Topics
قلندر
بابااولیاءؒ جن دنوں روحانی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے آپ کی والدہ کا انتقال ہو
گیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ والدہ کے بعد آپ نے اپنے چھوتے بہن بھائیوں کی ذمہ
داری سنبھال لی۔ جب بچیوں کی تربیت کے سلسلے میں مشکل پیش آئی تو حضرت بابا تاج الدینؒ
کی ہدایت کے مطابق قلندر بابااولیاءؒ کی شادی ہو ئی۔
شادی کے بعد قلندر بابااولیاءؒ نے دہلی میں قیام کیا۔ گھر
کی معاشی زمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے آپ نے صحافت کے شعبے کا انتخاب کیا۔مختلف
رسائل و اخبارات میں مضامین لکھنا شروع کیے اور شعراء کے کلام کی اصلاح و تربیت کا
کام کرنے لگے۔۱۹۳۶
میں آپ نے برطانوی ہندوستانی فوج میں ایک سال ملازمت کی۔
دہلی میں چار مہینے کی ٹریننگ کے بعد ۳۰۰
سپاہیوں کے ہمراہ بمبئی گئے اور وہاں سے پونا گئے۔
۱۹۳۷
میں ایک مرتبہ آرمی میں ڈیوٹی کے سلسلے میں کولمبو گئے۔ایک دن
اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں ایک گولا آکر گرا۔اس وقت قلندر بابااولیاءؒ نے
جو حفاظتی ٹوپی پہنی تھی اس میں آنکھوں کی حفاظت کے لیے جو شیشہ تھا وہ دھماکے کی شدت
سے ٹوٹ گیا اور کافی سارا دھواں مٹی سمیت سانس کے ذریعے اندر چلا گیا اور پسلیاں اندر
دھنس گئیں۔ بیت تکلیف ہوئی، زخمی بھی ہوگئے، آخر عمر تک ٹانگوں پر ان زخموں کے نشان
موجود تھے۔ انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔تکلیف
کے باعث وہ کروٹ نہیں لے سکتے تھے۔آپ صحت مند ہونے کے بعد واپس اپنی ملازمت پر چلے
گئے۔
ایک مرتبہ جاپان کی جنگ میں جانے کی بات ہوئی تو قلندر بابااولیاءؒ
نے کہا میرے والد بوڑھے ہیں۔ پہلے میں ان سے جانے کی اجازت لے لوں۔ آپ اپنے والدین
کا بہت ادب کرتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ہونہار طلبہ کے نام جو
اساتذہ اور والدین کا کہنا مانتے ہیں
بڑوں کا ادب کرتے ہیں
چھوٹوں سے پیار کرتے ہیں۔