Topics
حضرت لبابہ متعبدہؒ بیت المقدس کی رہنے
والی تھیں۔ ایک شخص نے پوچھا:
’’میں حج کو جا رہا ہوں وہاں کیا دعا
کروں؟‘‘
فرمایا: ’’تو اللہ سے وہ چیز طلب کر کہ وہ
خوش ہو جائے اور تجھے اپنے دوستوں میں شامل کرے۔‘‘
اس نے پوچھا:’’وہ کیا شئے ہے؟‘‘
فرمایا:’’اللہ سے اللہ کو مانگ لے۔‘‘
آپ مستجاب الدعوات تھیں۔ ایک مرتبہ ایک
سکھ عورت آپ کے پاس آئی۔ ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہنے لگی:
’’مہارانی جی! میری شادی کو دس سال ہو گئے
ہیں مگر اولاد کی خوشی ابھی تک نصیب نہیں ہوئی۔ بڑے بڑے پروہتوں اور جوگیوں سے
تعویذ گنڈے کروائے لیکن کچھ نہ بنا۔ اب بڑی امید کے ساتھ آپ کے پاس آئی ہوں۔‘‘
آپؒ نے اللہ کے حضور دعا کی۔ اللہ نے دعا
قبول کی۔ آپؒ نے عورت کو خوشخبری سنائی:
’’جاؤ تمہیں اللہ بیٹا دے گا اور وہ توحید
پرست ہو گا۔‘‘
کچھ عرصے بعد وہ عورت بیٹے کے ہمراہ پھر
آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کی دعائیں لے کر واپس چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد اس
کا انتقال ہو گیا۔ جب بچہ جوان ہوا تواس نے خواب میں دیکھا کہ ایک پرنور اور شفیق
خاتون اسے اللہ کی وحدانیت کا درس دے رہی ہیں۔ لڑکا سارا دن بزرگ خاتون کی دی ہوئی
تعلیمات پر غور کرتا رہا۔ دوسرے رات پھر وہی خواب نظر آیا۔ اس طرح تین رات مسلسل
اسے ایک خواب آیا۔
تیسری رات صبح وہ فجر کے وقت اٹھا اور
مسجد میں جا کر اسلام قبول کر لیا۔
آپ فرماتی تھیں۔
’’بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے
کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو۔ اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو۔ اس
کے اندر عبادت کا ذوق اور اللہ کے عرفان کا تجسس ہو۔‘‘
* بندے کا للہ کے ساتھ اس طرح تعلق استوار
ہو جائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے۔
* بندے کے اندر یہ طلب پیدا ہو جائے کہ
مجھے اللہ کو دیکھنا ہے اور اس کا عرفان حاصل کرنا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔