Topics
قلندر
بابااولیاءؒ حسن اخلاق کا ایسا سراپا تھے کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔آپ کی شخصیت میں
رعب تھا نہ کوئی ڈر اور خوف صرف اور صرف محبت اور شفقت کا احساس ،دھیما لہجہ،لبوں پر
مسکراہٹ،چہرہ پر سنجیدگی،آنکھوں میں فکر کی گہرائی اور سادگی آپکی پہچان تھی۔نمود و
نمائش سے دور تھے۔آپ حقیقت پسند تھے۔مزاح خود بھی فرماتے تھے اور دوسروں کی شگفتہ باتوں
کو بھی پسند فرماتے۔ مزاح ہمیشہ ایسا پسند فرماتے جس سے مضفل میں تہذیب و اخلاق بھی
رہے اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔آپ تبسم فرماتے یا ہنستے لیکن کبھی قہقہ نہیں لگایا۔
گفتگو ٹھہر ٹھہر کر نرم لہجہ میں کرتے تاکہ مخاطب بات کو
اچھی طرح سمجھ سکے۔چیخ کر بلانے کو نا پسند کرتے۔کوئی شخص اونچی آواز میں بات کرتا
اسے تاکید فرماتے کہ ؛ ارے بھائی آہستہ بولو بلاوجہ کیا بلڈپریشر ہائی کرنا، اگر کوئی
صاحب کہتے کہ بھائی صاحب عادت بن گئی ہے۔
آپ فرماتے؛ کیا عادت بن گئی ہے، بنالی ہے،صحیح کر لو، کیا
ٖفائدہ اتنی زور سے کیوں بولتے ہو؟ بھئی! آواز کمرے سے باہر نہیں جانی چاہیے۔اس طرح
کمرے سے باہر بیٹھے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔
پیارے بچوں!
گفتگو میں انسان کی شخصیت کا عکس جھلکتا ہے۔اللہ تعالی کرخت
آواز کو پسند نہیں کرتے۔چیخ کر بولنے سے توانائی زیادہ خرچ ہوتی ہے۔ زہن پر بوجھ پڑتا
ہے۔آدمی دماغی مریض بن سکتا ہے۔جس آدمی سے چیخ کر بات کی جائے وہ سمجھتا ہے مجھ پر
رعب ڈالا جا رہا ہے،اس طرح بندہ اپنے پرایوں سے دور ہو جاتا ہے۔چیخ کر بولنے اور غصہ کرنے سے چھوٹے بچے سہم جاتے ہیں چہرہ پر
خوبصورتی نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہستہ آہستہ اور نرم لہجے میں بات کرنے والے افراد کو اللہ کی مخلوق عزیز رکھتی
ہے۔ ہر آدمی کے چہرہ کے ارد گرد روشنی کا ہالہ ہوتا ہے یہ ہالہ ان لوگوں میں زیادہ
نمایاں اور روشن ہوتا ہے جو نرم لہجہ میں بات کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ہونہار طلبہ کے نام جو
اساتذہ اور والدین کا کہنا مانتے ہیں
بڑوں کا ادب کرتے ہیں
چھوٹوں سے پیار کرتے ہیں۔