Topics
تعارف
روشنی ایک برقی مقناطیسی توانائی ہے۔ سائنسی
نقطۂ نظر سے روشنی کا بنیادی ذرہ فوٹان (Photon) ہے۔ روشنی ہر قسم کی شفاف اشیاء میں سے اور خلاء میں سے گزر سکتی
ہے۔ سفر کرنے کے لئے اسے کسی وسیلے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
رنگ کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ روشنی دراصل
مختلف ارتعاشات اور طول موج کا مجموعہ ہے۔ روشنی کی ایک خاص طول موج کا آنکھ کے پردے
اور دماغ پر محسوس ہونا رنگ ہے۔
۱۶۶۶ء میں سر آئزک نیوٹن نے کشش ثقل کا اصول اور رنگ کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ
کے مطابق سفید روشنی یا سورج کی شعاعیں جب منشور (Prism) سے گزرتی ہیں تو جن لہروں کے مجموعہ سے وہ تشکیل پاتی ہیں وہ اپنے
الگ الگ تموج کے لحاظ سے منقسم ہو جاتی ہیں اور ہم اس تقسیم کو سات رنگ کی صورت میں
دیکھ لیتے ہیں۔ باقی سب رنگ انہی رنگوں کے شیڈز (Shades) ہیں۔ روشنی کی تقسیم سے پیدا شدہ اس دھنک نما رنگ برنگ پٹی کو طیف
(Spectrum) کہتے ہیں۔ طیف کے رنگوں کو ان
کے طول موج کے مطابق درجہ دیا جاتا ہے۔ طیف پر نظر آنے والے رنگ سرخ نارنجی زرد سبز
آسمانی نیلا اور بنفشی ہیں۔ ہماری آنکھیں زرد اور سبز رنگ کے لئے نہایت حساس ہوتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں بھی زرد اور سبز رنگ کے طول موج پر زیادہ شدت سے
پڑتی ہیں۔
طیف پر جو رنگ ہمیں نظر آتے ہیں وہ دراصل طیف
کا صرف مرئی حصہ ہے۔ اس کو مرئی طیف (Visible Spectrum) کہتے ہیں۔ وہ لہریں جن کا طول موج بنفشی رنگ کے طول موج (380 mu) سے چھوٹا ہوتا ہے، ہمیں نظر
نہیں آتیں۔ مثلاً بالائے بنفشی(Ultra Violet) لہریں ایکسریز گاما لہریں۔
اسی طرح وہ لہریں جن کا طول موج سرخ رنگ کے
طول موج (780mu) سے زیادہ ہوتا ہے وہ بھی ہم
نہیں دیکھ سکتے۔ مثلاً زیریں سرخ (Infra Red) اور مائیکرو ویو وغیرہ۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی لازماً مرئی طیف
کے سات رنگوں کے علاوہ دوسرے رنگ نہیں دیکھ سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد طیف کی دوسری
لہروں کو بھی دیکھ سکتے ہوں۔
ہم رنگ کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اس کے بارے میں
مختلف نظریات ہیں۔ عام طور پر جس نظریہ کو قبول کیا جا رہا ہے وہ کلاسیکل تھیوری (Classical Theory) ہے۔
کلاسیکل تھیوری ماہر علم طبعیات یا نگ(Young) اور ماہر علم الاعضاء ہیلم ہولٹز(Helm Holtz) نے پیش کی۔ اس کو یانگ ہیلم
ہولٹز تھیوری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں سائنسدان اس بات سے متاثر ہوئے کہ تین رنگ
دوسرے تمام رنگوں کے مرکب بنانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
اس نظریہ کے مطابق آنکھ کے پردے پر تین قسم
کے کونز (Cones) ہوتے ہیں۔ ایک کون سرخ رنگ،
دوسرا کون زرد رنگ اور تیسرا کون آسمانی رنگ کے طول موج کے لئے حساس ہوتا ہے۔ اب جس
رنگ کا طول موج دماغ کے پردے سے ٹکراتا ہے وہ متعلقہ کون کو متحرک کر دیتا ہے۔ جس کی
وجہ سے ہم وہ رنگ دیکھ لیتے ہیں۔ دوسرے تمام رنگ دو یا تینوں کونز کے متحرک ہونے سے
نظر آتے ہیں۔ مثلاً بنفشی رنگ کا طول موج ان دو کونز کو متحرک کرتا ہے جو کہ سرخ اور
آسمانی رنگ کے طول موج کے لئے حساس ہوتے ہیں۔ ان دونوں کونز کے متحرک ہونے سے ہمیں
بنفشی رنگ نظر آتا ہے۔
رنگ دراصل روشنی کی وہ خاصیت ہے جو اندھیرے
سے مل کر بنتی ہے۔ کسی شئے (Object)
کا رنگ ہمیں کالا اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ شئے روشنی کی تمام لہروں کو جذب کر لیتی
ہے۔ کسی شئے کا رنگ ہمیں سفید اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ شئے روشنیوں کی تمام لہروں کو
منعکس کر رہی ہے۔ ہم سرخ رنگ اسی وقت دیکھتے ہیں جب کوئی شئے سرخ رنگ کے علاوہ طیف
کے دیگر تمام رنگوں کو جذب کر لے۔ یہی صورت حال دوسرے رنگوں کی ہے۔
رنگ کیوں ہیں، کیسے بنتے ہیں، بنیادی رنگ کیا
ہے؟ ابھی تک بالکل واضح صورتحال سامنے نہیں آئی۔ کچھ لوگ بنیادی رنگ چار بتاتے ہیں
کچھ لوگ بنیادی رنگ تین مانتے ہیں۔ ایک گروہ کالے رنگ کو اصل رنگ کہتا ہے، قلندر بابا
اولیاءؒ آسمانی رنگ کو اصل قرار دیتے ہیں۔
عظیم روحانی سائنس دان حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں کہ
انسان اب تک رنگوں کی تقریباً ۶۰ قسمیں دریافت کر چکا ہے لیکن ان ساٹھ رنگوں میں امتیاز بہت ہی زیادہ تیز نگاہ
رکھنے والے کر سکتے ہیں۔ نگاہ جس چیز کو محسوس کرتی ہے انسان اس کو رنگ روشنی جواہرات
اور آخر میں پانی کا نام دیتا ہے۔ آدمی جب خلاء میں دیکھتا ہے اور خلاء سے ٹکرا کر
نظر واپس دماغ کی اسکرین پر آتی ہے اور دماغ پر جو تاثر ہوتا ہے وہ تاثر آسمانی رنگ
نظر آتا ہے۔
بارش کے بعد جب فضا گرد و غبار سے صاف ہو جاتی
ہے تو آسمانی رنگ کی شعاعیں اپنے مقام کے اعتبار سے رنگ بدلتی ہیں۔ یہاں مقام سے مراد
وہ فضا ہے جس کو انسان بلندی پستی وسعت اور زمین سے قربت یا دوری کا نام دیتا ہے۔ یہی
حالات آسمانی رنگ کو ہلکا گہرا اور زیادہ گہرا، زیادہ ہلکا یہاں تک کہ مختلف رنگوں
میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ حد نگاہ سے زمین کی طرف لوٹیئے تو آسمانی رنگ کی لاتعداد رنگین
شعاعیں ملیں گی۔ یہاں اس لفظ رنگ کو قسم کہا جا سکتا ہے۔ دراصل قسم ہی وہ چیز ہے جو
ہماری نگاہوں میں رنگ کہلاتی ہے۔ یعنی رنگ کی قسمیں صرف رنگ ہی نہیں بلکہ رنگ کے ساتھ
فضا میں اور بہت سی چیزیں ملی ہوئی ہیں۔ جو اس میں تبدیلی پیدا کر دیتی ہیں۔ رنگ کا
جو منظر ہمیں نظر آتا ہے اس میں روشنی آکسیجن گیس نائٹروجن گیس اور قدرے دیگر گیسیں
(Gases) بھی شامل ہیں۔ ان گیسوں کے علاوہ
کچھ سائے (Shades) بھی ہوتے ہیں جو ہلکے ہوتے ہیں
یا دبیز، کچھ اور اجزاء بھی اسی طرح آسمانی رنگ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان ہی اجزاء
کو ہم مختلف قسمیں کہتے ہیں یا مختلف رنگوں کا نام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا
چاہئے کہ ان میں ہلکے اور دبیز سایوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
جس فضا سے ہمیں رنگ کا فرق نظر آتا ہے اس فضا
میں نگاہ اور حد نگاہ کے درمیان باوجود مطلع صاف ہونے کے بہت کچھ موجود ہوتا ہے۔
روشنیوں کا سرچشمہ کیا ہے۔ اس کا بالکل صحیح
علم انسان کو نہیں ہے۔ قوس و قزح کا جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے وہ زمین سے تقریباً
نو کروڑ میل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو رنگ ہمیں اتنے قریب نظر آتے ہیں وہ نو کروڑ
میل کے فاصلے پر ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل کام ہے کہ سورج کے اور زمین کے درمیان علاوہ
کرنوں کے اور کیا کیا چیزیں موجود ہیں جو فضا میں تحلیل ہوتی رہتی ہیں۔ جو کرنیں سورج
سے ہم تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا چھوٹے سے چھوٹا جزو فوٹان (Photon) کہلاتا ہے۔
تصوف میں فوٹان کو جو نام دیا گیا ہے وہ
’’عارض‘‘ ہے۔ عارض کے معنی فوٹان پورے نہیں کرتا مگر مثال کے لئے مجبوراً فوٹان کا
نام استعمال کیا گیا ہے۔ عارض کے خواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ڈائیمینشن
نہیں ہوتے اور وہ اتنے تیز رفتار ہوتے ہیں کہ جہاں سے روانہ ہوتے ہیں پل بھر میں کائنات
کا چکر لگا کر واپس وہیں آ جاتے ہیں۔ فوٹان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سائنس
دانوں نے کیا فیصلہ کیا ہے مگر عارض کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ وہ جس جگہ سے جس
پل چلتا ہے اسی پل کائنات کا دورہ پورا کر کے اپنی جگہ پہنچ جاتا ہے۔ عارض کی تعداد
سے پوری کائنات بھری پڑی ہے۔ عارض میں چونکہ Dimensionsنہیں ہوتے اس لئے جب یہ کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو نہ ایک دوسرے سے ٹکراتے
ہیں اور نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔
دوسرے رنگ کو پھر سمجھیں۔
فضا میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں سے
کسی عنصر سے عارض کا ٹکراؤ ہی دراصل اسپیس (Space) ہے۔
فضا کیا ہے؟ رنگوں کی تقسیم ہے۔ رنگوں کی تقسیم
جس طرح ہوتی ہے وہ اکیلے عارض کی رو سے نہیں ہوتی بلکہ ان حلقوں سے ہوتی ہے جو عارض
سے بنتے ہیں۔ جب عارض ان حلقوں سے ٹکراتے ہیں تو اسپیس (Space) یا رنگ وغیرہ کئی چیزیں بن جاتی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرنوں میں یہ حلقے کیسے
پڑے؟
ہمیں یہ تو علم ہے کہ ہمارے کہکشانی نظام میں
بہت سے اسٹار یعنی سورج ہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں ان کا درمیانی فاصلہ
کم از کم پانچ نوری سال بتایا جاتا ہے۔ جہاں ان کی روشنیاں آپس میں ٹکراتی ہیں وہ روشنیاں
چونکہ قسموں پر مشتمل ہیں اس لئے حلقے بنا دیتی ہیں۔ جیسے ہماری زمین یا دوسرے سیارے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج سے یا کسی اور اسٹار(Star) سے جن کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں ۲(دو) کھرب بتائی جاتی
ہے اور جن کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں، جہاں ان روشنیوں کا ٹکراؤ ہوتا
ہے وہیں ایک حلقہ بن جاتا ہے جسے سیارہ کہتے ہیں۔
آدمی سب سے پہلے آسمانی رنگ کا مخلوط یعنی
بہت سے ملے ہوئے رنگوں کو اپنے بالوں اور سر میں قبول کرتا ہے اور اس رنگ کا مخلوط
پیوست ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جتنے خیالات، کیفیات اور محسوسات وغیرہ اس مخلوط سے
اس کے دماغ کو متاثر کرتے ہیں وہ اتنا ہی متاثر ہوتا ہے۔
دماغ میں کھربوں خانے ہوتے ہیں اور ان میں
سے برقی رو گزرتی رہتی ہے۔ اس برقی رو کے ذریعہ خیالات شعور اور تحت الشعور سے گزرتے
رہتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ لاشعور میں۔ دماغ میں مخلوط آسمانی رنگ آنے سے اور پیوست
ہونے سے خیالات، کیفیات، محسوسات وغیرہ برابر بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی نوعیت یہ ہوتی
ہے کہ اس رنگ کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح سے اپنا اثر کم و بیش پیدا کرتے ہیں
اور فوراً اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تا کہ دوسرے سائے ان کی جگہ لے سکیں۔ بہت سے سائے
جو جگہ چھوڑ دیتے ہیں محسوسات بن جاتے ہیں اس لئے کہ وہ گہرے ہوتے ہیں، ان کے علاوہ
بہت سی خیالات کی صورتیں منتشر ہو جاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ
لیتا ہے۔ ان میں سے جن خیالات کو بالکل کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہو جاتے ہیں اور جو جذب
کر لیتا ہے وہ عمل بن جاتے ہیں۔ انہی سایوں کے ذریعہ انسان رنج و راحت حاصل کرتا ہے
کبھی وہ رنجیدہ اور بہت رنجیدہ ہو جاتا ہے، کبھی وہ خوش اور بہت خوش ہو جاتا ہے۔ یہ
سائے جس قدر جسم سے خارج ہو سکتے ہیں ہو جاتے ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر پیوست ہو جاتے
ہیں وہ اعصابی نظام بن جاتے ہیں۔
آدمی دو پیروں سے چلتا ہے اس لئے سب سے پہلے
ان سایوں کا اثر اس کا دماغ قبول کرتا ہے۔ دماغ کی چند حرکات معین ہیں جن سے وہ اعصابی
نظام میں کام لیتا ہے۔ سر کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ اور حرام مغز اس اعصابی نظام
میں خاص کام کرتا ہے۔ رنج و خوشی دونوں سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ رنج و خوشی دراصل
بجلی کی ایک رو ہے جو دماغ سے داخل ہو کر تمام اعصاب میں سما جاتی ہے۔ یہ لہریں دو
پیروں سے چلنے والے جانور کے دماغ میں داخل ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا وزن، تجزیہ، فضا
میں ہر جگہ بالکل یکساں نہیں ہوتا بلکہ جگہ جگہ تقسیم ہوتا ہے اور اس تقسیم کاری میں
دماغ کچھ سائے زیادہ جذب کرتا ہے اور کچھ سائے کم۔ انسان کے دماغ میں لاشمار خلئے
(Cells) بھی کام کرتے ہیں۔ یہ ضروری
نہیں ہے کہ ان لاشمار خلیوں میں سائے کی لہریں جو فضا سے بنتی ہیں وہ اپنے اثرات کو
برقرار رکھیں۔ کبھی ان کے اثرات بہت کم رہ جاتے ہیں اور کبھی ان کے اثرات بالکل نہیں
رہتے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ تمام خلئے جو دماغ سے تعلق رکھتے ہیں کسی وقت خالی نہیں
رہتے کبھی ان کا رخ ہوا کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے کبھی پانی کی طرف کبھی غذا کی طرف
اور کبھی تنہا روشنی کی طرف۔ اس روشنی سے رنگ اور رنگ کی ملاوٹی شکلیں بنتی ہیں اور
خرچ ہوتی رہتی ہیں۔ اگر انسان دماغ سے کام لے تو چہرہ پر طرح طرح کے رنگ نظر آتے ہیں۔
ان رنگوں میں سب سے نمایاں رنگ آنکھوں کا رنگ اور حواس کی رو کا رنگ ہوتا ہے۔ اگرچہ
آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان چیزوں کا جو باہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر
قبول کرتی ہیں۔ بہت سے باہر کے عکس آنکھوں کے ذریعہ اندرونی دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔
اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس تازہ ہو جاتے ہیں یا افسردہ کمزور ہو جاتے ہیں یا طاقتور۔
انہی باتوں پر دماغی کام کا انحصار ہے۔ رفتہ
رفتہ یہ کام اعصاب میں سرایت کر جاتا ہے جو صحیح بھی کام کرتا ہے اور غلط بھی۔
دماغی لہروں سے چہرہ پر اتنے زیادہ اثرات آ
جاتے ہیں کہ ان سب کا پڑھنا مشکل ہے پھر بھی ایک فلم چہرہ میں چلتی رہتی ہے جو اعصاب
میں منتقل ہونے والے تاثرات کا پتہ دیتی ہے۔
جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ رنگوں کی تعداد
بہت زیادہ ہے اور ان کی افادیت بھی زیادہ ہے۔ ہم یہاں دھنک کے سات رنگوں کو سمجھنے
کی کوشش کرتے ہیں۔
آسمانی رنگ حقیقت میں کوئی رنگ نہیں ہے بلکہ
یہ ان کرنوں کا مجموعہ ہے جو ستاروں سے آتی ہیں جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ کہیں
بھی ان ستاروں کا فاصلہ پانچ (۵) نوری سال سے کم نہیں ہے (ایک کرن ایک لاکھ
چھیاسی ہزار دو سو (۲۰۰،۸۶،۱) میل فی سیکنڈ سے سفر کرتی ہے)۔ اسی طرح نوری سال کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔
ہر ستارہ کی روشنی سفر کرتی ہے اور سفر کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے۔ ان میں ایک
کرن کا کیا نام رکھا جائے، یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ نہ انسان کرن کے رنگ کو
آنکھوں میں جذب کر سکتا ہے۔ یہ کرنیں مل جل کر جو رنگ بناتی ہیں وہ تاریک ہوتا ہے اور
اس تاریکی کو نگاہ آسمانی محسوس کرتی ہے۔ انسان کے سر میں اس کی فضا سرایت کر جاتی
ہے۔ نتیجہ میں وہ لاتعداد خلیے جو انسان کے سر میں موجود ہیں اس فضا سے معمور ہو جاتے
ہیں اور یہاں تک معمور ہوتے ہیں کہ ان خلیوں میں مخصوص کیفیات کے علاوہ کوئی کیفیت
سما نہیں سکتی یا تو یہ خلیے کی ایک کیفیت ہوتی ہے یا کئی خلیوں میں مماثلت پائی جاتی
ہے اور ان کی وجہ سے ایک دوسرے کی کیفیات شامل ہو جاتی ہیں لیکن یہ اس طرح کی شمولیت
نہیں ہوتی کہ بالکل مدغم ہو جائے بلکہ اپنے اپنے اثرات لے کر خلط ملط ہو جاتی ہے اور
اس طرح دماغ کے لا تعداد خلیے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں اور یہاں تک پیوست ہو
جاتے ہیں کہ ہم کسی خلیے کا عمل یا ردعمل ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے بلکہ وہ مل
جل کر وہم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان توہماتی جانور ہے
تو بے جا نہیں ہو گا۔ خلیوں کی یہ فضا توہمات کہلا سکتی ہے یا خیالات یا محسوسات۔ یہ
توہماتی فضا دماغی ریشوں میں سرایت کر جاتی ہے ایسے ریشے جو باریک ترین ہیں۔
خون کی گردش رفتار ان میں تیز تر ہوتی ہے۔
اسی گردش رفتار کا نام انسان ہے۔ خون کی نوعیت اب تک جو کچھ سمجھی گئی ہے۔ فی الواقع
اس سے کافی حد تک مختلف ہے۔ آسمانی فضا سے جو تاثرات دماغ کے اوپر مرتب ہوتے ہیں وہ
ایک بہاؤ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور حقیقت میں ان کو توہمات یا خیالات کے سوا اور
کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جب آسمانی رنگ کی فضا خون کی رو بن جاتی ہے تو اس کے اندر
وہ حلقے کام کرتے ہیں جو دوسرے ستاروں سے آئے ہیں۔ وہ حلقے چھوٹے سے چھوٹے ہوتے ہیں
اس قدر چھوٹے کہ کسی مادی ذریعہ سے انہیں نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن ان کے تاثرات عمل
کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اعصاب میں وہی حرکات بنتے ہیں اور انہی کی زیادتی یا کمی
اعصابی نظام میں خلل پیدا کرتی ہے۔
یہیں سے رنگوں کا فرق شروع ہوتا ہے۔ ہلکا آسمانی
رنگ بہت ہی کمزور قسم کا وہم پیدا کرتا ہے۔ یہ وہم دماغی فضا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
اس طرح کہ ایک ایک خلیہ میں درجنوں آسمانی رنگ کے عکس (Shadow) ہوتے ہیں۔ یہ عکس الگ الگ تاثرات رکھتے ہیں۔ وہم کی پہلی رو خاص کر
بہت ہی کمزور ہوتی ہے۔ جب یہ رو دو یا دو سے زیادہ چھ تک ہو جاتی ہے تو اس وقت ذہن
اپنے اندر وہم کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ وہم اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اگر جنبش نہ کرے
اور ایک جگہ مرکوز رہے تو آدمی نہایت تندرست رہتا ہے۔ اسے کوئی اعصابی کمزوری نہیں
ہوتی بلکہ اس کے اعصاب صحیح سمت میں کام کرتے ہیں۔ اس رو کا اندازہ بہت ہی شاذ ہوتا
ہے۔ اگر یہ رو کسی ایک ذرہ پر یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رخ پر مرکوز ہو جائے اور
تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے تو دور دراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔
اس رو کا پہلا اثر دماغ پر ہوتا ہے۔ جہاں سے
ام الدماغ کے ذریعہ اسپائنل کارڈ میں سرایت کر جاتا ہے اور باریک ترین ریشوں میں تقسیم
ہو جاتا ہے۔ اس تصرف یا تقسیم سے حواس بنتے ہیں۔ حواس میں سب سے پہلی حس نگاہ ہے، آنکھ
کی پتلی پر جب کوئی عکس پڑتا ہے تو وہ دماغ کے باریک ترین ریشوں میں سنسناہٹ پیدا کر
دیتا ہے یہ ایک مستقل برقی رو ہے۔ اگر اس کا رخ صحیح ہے تو آدمی بالکل صحت مند ہے۔
اگر اس کا رخ صحیح نہیں ہے تو دماغ کی فضا کا رنگ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ
دماغ میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور اعصاب اس رنگ کے پریشر کو برداشت نہیں کر سکتے۔
آخر میں یہ رنگ اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ اس میں تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً آسمانی
رنگ سے نیلا رنگ بن جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ درمیان میں جو مرحلے پڑتے ہیں
وہ بے اثر نہیں ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے رونما ہوتے رہتے ہیں رنگ گہرا ہو جاتا ہے اور
وہم کی قوتیں بڑھ جاتی ہیں۔ باریک ترین ریشے بھی اس تصرف کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اب
کیفیت مختلف اعصاب میں مختلف شکلیں پیدا کر دیتی ہے۔ باریک اعصاب میں بہت ہلکی اور
معمولی اور تنومند اعصاب میں مضبوط اور طاقتور۔ اسی طرح یہ مرحلے گہرے نیلے رنگ میں
تبدیلیاں شروع کر دیتے ہیں۔
نیلا رنگ دو طرح کا ہوتا ہے ہلکا نیلا اور
گہرا نیلا۔ سب سے پہلے ہلکے نیلے رنگ کا اثر دماغی خلیوں پر ہوتا ہے۔ اگرچہ دماغی خلیوں
کا رنگ ہلکا نیلا الگ الگ ہوتا ہے لیکن ان خلیوں کی دیواریں ہلکی اور موٹی ہوتی ہیں۔
پھر ان میں رنگوں کو چھاننے کے اثرات بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک خلیہ جب اپنے ہلکے نیلے
رنگ کو چھانتا ہے تو اس رنگ میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح لاکھوں خلیے مل کر اپنا
تصرف کرتے ہیں جس سے تخیل بن جاتا ہے اور اس تخیل کا عملی مظاہرہ ہو جاتا ہے۔ کبھی
کبھی ان خلیوں کا رنگ اتنا تبدیل ہو جاتا ہے کہ نگاہ انہیں بالکل سرخ سبز زرد وغیرہ
رنگوں میں دیکھنے لگتی ہے۔ اس لئے کہ باہر سے جو روشنیاں جاتی ہیں ان میں اسپیس(Space) نہیں ہوتا بلکہ خلیوں کے تصرف
سے اسپیس (Space) بنتا ہے۔ خلیوں کا تصرف جب اسپیس
بناتا ہے تو آنکھوں کے ذریعہ باہر سے جانے والی کرنوں کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے نتیجہ
میں رنگوں کی تبدیلیاں یہاں تک واقع ہوتی ہیں کہ وہ ساٹھ تک گنے جا سکتے ہیں۔ دراصل
رنگ ہی حواس بناتے ہیں۔
آسمانی رنگ خلیوں میں ان کی بساط کے مطابق
عمل کرتا ہے۔ آسمانی رنگ جو فی الواقع ایک برقی رو ہے دماغی خلیوں میں آنے کے بعد اسپیس
بن جاتا ہے۔ آنکھ کے پردے پر جو عمل ہوتا ہے اس سے مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ یہ خلیوں
کے اندر بہنے والی رو کا تصرف ہے۔ آنکھ کی حس جس قدر تیز ہوتی ہے اتنا ہی رو میں امتیاز
کر سکتی ہے۔
اس تصرف سے ہی رنگ تبدیل ہو کر سبز ہو جاتے
ہیں، زرد ہو جاتے ہیں، نارنجی ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور کتنے ہی رنگ بدل جاتے ہیں۔
مفہوم یہ ہے کہ ہم مستقل برقی رو میں گھرے ہوئے ہیں اور یہ برقی رو دماغی خلیوں سے
گزر کر جب باہر آتی ہے تو طرح طرح کے رنگ آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ دیکھنے کی حس سونگھنے
کی حس، سوچنے کی حس، بولنے کی حس، چھونے کی حس، بیماری اور توانائی اسی برقی رو سے
عمل بنتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت لقمان
علیہ السلام کے نام
جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی
وَ لَقَدْ اٰ
تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ
(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)
اور ہم
نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔
اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo
اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo
تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo
نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo
(القرآن)