Topics
قلندر
بابااولیاءؒ نظم و ضبط اور ترتیب کو پسند فرماتے تھے اور اپنے کام وقت پر کرنے کے عادی
تھے۔اگر کہیں جانا ہوتا اور مخصوص وقت ہوتا تو آ پ ٹا ئم پر تیار ہو جاتے۔آپ وقت کا
ضیاع بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔آپ نے اپنے استعمال کی چیزوں کی بھی جگہ مقرر کر رکھی
تھی۔جوتے اتارنے کے بعد اس طرح رکھتے کہ جوتے ایک انچ آگے نہ پیچھے ہوتے۔باہر سے آ
کر شیروانی ہینگر میں لگاتے کبھی کیل پر نہیں لٹکایا۔ دھلے ہوئے کپڑے الماری میں ترتیب
سے رکھتے۔ بستر پر چادر تکیہ صاف ستھرا استعمال کرتے۔
مطالعہ کا بے حد شوق تھا آپ کے پاس بہت اچھی اچھی کتابیں
تھیں ۔ کوئی نہ کوئی کتاب آپ کے مطالعہ میں
ضرور رہتی جو عموماً تکیہ کے نیچے بائیں جانب
موجود رہتی ،ساتھ میں قلم بھی ہوتا۔
کتابوں کی الماری میں کتابیں ایسی ترتیب سے ہوتیں کہ کہتے
فلاں خانے میں دائیں طرف تیسری کتاب یا بائیں جانب پانچویں کتاب میں فلاں مضمون نکالو۔
آپ کے پاس شیفر اور پارکر نامی قلم کے سیٹ ہوا کرتے تھے۔
فاونٹین قلم کے رنگ کے قلم کی مناسبت سے اسی رنگ کی روشنائی اس میں ہوتی یعنی سبز رنگ
کے قلم میں سبز رنگ کی روشنائی ، سیاہ رنگ کے قلم میں سیاہ رنگ کی روشنائی۔
قلندر بابااولیاءؒ لباس کے معاملے میں انتہائی نفیس ذوق رکھتے تھے۔ عموماً سفید
رنگ کا لباس زیب تن کرتے ۔لباس اجلا اور صاف ستھرا استعمال کرتے تھے۔کرتا پاجامہ شیروانی
یہ سب ہی لباس آپ پر بڑے خوب صورت لگتے تھے۔باہر جاتے وقت اکژ جناح ٹوپی استومال کرتے
تھے۔چپل یا جوتے ہمیشہ براون پہنتے تھے۔سیاہ رنگ جوتے استعمال نہیں کرتے تھے۔آپ فرماتے
تھے: جو آفاقی شعاعیں دماغ میں داخل ہوتی ہیں
جسم میں دور کرتے ہوئے پیروں کے راستے زمین میں جزب ہوجاتی ہیں۔ اگر سیاہ رنگ کے جوتے
پہنے جائیں تو سیاہ رنگ ان شعاعوں کو جزب کر کے زمین تک نہیں جانے دیتا جس سے جسم اور
ذہن کو نقصان ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ہونہار طلبہ کے نام جو
اساتذہ اور والدین کا کہنا مانتے ہیں
بڑوں کا ادب کرتے ہیں
چھوٹوں سے پیار کرتے ہیں۔