Topics
بقاء کے لئے انسان کئی
چیزوں کا محتاج ہے۔ اس میں ایک ضرورت بیماریوں سے محفوظ رہنا اور شفاء حاصل کرنا
ہے۔ بیماری کیسے بنی، دنیا میں پہلا بیمار کون تھا؟ دوا کا خیال کس کے ذہن میں
آیا؟ پہلی دوا کس نے ایجاد کی؟ اس سلسلے میں حکماء نے مختلف باتیں کہی ہیں۔ تا ہم
بعض قدیم حکماء کی رائے میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
بقراط Hippocratاور جالینوس Galen کا
گمان ہے کہ یہ فن الہامی ہے۔ ابو جابر مغربی اور اس کے ہم خیالوں دانشوروں کی رائے
میں فن طب کی بنیاد وحی ہے۔ کتاب ’’لمیون الانبیاء‘‘ میں فن طب کو الہامی بتایا
گیا ہے۔ حضرت شیث علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام،
حضرت لقمان علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا فن رائج رہا ہے۔ علم طب سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں موجود تھا اور آج بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
معین کردہ علاج موجود ہے۔
علاج انسان کی ایسی ضرورت
ہے جو موت و حیات کے مابین گردش کرتا ہے۔ بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے انسان
نے ہر دور میں تدبیر کی ہے۔ ان تدابیر سے نئے نئے نظریئے قائم ہوتے رہے اور ان
نظریات پر نئے نئے فلسفے بنتے رہتے ہیں۔
طب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے
کہ بیمار انسان کو شفا بخش اصولوں اور علاج معالجہ سے صحت مند کر دیا جائے۔
بیماری کی وجوہات اور
علاج کے طریقے مختلف ہیں۔ ہر طریقۂ علاج ایک فلسفہ ہے جس کے مطابق علاج تجویز کیا
جاتا ہے۔ دنیا میں جس طرح دوسرے علوم ترقی پذیر ہیں اسی طرح علم طب بھی ترقی پذیر
ہے۔ دوسرے نظریات اور فلسفوں کی طرح فن طب کے فلسفے میں ہر روز پیش رفت ہو رہی ہے۔
فلسفے بنتے رہتے ہیں، ان
پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے اور ان کے مقابلے میں دوسرے نئے فلسفے بھی پیش ہوتے
رہتے ہیں لیکن بقاء ان ہی فلسفوں اور نظریات کو ملتی ہے جو قانون قدرت اور فطرت
انسانی کے مطابق ہیں۔
رنگ آفاقی قوت کا ایک
مظہر ہیں اور آفاقی قوتیں زندگی کی ضامن ہیں۔ ہمارے اسلاف نے رنگوں کو سمجھنے کے
لئے بڑی عرق ریزی سے قوانین اور اصول وضع کئے ہیں۔
انسانوں کی فلاح کے لئے
اسلاف نے بابل مصر آشوریہ یونانی ایرانی ہر دور میں رنگوں سے استفادہ کیا ہے۔
بقراط سالیوس جالینوس اور پلانٹی کے کتبات
بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ مصری یونانی اور رومن اپنے مکانوں میں ایسا صحن بنواتے
تھے جس میں ہر موسم میں دھوپ آتی رہے۔
حکیم بو علی سینا نے ۹۰۰
سال قبل اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’القانون‘‘ میں رنگ و روشنی کی افادیت پر اظہار خیال
کیا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی پیدائش سے ۵۰۰ سال قبل فیثا غورث کے زمانے میں لوگ اپنا علاج رنگوں سے کیا کرتے
تھے۔
انہیں یہ بھی معلوم تھا
کہ رنگوں کے ذریعے اعصابی نظام بحال کیا جا سکتا ہے۔
بے شمار بیمار اور معذور
افراد گرجا گھروں میں جانے سے صحت یاب ہو جاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان عبادت
گاہوں کی کھڑکیوں میں سرخ ارغوانی سبز اور زرد رنگ کے شیشے ہوتے تھے۔ سورج کی
روشنی جب ان شیشوں میں سے گزر کر مریضوں پر پڑتی تھی تو وہ تندرست ہو جاتے تھے۔
رنگ اجسام کے اندر جنریٹر (Generator) کا کام کر رہے ہیں۔ سورج کائناتی قوتوں کا نہ ختم ہونے والا ایسا
خزانہ ہے جو زمینوں پر بسنے والی مخلوق کو انرجی(Energy) فراہم کرتا
ہے۔ اگر سسٹم میں خرابی واقع ہو جائے اور کرہ ارضی سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے
تو درخت پھول پھلواری سبزہ اور دوسرے تمام جاندار ختم ہو جائیں گے۔
ہم اس بات سے صرف نظر
نہیں کر سکتے کہ ہماری غذا میں براہ راست سورج کی روشنی کا عمل دخل ہے۔ ہماری
غذائیں اور ہر چیز رنگین ہے۔
انسان کے اندر تلاش تجسس
تفکر ایقان وجدان اور مشاہدہ کی صفت کام کر رہی ہے۔ جب کوئی انسان ان تخلیقی
صلاحیتوں کا کھوج لگاتا ہے اور ان صلاحیتوں سے کام لینے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو
آفاقی قوانین منکشف ہو جاتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے اوپر عصبیت
جہالت اور خود غرضی کی چادر اوڑھ لی ہے اور وہ روز بروز روشنی سے محروم ہو رہا ہے۔
روشنی کے استعمال سے عدم
واقفیت کی بناء پر اکثر لوگ بے شمار جسمانی اور اعصابی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ ان
امراض میں ذہنی بیماریاں جذباتی بیماریاں بے راہ روی سے پیدا ہونے والے امراض
مثلاً کینسر ایڈز بے خوابی بلڈ پریشر اور ہر روز سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ نئی نئی
مشکلات و مصائب اور ان کے نتیجہ میں پیچیدہ اور لاعلاج بیماریاں شامل ہیں۔
بیماریاں دو طرح کی ہوتی
ہیں:
۱۔ چھوٹے اور اندھیرے
گھروں میں رہائش، دفتروں میں غیر صحت مند ماحول اور ناموافق آب و ہوا جسم کو
بیماریوں کی آماجگاہ بنا دیتی ہے۔
۲۔ وہ بیماریاں جو شک بے
یقینی اور وسوسوں سے پیدا ہوتی ہیں یعنی جذباتی رویہ پراگندہ ذہنی دماغی کشمکش
اعصابی
کشاکش مادیت پرستی عدم تحفظ کا احساس انتشار
اور روحانی علوم سے عدم واقفیت نئے نئے امراض کا سبب ہے۔
رنگوں میں ایسی شفا بخش
خاصیت موجود ہے جو دونوں طرح کے مریضوں کو صحت فراہم کرتی ہے۔ رنگ ہمارے
اذہان ہمارے احساسات ہمارے اندر کے اندھیرے
اور ہمارے جسم کی کثافتیں ختم کرنے کا ذریعہ ہیں۔
ہماری
روح روشنیوں کا ایک ایسا منبع ہے جس سے ہمہ وقت رنگین روشنیاں نکلتی رہتی ہیں۔ یہ
روشنیاں جسم کو
سیراب کرتی ہیں اور انہی روشنیوں کی وجہ سے جسم اور اس
کے تمام اعضاء اپنے معینہ افعال بحسن و خوبی انجام
دیتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت لقمان
علیہ السلام کے نام
جن کو اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی
وَ لَقَدْ اٰ
تَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَن اشْکُرْ لِلّٰہِ
(لقمٰن۔۔۔۔۔۔۱۲)
اور ہم
نے لقمان کو حکمت دی تا کہ وہ اللہ کا شکر کرے۔
اور جو بکھیرا ہے تمہارے واسطے زمین میں کئی رنگ کا اس میں نشانی ہے ان لوگوں کو جو سوچتے ہیںo
اور اس کی نشانیوں سے ہے آسمان زمین کا بنانا اور بھانت بھانت بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت پتے ہیں بوجھنے والوں کوo
تو نے دیکھا؟ کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح ان کے رنگ اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح ان کے رنگ اور بھجنگ کالےo
نکلتی ان کے پیٹ میں سے پینے کی چیز جس کے کئی رنگ ہیں اس میں آزار چنگے ہوتے ہیں لوگوں کے اس میں پتہ ہے ان لوگوں کو جو دھیان کرتے ہیںo
(القرآن)