہے۔ وہ پھیلاؤ اسپرم میں داخل ہو کر اسےثقل میں تبدیل کر رہا ہے اور
نشو نما کے بعد ہلکے سے موٹے دھاگے کی طرح شاخ نکلتی ہے۔ شاخ جن مقداروں سے بنی ہے ان مقداروں میں اضافہ
ہوتا ہے۔ اس میں معین مقداریں شامل ہیں۔ تعاون ہوتا ہے زمین کا اور پانی کا۔۔ یہ
ہے بے حساب رزق ! بارش ہوتی ہے تو زمین سے سوندھی خوش بو آتی ہے۔“
فرمایا۔۔۔” جو میں نے سمجھایا ہے اس پر غور کرو اور تجربہ کیا کرو۔ جو شے ہاتھ میں ہو اور جس شے پر نظر پڑے دیکھو کہ وہ کیا ہے۔۔ پانی ، حرارت ، ٹھنڈک، نمکین ، مٹھاس ، ہوا ، زمین ، بارش ، بیج، بیج کی گری، پھل کا گودا ، رنگوں کا ہلکا اور تیز ہونا، ذائقہ وغیرہ کیا ان سب کا شمار ممکن ہے۔۔۔؟“