Topics

اُمّ الابرارؒ (صادقہ)

صادقہؒ کا تعلق فرانس سے تھا۔ نام فلورا تھا اور مذہب عیسائی تھا۔ نوجوانی میں انہوں نے نن بننے کا فیصلہ کیا۔ جب کلیسا کے آرچ بشپ جیکب سے اجازت چاہی تو انہوں نے منع کر دیا اور بتایا کہ وہ چار سال پہلے مسلمان ہو چکے ہیں۔ فلورا نے یہ راز اپنے باپ کو بتا دیا۔ پورے شہر میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کھلی عدالت میں مذہب سے منحرف ہونے پر مقدمہ چلا۔ آرچ بشپ کو پھانسی دیدی گئی۔

اس واقعہ کے بعد فلورا کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا۔ بالآخر ایک دل آرچ بشپ نے خواب میں آ کر ان کی رہنمائی کی۔ ان کی لکھی ہوئی ڈائری پڑھ کر وہ خاموشی سے مسلمان ہو گئیں۔ بعد میں اپنے مسلمان ملازم سے عربی سیکھی۔ ایک دفعہ ان کے باپ نے انہیں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ بہت مارا پیٹا، یہ لہولہان ہو گئیں۔ فلورا کے بھائی اور ماں نے تفصیلات پوچھیں۔ فلورا نے نہایت اچھے طریقے سے اسلام کی حقانیت کے بارے میں بتایا۔ بعد میں بھائی اور ماں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

باپ نے تینوں کو قید کر دیا۔ بھوکا پیاسا رکھا۔ قید خانے میں حضرت خضرؑ فلورا کے پاس آئے اور کہا:

’’تمہارا نام صادقہ ہے۔ تمہارا اخلاص بارگاہ رب العزت میں قبول کر لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو باطل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ تمہیں آج سے تمام روحانی قوتیں حاصل رہیں گی۔ تم اپنی اطاعت گزاری میں ثابت قدم رہنا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تمہاری ہر خواہش پوری ہو گی۔

اس کے بعد قید خانے میں کھانااور پانی غیب سے آتا رہا۔ایک دفعہ باپ نے زہر ملا حلوہ دیا۔ آپ کو علم سے پتہ چل گیا۔ دل میں دعا کی کہ اے صاحب قدرت! اس حلوے کو زہر سے پاک کر دے۔ ایسا ہی ہوا۔ بہن، بھائی اور ماں تینوں نے خوب حلوہ کھایا لیکن زہر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اپنے باپ سے صادقہ نے کہا:

’’آپ خود کو عیسائی کہتے ہیں۔ کیا حضرت عیسیٰ ؑ کی یہی تعلیمات تھیں کہ نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو زہر دیا جائے۔ وہ مذہب جس سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اس کے لئے آپ اتنے جذباتی ہو گئے کہ اولاد کو بھی ہلاک کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ میرے خیال میں آپ خود کو سچا عیسائی کہہ کر خود کو فریب دے رہے ہیں۔‘‘

صادقہ کے ان الفاظ نے باپ کے دل پر گہرا اثر کیا۔ ندامت کے مارے وہ بلک بلک کر رونے لگا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد صادقہ نے اپنی فیملی کے ساتھ شہر چھوڑ دیا اور دوسرے شہر میں منتقل ہو گئیں۔ پادریوں نے آپ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا دی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ صادقہ جادوگرنی ہیں۔ ان پادریوں میں رابرٹ نامی پادری سب سے آگے آگے تھا۔

صادقہ نے ایک دفعہ اس کے کہنے پر اس کے لئے دعا کی تو اس کا مفلوج ہاتھ ٹھیک ہو گیا تھا۔ اب اسی پادری نے ایک بڑے مجمعے کے ساتھ صادقہ کے گھر پر حملہ کرنا چاہا۔ صادقہ نے رابرٹ کو مخاطب کر کے کہا:

’’رابرٹ! تم نے یہ کیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو اس مشتعل ہجوم کو واپس لے جاؤ اور کلیسائی عدالت سے رجوع کرو تا کہ مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر کھلے عام مقدمہ چلے۔‘‘

کھلی عدالت میں مقدمہ چلا۔ صادقہ اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت سنا دی گئی اور ان لوگوں کو قید خانے میں قید کر دیا گیا۔ قید خانے میں صادقہ نے اندلس کے اسلامی لشکر کے امیر کو خواب میں حکم دیا کہ ہمیں آزاد کراؤ۔ آزاد ہونے کے بعد صادقہ امیر ابن زبان کے ساتھ قرطبہ گئیں جہاں سے حج بیت اللہ کے لئے مکہ مکرمہ پہنچیں۔ ارکان حج ادا کرنے کے بعد آپ مدینہ منورہ حضورﷺ کے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئیں اور اس قدر روئیں کہ بے ہوش ہو گئیں۔ ہوش آنے کے بعد کہا:

’’کاش میں کبھی ہوش میں نہ آتی۔‘‘

اس کے بعد بغداد ہوتی ہوئیں مراکش پہنچیں۔ جب یہ بغداد سے گزریں تو وہاں قیام کے دوران ان کے ملازم عبدالرحمٰن کی معرفت ایک ولی صفت نوجوان نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس وقت صادقہ نے کوئی واضح جواب نہیں دیا لیکن مراکش میں سات سال تک خدمت خلق اور تبلیغ کرنے کے بعد ایک دن ملازم سے کہا:

’’بابا جاؤ شہر پناہ کے دروازے پر جا کر ایک مہمان کا استقبال کرو۔‘‘

ملازم نے اس نوجوان کو خوش آمدید کہا۔

صادقہ نے نوجوان سے کہا:

’’شادی کا وقت آ پہنچا ہے۔ میں چار دن بعد عصر کی نماز کے بعد آپ سے شادی کروں گی۔‘‘

جمعہ کے دن ایک عالم نے نکاح پڑھایا۔ ایجاب و قبول کے بعد آپ نے وضو کیا اور سنت نبویﷺ کو ادا کرنے کی خوشی میں نفل شکر کی نیت باندھی۔ آخری سجدے میں واصل بحق ہو گئیں۔

ان کا مزار مراکش کے ایک نخلستان میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ جہاں لوگ صادقہ کو ’’ام الابرار‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں اور ذکر اذکار میں مشغول رہتے ہیں۔

حکمت و دانائی

* اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو باطل کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔

* تم اپنی اطاعت گزاری میں ثابت قدم رہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے تمہاری ہر خواہش پوری فرمائے گا۔

* رسول اللہﷺ کے روضۂ مبارک پر تشریف لے گئیں، اتنا روئیں کہ بے ہو ش ہو گئیں۔ ہوش میں آنے کے بعد فرمایا:’’کاش میں ہوش میں نہ آتی اور حضورﷺ کے دیدار سے آسودہ ہوتی رہتی۔‘‘

Topics


ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔