Topics

بی بی الکنزہ تبریزؒ

بی بی الکنزہ تبریزؒ نے ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی، غریب قبیلے سے تعلق تھا۔ آپ کے والد توحید پرست تھے اور اکثر ان کو بشارتیں ہوتی تھیں۔ باپ کی یہ صفت بی بی الکنزہ تبریزؒ میں بھی منتقل ہوئی۔

بی بی الکنزہ تبریزؒ راتوں کو عبادت میں مصروف رہتی تھیں۔ ان کی شکل پرنور برستا تھا۔ آہستہ آہستہ باپ اور بیٹی دونوں کی بزرگی کے چرچے عام ہو گئے، پریشان حال مخلوق ان کی جھونپڑی کے قریب جمع ہونے لگی۔ بی بی الکنزہ تبریزؒ ان لوگوں کے لئے دعا کرتی تھیں اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی مرادیں پوری کر دیتے تھے۔

چند بانجھ عورتیں ان کے پاس آئیں اور گریہ زاری کرنے لگیں کہ ان کے شوہر سوکن لے آئیں گے۔ بی بی الکنزہ تبریزؒ پر خواتین کی آہ و زاری کا بہت اثر ہوا رات کو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اچانک ان پر غنودگی طاری ہو گئی سارا ماحول نورانی ہو گیا، نہایت معطر بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی اور ایک جلیل القدر خاتون نظر آئیں، خاتون نے نہایت دل آویز مسکراہٹ سے کہا:

’’کنزہ! میں بنت رسولﷺ ہوں، تمہاری اللہ پرستی اور مخلوق خدا کی بھلائی ہمیں پسند آئی، تمہارے عمل میں اخلاص ہے۔ بے اولاد اور بانجھ عورتوں کے لئے اس جنگل میں ایک بوٹی ہے جس کے ہر پودے میں پانچ شاخیں، ہر شاخ پر چودہ پتے ہیں اس بوٹی کے پتوں، جڑوں اور پھولوں کو شہد میں ملا کر بانجھ عورتوں کو کھلا دے۔‘‘

کنزہ! نہ لوٹانا کسی سوالی کو اپنے گھر سے خالی ہاتھ واپس۔‘‘

اگلے دن صبح بی بی الکنزہؒ تبریز جنگل میں سے بوٹی تلاش کر کے لے آئیں اور ضرورت مند خواتین کو یہ بوٹی دے دی۔ اس طرح وقت گزرتا رہا، بی بی الکنزہ تبریزؒ خلوص کے ساتھ خدا کی عبادت میں مشغول رہیں ہمیشہ یہ دعا کرتیں کہ

’’اے خدا! اس جنگلی قبیلے میں میری مدد کیجئے، مجھے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کیجئے اور مجھے اپنا قرب عطا فرما دیجئے۔‘‘

اللہ نے آپ کی دعا قبول کی۔

خواب میں غیبی آواز نے حکم دیا:

’’ یہاں سے نکل جاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘‘

آنکھ کھلتے ہی جھونپڑی سے نکل پڑیں۔ جنگل بیابان میں سفر کیا۔ بالآخر ایک مسلمان قبیلے میں پہنچ گئیں اور اسلام قبول کر لیا۔

خواتین جوق درجوق ان کی زیارت کو آئیں قبیلے میں جشن منایا گیا، سب لوگوں نے آپ کو خلوص اور محبت سے اپنے قبیلے میں شامل کر لیا۔ آپ نے نصیحت کی :

’’اللہ ہر جگہ موجود ہے۔‘‘

کافی عرصہ تک بستی کے لوگوں نے آپ سے فیض پایا، بالآخر ایک دن کہیں اور چلی گئیں اور پھر ان کا کہیں کوئی پتہ نہ چلا۔

Topics


ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔