Topics
صاحب دل اور صاحب گداز تھیں۔ زیادہ رونے
سے بینائی چلی گئی تھی۔ کسی نے کہا ’’اندھا ہونا بھی کیسی بدنصیبی ہے۔‘‘ آپ نے
فرمایا کہ’’خدا کے دیدار سے محروم رہنا اس سے بڑی بدنصیبی ہے۔‘‘
ایک دن آپ کے پاس کچھ خواتین آئیں۔ ان میں
سے ایک عورت اپنی وضع قطع سے ہندو معلوم ہوتی تھی اور رو رہی تھی۔ آپ نے اسے اپنے
پاس بلایا اور رونے کا سبب پوچھا۔ اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔’’بی بی! میں ہندو ہوں
آپ کی بہت تعریف سنی ہے۔ ایک مصیبت میں گرفتار ہوں۔ آپ میرا ایک کام کر دیں۔‘‘
آپ نے فرمایا:
’’کیا بات ہے۔ کہو۔‘‘
عورت نے کہا کہ ’’میرا لڑکا اندھا ہے اس
کو روشنی دلا دو۔‘‘
آپ نے جواب دیا۔’’میں طبیب نہیں ہوں کسی
معالج سے علاج کراؤ۔‘‘ عورت نے عرض کیا:
’’بی بی! میں اتنا علاج کرا چکی ہوں کہ اب
علاج پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ میں تو آپ کی دعا لینے کے لئے حاضر ہوئی ہوں۔‘‘
آپ نے اس کے حق میں دعائے خیر کر دی۔ عورت نے بیٹے کو سینے سے لگایا اور خوشی خوشی
اپنے گھر چلی گئی۔ لڑکا بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔ ایک جگہ ٹھوکر لگی اور زمین پر
گر گیا۔ ماں نے تڑپ کر اسے اٹھایا۔ لڑکے کی غیر معمولی حالت دیکھ کر اس سے
پوچھا،’’کیا
بات ہے بیٹا؟‘‘ لڑکے نے اپنی دونوں آنکھیں
ملیں اور خوشی سے چلایا،
’’ماتا جی!
مجھے نظر آ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں۔ میں
سب کچھ دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
ماں خوشی سے سرشار دوبارہ حضرت عفیرہ
العابدہؒ کے پاس پہنچی اور پورا واقعہ سنا کر کہا ’’میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی
کہ میرے لڑکے کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔‘‘
حضرت عفیرہؒ نے جواب دیا۔
’’روشنی تو اللہ نے دی ہے میں نے تو کچھ
نہیں کیا۔ ٹھوکر کھا کر اس کی بینائی گئی تھی ٹھوکر سے ہی واپس آ گئی۔‘‘
* جس کی آنکھیں اللہ کے دیدار سے محروم
ہوں وہ سب سے بڑا بدنصیب ہے۔
* اللہ کو ’’پیار‘‘ سے یاد کرو، جسم و جان
میں لطافت بڑھ جائیگی۔
* کام شروع کرنا انسان کا وصف ہے اور اس
کی تکمیل اللہ کی مہربانی ہے۔
* کسی کو مایوس نہ کرو۔ پر امید رہو گے۔
* کسی کی دل آزاری نہ کرو۔ فرشتے تمہارے
لئے دعا کریں گے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔