Topics
ضوفشانی لہروں میں روشنی حرارت اور رنگ انسانوں
کی طرح جانوروں کی بافتوں (Tissues)
میں بھی موثر تھرتھراہٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس تھرتھراہٹ سے بافتوں پر اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔
مخصوص غدود پر مخصوص رنگ اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
غدود رنگ
قلب سرخ
جگر زرد
تھائی رائیڈ گلینڈ نیلا
پھیپھڑے نارنجی
آنکھ آسمانی
لبلبہ بنفشی
بلغم کا غدود گہرا
نیلا
دماغ کے زیریں حصہ کا غدود بنفشی
تلی بینگنی
مثانہ بنفشی
خصیہ بنفشی
بیضہ دانی بنفشی
رنگوں کے ذریعے ہر اس بیماری کا علاج کیا جاتا
ہے جو ابتدائے آفرینش سے اب تک انسان کو ورثہ میں ملی ہے۔
بچوں کے خون کی بیماری (Haemolytic Disease) کی وجہ سے سرخ خلیے زیادہ مقدار
میں ٹوٹنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے خون میں ایسے مادہ کا اضافہ ہو جاتا ہے جس کا رنگ
زرد ہے۔ بچے کے خون میں اس مادے کے بڑھنے سے ان کو یرقان ہو جاتا ہے۔ اگر یہ مادہ دماغ
میں پہنچ جائے تو ذہنی نشوونما متاثر ہو جاتی ہے۔ اس سے بچنے کے دو طریقے ہیں۔
۱۔ خون کی تبدیلی
۲۔ رنگ کے ذریعہ علاج
رنگ کے ذریعے علاج میں بچے کو نیلی روشنی میں
رکھا جاتا ہے۔ تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ نیلی روشنی اس بیماری اور اس بیماری کی پیچیدگیوں
کا علاج ہے۔
رنگوں کے مناسب استعمال سے مریضوں میں قوت
مدافعت بحال ہو جاتی ہے۔ پیدائشی طور پر جب بچہ کمزور ہوتا ہے مثلاً ایک پونڈ دو پونڈ
یا تین پونڈ کا ہوتا ہے تو اسے Incubatorمیں آکسیجن اور بنفشی رنگ میں رکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ کی نشوونما
پوری ہو جاتی ہے۔
سورج کی روشنی میں معدنی عناصر اور گیسس (Mineral + Gases) شامل ہیں جو انسانی غذا کا اہم
جزو ہیں۔ غذا ہمیں قوت اور توانائی فراہم کرتی ہے۔ روشنی اور غذا دونوں کو استعمال
کیا جائے تو توانائی دوگنی ہو جاتی ہے۔
مثال:
مجھے (خواجہ شمس الدین عظیمی کو) ایک روز انسپائر
(Inspire) ہوا کہ سورج کی شعاعوں میں سب
رنگ موجود ہیں اور ان رنگوں سے ہماری ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج کی روشنی
کو اپنے حیاتیاتی سسٹم میں اگر ذخیرہ کر لیا جائے تو غذا کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔
پروگرام کے مطابق صبح سورج کے نکلنے سے پہلے میں مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا تھا
اور سانس کے ذریعہ غذا کا تعین کر کے سورج کی کرنوں کو اپنے معدہ میں ذخیرہ کر لیتا
تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کے علاوہ کسی قسم کی غذا کی ضرورت پیش نہیں آئی اور
نہ کمزوری محسوس ہوئی البتہ کھڑے ہو کر چلنے میں زیادہ لطافت محسوس ہوتی تھی اور خلاء
میں چہل قدمی کا تاثر قائم ہوتا تھا۔ ٹھوس دیواریں کاغذ کی بنی ہوئی نظر آتی تھیں۔
سورج وٹامن ڈی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
سورج کی روشنی میں وٹامن ڈی کے علاوہ دوسرے وٹامن بھی شامل ہیں اور ہر وٹامن کسی رنگ
سے متعلق ہے۔
۱۔ وٹامن اے پیلا رنگ
۲۔ وٹامن بی سبز
رنگ
۳۔ وٹامن سی لیمن رنگ
۴۔ وٹامن ڈی بنفشی رنگ
۵۔ وٹامن ای بنفشی رنگ
۶۔ وٹامن کے گہرا نیلا رنگ
رنگ جذب کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رنگوں
کے مطابق سبزیاں، پھل اور رس دار چیزیں زیادہ استعمال کی جائیں۔ پھل اور سبزیوں میں
سورج کی روشنی کا انجذاب براہ راست ہوتا ہے لیکن خوراک میں رنگوں کے تناسب کا خیال
رکھنا ضروری ہے۔ بہت زیادہ پکانے اور بھوننے میں غذائیت میں موجود رنگ ضائع ہو جاتے
ہیں۔
ماہرین رنگ و روشنی اپنے تجربات بیان کرتے
ہیں کہ انسان کے لئے رنگ ہر لحاظ سے مفید ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں رنگوں کے استعمال سے
نہایت بہتر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
مثال۔۱
فیکٹری میں ملازم خواتین جب غیر حاضر رہنے
لگیں اور پیداوار بہت زیادہ متاثر ہو گئی تو انتظامیہ نے ایک کلر تھراپسٹ سے رجوع کیا۔
اس نے فیکٹری کا معائنہ کر کے بتایا کہ غیر حاضری کی وجہ دیواروں پر نیلا رنگ ہے۔ جس
کی زیادتی سے خواتین بیمار ہو رہی ہیں۔
چنانچہ اس کے مشورے سے دیواروں پر ہلکا بادامی
رنگ کر دیا گیا جس سے نیلی روشنیوں کا اثر معتدل ہو گیا اور کام کرنے والی خواتین حیرت
انگیز طور پر ٹھیک ہو گئیں اور فیکٹری میں حاضری معمول کے مطابق ہو گئی۔
مثال۔۲
ایک اور فیکٹری میں جب خاکستری رنگ شیشوں پر
ہلکا نارنجی رنگ کر دیا گیا تو کارکنوں کے کام میں دلچسپی بڑھ گئی۔ حادثات میں کمی
آ گئی۔ ملازمین میں تھکن اور بددلی کا احساس ختم ہو گیا اور دہ نئے جذبے اور ولولہ
سے کام کرنے لگے۔
مثال۔۳
ایک فیکٹری کے ریسٹ روم کی دیواریں نیلی تھیں
جہاں بیٹھنے پر ملازمین سردی کی شکایت کرتے تھے لیکن جب دیواروں پر نارنجی رنگ کر دیا
گیا تو وہی لوگ گرمی کی شکایت کرنے لگے چنانچہ ٹمپریچر (Temperature) میں کوئی فرق نہیں ہوا تھا۔
مثال۔۴
تجربہ کے طور پر سیلز مینوں کے ایک گروپ کے
افراد کو سبز اور سرخ رنگ کے کمرے میں الگ الگ بٹھا دیا گیا اور ان سے گھڑیاں لے لی
گئیں۔ میٹنگ کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کتنی دیر میٹنگ میں رہے تو سرخ رنگ کے
کمرے میں بیٹھنے والے شخص نے تقریباً 6گھنٹے کا وقت بتایا جب کہ وہ لوگ اس کمرے میں
صرف تین گھنٹے رہے تھے اور سبز کمرے میں بیٹھنے والے ممبران نے میٹنگ کا وقت دو گھنٹے
بتایا جب کہ وہ ساڑھے چار گھنٹے اس کمرے میں رہے۔
عام لوگوں کے اندازے رنگوں کے بارے میں کسی
قدر غلط ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے پوچھا جائے کہ گہرے رنگ
والی چیز کا وزن زیادہ ہے یا ہلکے رنگ والی چیز کا تو وہ گہرے رنگ والی چیز کا وزن
زیادہ بتائے گا جب کہ دونوں کا وزن برابر ہوتا ہے۔ ایک فیکٹری میں تیار ہونے والی مصنوعات
کو سیاہ رنگ کے دھاتی صندوقوں میں بند کیا جاتا تھا۔ یہ صندوق اٹھاتے ہوئے فیکٹری کے
مزدور ان کے وزنی ہونے کی شکایت کرتے تھے۔ فیکٹری کے فورمین نے جب ان صندوقوں پر سبز
پینٹ کروا دیا تو مزدوروں نے ان صندوقوں کا وزن کم محسوس کیا۔
مثال۔۵
رنگوں کے استعمال سے اسکولوں میں تعلیمی معیار
بہتر ہو جاتا ہے۔ کسی مشکل مضمون کو رنگین فوٹو گرافک سلائیڈز کی مدد سے سمجھایا جائے
تو وہ آسان اور قابل فہم بن جاتا ہے۔ سلائیڈز صرف ایک یا دو رنگ میں ہوں تو وہ زیادہ
موثر ثابت ہوتی ہیں۔ کچھ طلبہ کو بلیک اینڈ وائٹ سلائیڈز کے مقابلے میں جب سبز رنگ
کی سلائیڈز دکھائی گئیں تو طلبہ نے 40فیصد نمبر زیادہ لئے۔ دو رنگوں سرخ اور سبز سلائیڈز
بلیک اینڈ وائٹ کے مقابلہ میں نتیجہ 80فیصد بہتر ثابت ہوا۔ تین رنگوں سرخ سبز اور نیلے
بیک گراؤنڈ والی سلائیڈز دکھانے سے 30فیصد اضافہ ہوا۔
مثال۔۶
ایک کوچ اپنے تجربات میں لکھتا ہے کہ میں نے
اپنے کھلاڑیوں کے لئے دو ڈریسنگ روم بنا رکھے تھے۔ ایک ڈریسنگ روم کی دیواروں کا رنگ
نیلا تھا۔ یہ کمرہ کھلاڑیوں کے آرام کے لئے استعمال ہوتا تھا جب کہ دوسرے ڈریسنگ روم
کا رنگ سرخ تھا۔ میدان میں اترنے سے پہلے ٹیم کے کھلاڑی اس کمرے میں کھیل کی حکمت عملی
تیار کرتے تھے۔ اس طرح سے کھیل کے میدان میں کارکردگی بہت بہتر ہو جاتی تھی۔
مثال۔۷
ایک ریڈیو اسٹیشن کے مالک نے اپنے اسٹیشن کو
خوبصورت اور جاذب نظر بنانے کے لئے سرخ ٹیوب لائٹس لگوائیں۔ دو ماہ کے اندر ملازمین
اور انتظامیہ نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ سرخ ٹیوب لائٹس تبدیل کر دی گئیں تو ایک
ہفتہ میں معجزاتی طور پر لوگوں میں بھائی چارے کی فضا بحال ہو گئی۔ استعفے واپس لے
لئے گئے اور کام کا معیار بڑھ گیا۔
مثال۔۸
ایک صاحب جن کا خیاطی کا بہت بڑا کاروبار تھا۔
رنگوں کی افادیت کے ۱۹۲۵ء سے قائل ہیں۔
ان کو کاروں ریل گاڑیوں اور پختہ فرش سے ڈر
لگتا تھا۔ ایک روز انہوں نے گہرے سرخ رنگ کا کوٹ پہنا۔ اس سے ان کی طبیعت میں ایسی
جولانی پیدا ہوئی کہ انہوں نے ٹائیاں، واسکٹ اور زیر جامہ بھی اسی رنگ کے پہننے شروع
کر دیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈر اور خوف سے انہیں نجات مل گئی۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں مردوں نے بھی رنگین
لباس پہننے شروع کر دیئے ہیں۔ جو مرد حضرات ماہرین کے مشوروں سے اپنا لباس منتخب کراتے
ہیں ان کا کہنا ہے کہ رنگین کپڑوں سے انسان کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ بے شمار
خواتین و حضرات کا تجربہ ہے کہ رنگ کی دنیا میں داخل ہو کر وہ زیادہ پر اعتماد ہو گئے
ہیں۔ بہتر ملازمت حاصل کر چکے ہیں۔ حلقہ احباب بڑھ گیا ہے اور طلاق کا تناسب کم ہو
گیا ہے۔
بے چینی، بے سکونی اور انتشار کی موجودہ دنیا
میں رنگوں سے استفادہ کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
موافق رنگوں کے استعمال سے شخصیت میں نہ صرف
وقار اور کشش میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہوتی
ہیں۔ سیاہ اور بھورا رنگ جو مایوسی اور افسردگی کی علامت ہے اس کی جگہ دفتروں گھروں
ملبوسات اور ایسی جگہوں پر جہاں لوگ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں ایسے رنگ استعمال
کرنے چاہئیں جن سے خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے اور روحانی سکون ملتا ہے۔
جسم میں توانائی کے مراکز ہر جگہ موجود نہیں
ہیں لیکن توانائی سر سے پیر تک دور کرتی رہتی ہے اور جسم سے خارج ہوتی رہتی ہے۔ جس
طرح کسی کہکشانی نظام میں ستارے روشنی خارج کرتے ہیں اسی طرح انسانی جسم سے بھی روشنی
خارج ہوتی رہتی ہے۔
ظاہری جسم کی طرح انسان کے اوپر روشنیوں کا
بنا ہوا ایک جسم اور ہے اس جسم کو جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ جسم مثالی ان بنیادی لہروں
یا بنیادی شعاعوں کا نام جو وجود کی ابتداء کرتی ہیں۔ جسم مثالی (روشنیوں کا بنا ہوا
جسم) مادی وجود کے ساتھ تقریباً چپکا ہوا ہے لیکن جسم مثالی کی روشنیوں کا انعکاس گوشت
پوست کے جسم پر نو انچ تک پھیلا ہوا ہے۔
|
اس کی مثال ٹارج (Torch) ہے۔ ٹارچ کے اندر بلب جسم مثالی ہے لیکن بلب کی روشنی (Beam) کا پھیلاؤ اندر باہر دونوں سمتوں میں ہوتا ہے۔ اس طرح جسم مثالی کے انعکاس کا معین فاصلہ 9انچ ہے۔ غالباً اسی معین فاصلہ پر روشنی کے انعکاس کو سائنسدان اورا (Aura) کہہ رہے ہیں۔
جسم مثالی کو کسی بھی مادی وسیلے سے نہیں دیکھا جا سکتا البتہ جسم مثالی کی
روشنیوں کے انعکاس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انعکاس چونکہ مادیت میں تبدیل ہو جاتا ہے اس
لئے نظر آ جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا دارومدار صحت رنج و خوشی جسم مثالی پر قائم ہے۔
جسم مثالی کے اندر صحت موجود ہے تو گوشت پوست کا وجود بھی صحت مند ہے۔ انسان کے اندر
تمام تقاضے جسم مثالی سے منتقل ہوتے ہیں۔
جب دو افراد بغلگیر ہوتے ہیں یا معانقہ کرتے ہیں تو دونوں میں دوڑنے والی
برقی رو ایک دوسرے میں جذب ہو جاتی ہے اور اس عمل سے اسپارکنگ (Sparking) ہوتی ہے جس کو ہر فرد بجلی کے
ہلکے کرنٹ کی طرح محسوس کرتا ہے۔
چونکہ تخلیقی عوامل فضا میں جاری و ساری ہیں اس لئے جب دو آدمی ایک دوسرے
کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو فضا میں موجود لہریں ہزاروں افراد کے اندر اسپارک ہونے لگتی
ہیں۔ نتیجتاً ایک آدمی سے ایک آدمی یا ایک آدمی سے ہزاروں آدمی متاثر ہو جاتے ہیں۔
جسم کو ہر وقت آکسیجن کی ایک معین مقدار کی ضرورت ہے جب کوئی آدمی جمائی لیتا ہے یعنی
جسم میں آکسیجن کی کمی کو دور کرتا ہے تو سامنے بیٹھا ہوا یا کھڑا ہوا شخص بھی جمائی
لینے لگتا ہے۔ دراصل یہ جسم مثالی میں آکسیجن کی طلب کا مظاہرہ ہے۔
مثالی جسم کی شکل و صورت کا انحصار ہمارے چاروں طرف موجود توانائی کی قوت
اور حجم پر ہے۔ یہ توانائی پیروں کے ذریعہ ہمارے چاروں طرف گردش کرتے ہوئے زمین میں
ارتھ ہو جاتی ہے۔ اس طرح خارج ہونے والی توانائی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہر وقت پیروں
میں موجود رہتا ہے چنانچہ یہ ذخیرہ اور لہروں کے نیچے زمین میں موجود توانائی کا ذخیرہ
خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کسی وجہ سے پیروں کے ذریعہ جمع شدہ زائد توانائی خارج نہ
ہو تو آدمی کے اوپر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ
مرگی کے دورہ سے پیشتر پیروں کے ذریعہ توانائی کے اخراج کے نظام میں خلل واقع ہو جاتا
ہے۔
جسم مثالی میں ہمیشہ تغیر واقع ہوتا رہتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم
مثالی کی روشنیوں میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ جسم مثالی کی روشنیاں جب ایک نقطہ پر چند ثانیوں
کے لئے ٹھہر جاتی ہیں اور آدمی ماحول میں موجود نادیدہ اشیاء دیکھنے لگتا ہے تو آدمی
کی روح سے ہم آ ہنگی ہو جاتی ہے۔
روح اور جسم کی ہم آہنگی سے انسان میں محبت اور خدمت کے جذبات پرورش پاتے
ہیں۔ جسم اور روح سے ہم آہنگ انسان جب کسی کمرے میں داخل ہوتا ہے تو کمرے کا ماحول
روشن ہو جاتا ہے اور فضا لطیف ہو جاتی ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا جسم مثالی پورے کمرے پر چھا جاتا ہے اور ایسے
لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا جسم مثالی سکڑ جاتا ہے یا بد رنگ ہو جاتا ہے۔ بدرنگ جسم مثالی
سے فضا خراب اور ماحول مکدر ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کے جسم مثالی میں کوئی تبدیلی واقع
نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کے مثالی جسم کو متاثر کر دیتے ہیں۔ یہ مثبت اور منفی دونوں
طرزوں میں ہوتا ہے۔ جب دو شخص ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو طاقتور کمزور کو متاثر
کر دیتا ہے۔ باالفاظ دیگر ایک کا رنگ دوسرے پر غالب آ جاتا ہے۔
شمالی امریکہ میں پائے جانے والے ریڈ انڈین قبیلہ ہوپی کی کتاب ’’ہوپی‘‘کے
مطابق جسم انسانی اور کرہ زمین ایک ہی طرز بنائے گئے ہیں۔ دونوں کا ایک محور ہے۔ جسم
انسانی کا محور ریڑھ کی ہڈی ہے جس پر انسانی حرکات و سکنات کا انحصار ہے۔ اس محور میں
چند ایسے مراکز ہیں جن پر صحت کا دارومدار ہے۔
پہلا مرکز سر کے اوپری حصہ میں واقع ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ حصہ نرم
ہوتا ہے گویا یہ ایک دروازہ ہے جس کے ذریعہ بچہ زندگی قبول کرتا ہے۔
اس کے نیچے دوسرا مرکز ’’دماغ‘‘ ہے جس کے ذریعے اس نے سوچنا سیکھا۔ تیسرا
مرکز حلق ہے جو منہ اور ناک کے سوراخوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس مرکز کی وساطت سے چکھنے
اور بولنے کی حس پیدا ہوئی۔ چوتھا مرکز دل ہے جس کے ذریعہ Vibrationکا نظام قائم ہے۔ آخری مرکز ناف کے نیچے ہے۔ اس مرکز سے جسمانی حرکات و سکنات
کنٹرول ہوتی ہیں۔
ان مراکز میں اور ان کے درمیان توانائی کا بہاؤ مناسب طور پر قائم رہے تو
جسمانی صحت ٹھیک رہتی ہے۔ تمام مراکز توانائی کی مقداروں سے معمور ہیں۔ ہر مرکز ایک
خاص وصف پر قائم ہے اور اس وصف کا اظہار رنگوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
ہر شئے میں درجہ بندی ہے چنانچہ رنگ کے بھی کئی درجات ہیں۔ گرم توانائی جسم
کو متحرک رکھتی ہے جو جسم کے نچلے حصہ میں پیدا ہوتی ہے جو توانائی کھانا ہضم کرتی
ہے۔ اس کا مزاج گرم اور رنگ زرد ہے۔ اس مرکز کے عدم توازن کی بناء پر معدہ لبلبہ اور
جگر کے افعال متاثر ہو جاتے ہیں۔
قلبی مرکز کا رنگ سرخ ہے۔ اس مرکز کے عدم توازن کی بناء پر تھائی رائیڈ گلینڈ
اور جنسی نظام کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔ قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔ اگر سرخ رنگ
میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو غصہ بڑھ جاتا ہے اور آدمی جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
حلق میں بھی ایک مرکز ہے جس کا رنگ نیلا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ کوئی شخص اپنے جذبات کا اظہار الفاظ میں کس طرح کرتا ہے۔ جسمانی طور پر چونکہ یہ
گلے میں واقع ہے اس لئے گلے کی جملہ کمزوریاں اس مرکز کے ذریعہ دریافت کی جا سکتی ہیں۔
مثلاً اگر تھائی رائیڈ گلینڈ خراب ہو جائیں تو جسم متاثر ہو سکتا ہے۔
بھنوؤں کے درمیان میں جو مرکز ہے اس کا قدرتی رنگ گہرا نیلا ہے۔ اس کا تعلق
دماغ کے اس حصے سے ہے جو لاشعوری تحریکات کا حامل ہے۔
سر کے بیچ میں مرکز کا رنگ بنفشی ہے۔ اس رنگ سے کسی شخص کے اندر فنکارانہ
صلاحیتوں، مذہب سے لگاؤ اور حسن پرست ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر ہم صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام مراکز کے
رنگوں سے مکمل طور پر واقف ہوں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت لقمان
علیہ السلام کے نام
جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی
وَ لَقَدْ اٰ
تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ
(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)
اور ہم
نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔
اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo
اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo
تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo
نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo
(القرآن)