Topics

باب نمبر ۹: امراض کی تشخیص

امراض کی تشخیص

بیماری کی وجوہات

 

جسم کا اپنا ایک نظام ہے اور ہر نظام میں الگ الگ مدافعاتی نظام موجود ہے۔ اگر جسم کے اندر کوئی خرابی ہو جاتی ہے تو مدافعاتی نظام مزاحمت کرتا ہے۔ مدافعاتی قوت دو طرح کام کرتی ہے۔

۱۔            کسی کے تعاون کے ساتھ

۲۔           براہ راست

امراض سے شفایابی کے لئے بہت سارے علاج ہیں مثلاً جھنجھناہٹ یا وائبریشن (Vibration) سے علاج، سورج کی شعاعوں سے علاج، روشنی سے علاج، پانی سے علاج، رنگوں سے علاج، باتوں سے علاج، مفرد جڑی بوٹیوں سے علاج، ایکوپنکچر سے علاج، ایورویدک علاج، یونانی علاج، ایلوپیتھی علاج، ہومیوپیتھی علاج، لمس مالش (Physiotherapy)سے علاج، خوشبوؤں سے علاج، روحانی علاج۔

ان علاجوں میں سے ایک علاج یہ ہے کہ جسم کے مخصوص حصوں پر ایسی ضرب لگائی جائے جس سے جسمانی نظام میں جھنجھناہٹ پیدا ہو۔ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کا طریقہ ہے اور Uncivilizedلوگوں میں ابھی تک یہ طریقہ رائج ہے۔ مریض کو زمین سے تقریباً ۳ فٹ اونچے تختے پر پتھر یا بانسوں سے بنائی ہوئی چارپائی پر سیدھا لٹا دیا جاتا ہے۔ دونوں پیر کو ملا کر موٹے دھاگے سے انگوٹھے باندھ دیئے جاتے ہیں۔ معالج اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر پیروں کے تلوؤں پر ضرب لگاتا ہے۔ ان کا یقین ہے کہ پیروں میں جسمانی نظام کے تمام پوائنٹس (Points) موجود ہیں۔ یہ پوائنٹس چین کے ایکوپنکچر(Accupuncture) علاج میں بھی موجود ہیں لیکن ان کا طریقہ ضرب کے بجائے سوئی چبھونے کا ہے۔ یہی طریقہ ریفلیکسالوجی (Reflexology) میں بھی رائج ہے۔ اس طریقہ علاج کے ماہر بھی پوائنٹس دبا کر علاج کرتے ہیں۔

کسی پائپ میں پانی یا کوئی چیز رک جائے۔ پانی رکنے کی کوئی وجوہات ہیں۔ پانی جم جائے، پانی میں پائپ کے سوراخ کی نسبت سے بہنے کی صلاحیت کم ہو جائے، پانی گاڑھا اور غلیظ ہو جائے، پائپ کو صاف کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پائپ میں پیچھے سے پریشر ڈالا جاتا ہے۔ پریشر ہوا کے ذریعہ ہو، حرارت کے ذریعہ ہو یا ضرب کے ذریعہ ہو یا کسی بھی طرح ہو۔ پریشر کے ذریعہ پائپ کھل جاتا ہے۔ اگر پائپ میں پانی کا بہاؤ اپنی اصلی حالت میں آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پائپ بیمار نہیں ہے۔ پائپ میں Leakageہو جائے تو بہاؤ برقرار رکھنے کے لئے سوراخ بند کر دیا جاتا ہے۔ کوئی چیز لیپ کر دی جاتی ہے۔ لپیٹ دی جاتی ہے یا پائپ کو سی دیا جاتا ہے۔ ایک پائپ پر پورے جسمانی نظام کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔

طریقہ علاج کوئی بھی ہو یونانی طب ہو، ایکوپنکچر ہو، ایلوپیتھی ہو یا Reflexologyہو لیکن ایک بات زیادہ اہم ہے جو ہر معالج کو یاد رکھنی چاہئے کہ پانی کا اپنا رنگ ہے، پائپ کا الگ رنگ ہے، پائپ میں پانی کا بہاؤ صحیح نہ رہے تو پانی سڑ جاتا ہے، رنگ تبدیل ہو جاتا ہے اور پانی میں زہریلے مادے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پائپ میں اگر خرابی ہو گی تو رنگ تبدیل ہو جائے گی۔ پانی کا بہاؤ رکے گا تب بھی رنگ تبدیل ہو جائے گا، پانی میں لیس یا چیپچپاہٹ پیدا ہو جائے اس وقت بھی رنگ تبدیل ہو جائے گا۔ پانی میں اگر جراثیم مرنے لگیں یا نشوونما زیادہ ہو جائے تب بھی رنگ میں تبدیلی واقع ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پانی کا رنگ صحیح ہے تو آدمی صحت مند ہے اور پانی کے رنگ میں تبدیلی بیماری ہے۔ چاہے پانی گاڑھا ہو، پتلاہو اس میں سڑاند ہو جائے یا کڑوا ہو جائے گا، گاڑھا یا سرخی مائل ہو جائے۔

مثال

پانی جب اپنی اصل سے پتلا ہو جائے انیمیا یا لو بلڈ پریشر ہے۔ پانی گاڑھا ہو جائے یا اس میں معمول سے زیادہ گرمی ہو جائے تو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ پانی کڑوا ہو جائے تو صفرا بن جائے گا۔ پانی میں اگر ایسی خلط پیدا ہو جائے جو جلی ہوئی ہو تو بیماریاں پیدا ہو جائیں گی جو سوداویت سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً تلی کا خراب ہو جانا (Thalassemia)۔ اگر پانی میں لیس پیدا ہو جائے تو بلغمی امراض پیدا ہو جائیں گے۔ پانی میں اگر ایسے ذرات شامل ہو جائیں جو پانی کے سفید ذرات پر غلبہ حاصل کر لیں اور پانی کے سفید خلئے (White Blood Cells) ان کی غذا بننے لگیں تو کینسر بن جائے گا۔

عرض یہ کرنا ہے کہ صحت ہو یا بیماری اس میں بہرحال رنگوں کی کمی و بیشی کا عمل دخل ہے۔ ہم جب جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے ہیں تو دراصل ان جڑی بوٹیوں سے جسم میں غالب رنگ کو معتدل کرتے ہیں۔ لاکھوں جڑی بوٹیوں میں کوئی ایک بوٹی یا جڑ ایسی نہیں ہے جو بے رنگ ہو۔ ہم دراصل دواؤں کے ذریعہ مریض کے جسم میں رنگ منتقل کرتے ہیں۔ کھانے پینے میں اگر اعتدال نہ رہے تب بھی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سبزیاں اور ترکاریاں کھانے سے جسم زیادہ دیر اچھا رہتا ہے۔ اعتدال سے زیادہ گوشت اور انڈے کھانے سے جسم بیمار ہو جاتا ہے۔ ترکاریاں کھانے سے صحت اس لئے اچھی رہتی ہے کہ جسم میں سبز رنگ منتقل ہوتا ہے۔ اعتدال سے زیادہ گوشت کھانے سے طبیعت میں تکدر، تساہل، بوجھ، غصہ اور درندہ پن اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ گوشت میں سرخ اور گلابی رنگ غالب ہے جب کہ سرخ رنگ اعتدال میں استعمال کرنا محرک ہے۔ معالج حضرات اور سائنس دان ایک میز پر بیٹھ کر رنگ کے بارے میں غور و فکر کریں تو کسی بھی طرح رنگ کی افادیت اور نقصانات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہر معالج اور سائنس دان رنگوں کا مرکب ہے۔

چھ ارب انسانوں میں ایک بھی انسان رنگوں کے مرکب کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہاں بھی رنگوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

۱۔            سورج کے سات رنگ

۲۔           اندھیرے کا رنگ

۳۔          پھولوں کا رنگ

۴۔          پانی کا رنگ

۵۔          آکسیجن کا رنگ

۶۔           چاند کی چاندنی

۷۔          ستاروں کا رنگ

۸۔          کہکشاؤں کا رنگ

۹۔           بادل کا رنگ

۱۰۔         قوس و قزح کا رنگ

۱۱۔          پھول پودوں کا رنگ

۱۲۔         درختوں کا رنگ

۱۳۔         زمین کا رنگ

۱۴۔         ہوا کا رنگ

۱۵۔         لباس کا رنگ

۱۶۔         دیواروں کا رنگ

۱۷۔        کھڑکیوں اور پردوں کا رنگ

۱۸۔         غذاؤں کا رنگ

ہر انسان چاہے وہ جاہل ہو، کم لکھا پڑھا ہو، زیادہ پڑھا لکھا ہو، ڈاکٹر ہو، Ph.Dہو، کسان ہو، شاعر ہو، ادیب ہو، مؤرخ ہو، فنکار ہو، مرد ہو، عورت ہو یا سائنس دان ہو رنگوں کی دنیا میں زندہ رہتا ہے اور جب رنگ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو مر جاتا ہے۔

ہمارا کھانا پینا رہن سہن لباس خزاں کا موسم بہار کا موسم سب رنگین ہیں۔

جسمانی صحت اور بیماری کا نظام رنگوں پر قائم ہے۔ زمین پر موجود تمام سسٹم رنگین سسٹم ہے۔ جب کوئی چیز بے رنگ نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ کون سے رنگوں کی کمی بیشی سے امراض پیدا ہوتے ہیں اور رنگوں کے اعتدال سے جسمانی صحت کس طرح برقرار رہتی ہے۔ ہم جب Uncivilizedلوگوں کے علاج کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے طریقہ علاج میں تبدیلی تو ہے لیکن بنیاد میں کوئی فرق نہیں۔

مثال

جھنجھناہٹ (Vibration) سے علاج:

جب ہم مریض کو دوا دیتے ہیں تو اس میں کوئی نہ کوئی رنگ ہوتا ہے۔

۱۔            جب دوا معدے میں جاتی ہے تو وہاں ایک اثر چھوڑتی ہے اور وہ تاثر جھنجھناہٹ (Vibration) ہے۔

۲۔           اس ہی طرح انجکشن لگاتے وقت جیسے ہی سوئی جسم کیا اندر داخل ہوتی ہے Vibrationہوتی ہے۔

۳۔          سرجن جب آپریشن کرتا ہے تب بھی Vibrationہونا ضروری ہے۔

۴۔          Anesthetistمریض کو کلوروفام سنگھاتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دواؤں کے پریشر یا تاثرات

سے عارضی طور پر شعور کو معطل کر دیا گیا ہے۔

انسانی جسم خلاء کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خلاء سے مراد سوراخ ہیں۔ انسان کے اندر سے اگر سوراخ نکال دیئے جائیں تو جسم ختم ہو جائے گا۔

۱۔            آنکھوں کے سوراخ

۲۔           ناک کے سوراخ

۳۔          حلق کے سوراخ

۴۔          بول و براز کے سوراخ

۵۔          انسان کے اندر آنتوں کے سوراخ اور کھال میں سوراخ

سوراخ نہیں ہوں گے تو پسینہ نہیں آئے گا ہوا اندر جائے گی نہ باہر آئے گی۔ جب ان سوراخوں میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ جگہ سوج جاتی ہے، جسم پھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم کے اندر رنگ اور روشنی سے مرکب ایک برقی رو دوڑتی رہتی ہے جو جسمانی نظام کو بحال رکھتی ہے۔ جس کو ہم سمجھنے کے لئے کرنٹ کہہ سکتے ہیں۔

جسمانی نظام میں اگر کرنٹ رک جائے تو سوراخ یا اس کا اسفنجی سسٹم غیر متوازن ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں جسم پر ورم آ جاتا ہے۔

جوڑوں اور اعضاء میں الیکٹریکل امپلس (Electrical Impulse) گھوم کر دائروں کی شکل میں چلتے ہیں۔ دائروں میں گھومنے کی وجہ سے جوڑوں میں خلاء رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ اس عمل سے جوڑوں میں چکنائی پیدا ہوتی ہے۔ اگر Electrical Impulseکی حرکت میں اعتدال نہ رہے تو جوڑوں پر ورم آ جاتا ہے اور جوڑ آپس میں جڑ جاتے ہیں۔

لطیف اور کثیف وجود

انسان صرف مادی جسم کا نام نہیں ہے اس کے اوپر ایک اور لطیف جسم ہے۔ ہماری تخلیق لطیف اور کثیف دو جسموں سے ہوئی ہے۔ تمام حرکات اور افعال لطیف جسم کے تابع ہیں۔ ماہرین نے معالجین کی استعداد میں اضافہ کرنے کے لئے جسم کے مختلف مقامات متعین کئے ہیں۔ یہ مقامات ان حضرات کے مشاہدہ میں آ جاتے ہیں جو لطیف جسم کو دیکھ لیتے ہیں۔ لطیف جسم سے مختلف روشنیاں پھوٹتی رہتی ہیں جن کا رنگ قوس و قزح کے رنگوں کی طرح ہوتا ہے۔

معالج جب مریض کو دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ مریض کے اندر کس رنگ کی کمی یا زیادتی ہو گئی ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ مرض جذبات و احساسات میں عدم توازن کی وجہ سے ہے یا بیرونی اثرات (جراثیم وغیرہ) کی وجہ سے ہے۔

پیچیدہ تصورات منفی احساسات غیر پاکیزہ خیالات اور تخریبی اعمال و حرکات سے روشنیوں کے جسم میں دھبے پڑ جاتے ہیں۔ بعد میں یہ دھبے مادی جسم میں زخم بن جاتے ہیں اور ان میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں جسم میں جراثیم یا Foreign Bodyداخل ہو جاتا ہے۔

رنگوں میں کمی و بیشی معلوم کرنے کا طریقہ

مرض کی تشخیص اور علاج تجویز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مریض کی جسمانی اور جذباتی سطح کو پوری طرح سمجھا جائے۔ مرض کی تشخیص کے لئے معلوم ہونا چاہئے کہ جسم میں کس رنگ کی کمی واقع ہو گئی ہے تا کہ ضروری رنگ کے استعمال سے اس مرض کو رفع کیا جا سکے۔ مریض کی عادات مزاج عمل اور ردعمل کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔

سرخ رنگ کی کمی واقع ہو جانے سے مریض سست، کاہل، کمزور اور سویا سویا سا رہتا ہے۔ قبض کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ برخلاف اس کے جس شخص کے اندر نیلے رنگ کی کمی واقع ہو جائے وہ اضطراری کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ بات بات پر غصہ کرتا ہے اور ہر کام میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

جسم میں رنگوں کی کمی بیشی کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مریض کی آنکھوں کے ڈیلوں Eye Ballsناخنوں اور جلد کے رنگ کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ مثلاً اگر کسی مریض کو سرخ رنگ کی ضرورت ہے تو اس کی آنکھوں کے ڈیلے اور ناخن نیلاہٹ مائل ہوں گے، جلد کا رنگ بے رونق ہو گا، آنکھوں کے نیچے حلقے ہوں گے جب کہ جسم میں نیلی روشنی کی کمی کا اظہار آنکھوں کے ڈیلوں میں سرخی ناخنوں میں تیز سرخی اور جلد میں سرخی سے ہو گا۔

اگر جسم میں سرخی یک لخت اور بے تحاشا بڑھ جائے جیسا کہ سگ گزیدگی میں ہو تا ہے تو نیلا رنگ بار بار اور جلد جلد استعمال کرنا چاہئے۔

بعض حالتوں میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایک رنگ جسم کے کسی خاص حصہ میں جمع ہو گیا ہے جیسے پھوڑا پھنسی، آشوب چشم، درد سر اور فالج وغیرہ لیکن درحقیقت وہ رنگ پورے جسم پر غالب ہوتا ہے۔ جسم کا قدرتی نظام مدافعت اس کو کسی عضو یا حصہ پر ظاہر کر کے ہماری توجہ اس زیادتی کی طرف مبذول کراتا ہے۔ ایسی صورت میں معالج کو چاہئے کہ یکسوئی کے ساتھ غور و فکر کرے کہ مریض کو کس رنگ کی ضرورت ہے۔

آنکھوں کا رنگ کبھی کبھی دھوکہ بھی دے دیتا ہے۔ جیسے آنکھوں کے سرخ ہونے میں سرخ رنگ کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن جب بقیہ دو چیزوں کا معائنہ کیا جائے تو صحیح صورتحال سامنے آ جائے گی۔ آنکھوں کا رنگ مختلف ہوتا ہے۔ گرم ممالک کے لوگوں میں سیاہ ہوتا ہے۔ سفید فام اقوام میں ہلکا یا نیلا ہوتا ہے۔ چنانچہ اکٹھی تین چیزیں ہی صحیح صورت حال کے تعین میں رہنمائی کریں گی۔ کبھی کبھی ناخنوں میں باریک یا موٹی عمودی لکیریں ہوتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلغم زیادہ بن رہا ہے۔ ناخن کالے ہونے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ خون میں سوداویت بڑھ گئی ہے۔

جسم میں اگر کسی ایک رنگ کی زیادتی ہوئی ہو تو اس رنگ کو متوازن کرنے کے لئے ایسا رنگ استعمال کرنا چاہئے جو اس رنگ کی زیادتی کو معتدل کر دے۔ ایسے رنگ کی پہچان کیسے ہو؟ کون سا رنگ کس رنگ کو معتدل کرے گا؟

ان سوالات کے جوابات الہامی کتابوں میں موجود ہیں۔

’’اور ہم نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا۔‘‘        (القرآن)

اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ہم نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں دو رخ کارفرما ہیں۔ مثلاً دن رات مرد عورت خوشی غم روشنی اندھیرا سردی گرمی بہار خزاں سونا جاگنا غرضیکہ ہر تخلیق اس قانون کی پابند ہے۔ ان دو رخوں میں کبھی ایک رخ غالب ہوتا ہے اور دوسرا مغلوب اور کبھی دوسرا غالب اور پہلا مغلوب ہوتا ہے۔ رنگ اللہ کی تخلیق ہیں اور وہ بھی اسی قانون کے پابند ہیں۔

جس رنگ کو ہماری آنکھ دیکھتی ہے وہ رنگ کا غالب رخ ہوتا ہے۔ رنگ کا دوسرا رخ غالب رخ کے پس پردہ ہوتا ہے۔ مغلوب رخ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ غالب رخ کے اثرات کو معتدل کر دیتا ہے اسی طرح غالب رخ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مغلوب رخ کے اثرات کو معتدل کر دیتا ہے۔

کسی رنگ کے مغلوب رخ کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس رنگ کو تھوڑی دیر کے لئے نظر جما کر دیکھیں اور پھر فوراً کسی سفید یا خاکستری سطح کو دیکھیں۔ اس سطح پر مغلوب رخ نظر آ جاتا ہے۔

رنگ کے غالب اور مغلوب رخ چونکہ ایک دوسرے کے اثرات کو معتدل بناتے ہیں اس لئے دونوں رخ ایک دوسرے کے معاون رنگ کہلاتے ہیں۔


کلر تھراپی

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت لقمان علیہ السلام کے نام

جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی 

 

وَ لَقَدْ اٰ تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ

(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)

اور ہم نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔

اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo 

اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo 

تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo

نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo

(القرآن)