Topics

حضرت بی بی تحفہؒ

بی بی تحفہؒ حضرت سری سقطیؒ کے دور کی مشہور عارفہ ہیں۔

ایک رات حضرت سری سقطیؒ پر بے چینی اور اضطراب کی غیر معمولی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس طرح کی حالت پہلے کبھی آپ پر وارد نہیں ہوئی تھی۔ کوشش کے باوجود ذکر و فکر میں یکسوئی حاصل نہیں ہوئی۔ تہجد کا وقت بھی گزر گیا لیکن بے چینی ختم نہ ہوئی۔ اچانک حضرت سری سقطیؒ کو خیال آیا کہ شفا خانے جا کر مریضوں کی تیمار داری کرنی چاہئے۔ حضرت سری سقطیؒ جوں ہی شفا خانے میں داخل ہوئے ان کے بے چین دل کو قرار آ گیا۔

اس اچانک تبدیلی پر وہ حیران ہوئے۔ یکایک ان کی نظر ایک مریضہ پر پڑی۔ یہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ ہاتھ پیر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ لڑکی نے حضرت سری سقطیؒ کو دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بے ساختہ اس نے اشعار پڑھے۔
’’اللہ نے میرے دل کی یہ حالت کر دی ہے۔ اللہ نے مجھے خاص انعام عطا کر کے میری عزت افزائی کی۔ جب مجھے بلایا جاتا ہے تو میں دلی آرزو کے ساتھ اس کی طرف چل پڑتی ہوں۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ یہ حال و مقام دیکھ کر گم سم ہو گئے۔ ہوش و حواس بحال ہوئے تو لوگوں سے دریافت کیا کہ اس لڑکی کو کیا تکلیف ہے۔ اس کے ہاتھ پیر کیوں رسیوں سے باندھے ہوئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اس لڑکی کا دماغی توازن خراب ہو گیا ہے اور اس کا مالک اسے یہاں علاج کے لئے چھوڑ گیا ہے۔ لڑکی نے جب یہ بات سنی تو اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے اور اس نے عربی میں چند اشعار پڑھے۔

’’اے لوگو! میری اس حالت میں میرا کوئی دخل نہیں ہے۔ میں بظاہر دیوانی دکھائی دیتی ہوں لیکن میرا دل خبردار و ہوشیار ہے۔ میرا جرم عشق ہے اور میں اس محبوب کی الفت میں گرفتار ہوں جس کے حکم کی سرتابی کوئی نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس بات کو تم خرابی سمجھ رہے ہو وہی میری خوبی ہے اور میری خوبی تمہارے نزدیک جرم و خطا ہے۔ ذرا سوچو! جو شخص اللہ کی محبت میں گرفتار ہو اور اللہ سے راضی ہو وہ پاگل کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

کنیز نے جب اپنی کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنایا تو حضرت سری سقطیؒ پر رقت طاری ہو گئی۔ لڑکی نے جب انہیں روتے دیکھا توکہا:
’’اے سری سقطیؒ ! اس طرح رونے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آپ اللہ کو اس طرح پہچان لیں جو پہچاننے کا حق ہے۔
حضرت سری سقطیؒ نے اس سے پوچھا:

’’اے لڑکی! تم مجھے کیسے جانتی ہو اور تمہیں میرا نام کس طرح معلوم ہوا؟‘‘

لڑکی نے کہا:

’’جب میں نے اللہ کو پہچان لیا تو پھر میں کسی اور سے ناواقف کیسے رہ سکتی ہوں؟‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے پوچھا:

’’اے لڑکی! تو کسے دوست رکھتی ہے؟‘‘

جواب ملا:

’’میں اس ذات کو محبوب رکھتی ہوں جس نے مجھے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائی اور اپنے کرم سے نوازا۔ یہ وہ ذات ہے جو انسان کی رگِ جان سے زیادہ قریب ہے۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے شفا خانے کے منتظم سے اس کنیز لڑکی کو رخصت کرنے کی درخواست کی تو اس نے لڑکی کو شفاخانے سے فارغ کر دیا۔

حضرت سری سقطیؒ نے کہا:

’’اب تم آزاد ہو جہاں جی چاہے چلی جاؤ۔‘‘

لڑکی نے کہا:

’’حضرت آپ میرے مالک نہیں ہیں۔ جب تک میرا مالک آزاد نہیں کرے گا میں کہیں نہیں جاؤنگی۔‘‘

اسی وقت کنیز کا مالک بھی آ گیا۔ حضرت سری سقطیؒ نے اس سے فرمایا:

’’اے شخص! میں حیران ہوں کہ تو نے اس لڑکی کو کیوں قید کر دیا ہے یہ تو مجھ سے زیادہ قابل احترام اور دانش مند ہے۔‘‘
اس شخص نے کہا:

’’حضرت! میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ نہ کھاتی ہے، نہ پیتی ہے، نہ سوتی ہے اور نہ آرام کرتی ہے۔ زیادہ وقت کسی فکر میں گم رہتی ہے۔ میرے پاس ایک یہی کنیز ہے جسے میں نے بیس ہزار درہم میں خریدا ہے۔ اس کی خوبیوں کو دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ یہ لڑکی میرے لئے بے حد منافع بخش ثابت ہو گی کیونکہ اس کی اواز بہت سریلی ہے اور گاتی بہت اچھا ہے لیکن ایک دن نغمہ سرائی کے بعد آہ و زاری کرنے لگی اور آلات موسیقی توڑ دیئے۔

حضرت سری سقطیؒ نے کہا:

’’تم اس کی جو بھی قیمت طلب کرو میں تمہیں دونگا۔ تم اسے آزاد کر دو۔‘‘

اس شخص نے حیرانی سے کہا:

’’حضرت! آپ ایک درویش ہیں اتنی قیمت کہاں سے دیں گے؟‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا:

’’تم اس کی فکر نہ کرو تمہیں مطلوبہ رقم مل جائے گی۔ یہ کہہ کر آپ اپنے گھر آ گئے۔ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا۔ حضرت سری سقطیؒ پوری رات رو رو کر بارگاہ الٰہی میں فریاد کرتے رہے۔

’’یا الٰہی! تو میرے ظاہر اور باطن کو اچھی طرح جانتا ہے اور مجھے تیرے فضل و کرم پر پورا یقین ہے۔ مجھے اس معاملے میں شرمندگی سے بچالے۔‘‘

دروازے پر دستک ہوئی۔ آپ نے دروازہ کھولا تو ایک شخص ہاتھ میں شمع دان لئے کھڑا تھا اور اس کے ساتھ چار خادم تھے۔ اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا۔ میرا نام احمد بن مثنیٰ ہے۔ ایک غیبی آواز نے مجھ سے کہا کہ سونے کی پانچ تھیلیاں حضرت سری سقطیؒ کو پہنچا دے۔ حضرت سری سقطیؒ سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

نماز فجر کے فوراً بعد حضرت سری سقطیؒ احمد بن مثنیٰ کو ساتھ لے کر نفسیاتی اسپتال پہنچے۔ ڈاکٹر نے سلام کے بعد عرض کیا:

’’حضرت! میں نے خواب میں ایک آواز سنی۔ کیا خوب ہے وہ دل جو ہماری یاد میں محو ہے اور ہم سے لو لگائے ہوئے ہے۔ اسی وقر میرے دل میں یہ خیال القا ہوا کہ یہ اعلان تحفہ کے لئے ہو رہا ہے۔

ابھی بات ہو رہی تھی کہ تحفہ وہاں آ گئیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ کہہ رہی تھیں:

’’یا الٰہی! تو نے میرا راز سب پر ظاہر کر دیا ہے۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے تحفہ کے مالک سے کہا:

’’اے شخص! میں تیرے مطالبے کے مطابق رقم لے آیا ہوں تو چاہے تو میں اور دینے کو تیارہوں۔‘‘

یہ سن کر تحفہ کے مالک کی گریہ و زاری میں اضافہ ہو گیا، اس نے کہا:

’’مجھے یہ رقم نہیں چاہئے۔ آپ گواہ رہیئے کہ میں نے تحفہ کو اللہ کے لئے آزاد کر دیا۔ میں صرف رضائے الٰہی کا طلبگار ہوں۔‘‘
احمد بن مثنیٰ نے روتے ہوئے کہا:

’’افسوس میں خدمت سے محروم رہا جس کام کے لئے میر انتخاب کیا گیا تھا وہ کسی اور کے ذریعے پورا ہو گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا نے مجھے شرف قبولیت نہیں بخشا اور یہ امر میرے لئے سخت اضطراب کا باعث ہے۔

’’حضرت سری سقطیؒ ! آپ گواہ رہئے کہ میں نے اپنا تمام مال و دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور اب مجھے اس پر کوئی اختیار نہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے اس عمل کو قبول کر لے اور مجھے اس کی خوشنودی حاصل ہو جائے۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے بی بی تحفہؒ پر خصوصی کرم فرمایا ہے اس کے وسیلے سے دوسروں کو بھی ہدایت اور سرفرازی عطا ہو گی۔

حضرت سری سقطیؒ بی بی تحفہ سے مخاطب ہو ئے جن کی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا۔ ’’اے تحفہؒ ! اب رونے کا کیا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی نظر کرم فرما کر تمہیں غلامی سے آزاد کر دیا ہے۔‘‘

حضرت تحفہؒ نے اشعار میں کہا۔

’’جس کی کشش مجھے کھینچ رہی ہے اور جس کی طرف میں بھاگی جا رہی ہوں اسی کے لئے آنسو بہہ رہے ہیں۔ قسم ہے اس حق کی جس نے مجھے طلب کیا ہے میں ہمیشہ اس کے ساتھ ہوں تا کہ وہ مجھے مطلوب تک پہنچا دے۔‘‘

یہ کہہ کر بی بی تحفہؒ اسپتال سے باہر نکل گئیں اور پھر کسی نے انہیں نہیں دیکھا۔

حضرت سری سقطیؒ ، احمد بن مثنیٰ اور حضرت بی بی تحفہؒ کا مالک تینوں کعبتہ اللہ کی زیارت و طواف کی نیت سے روانہ ہوئے۔ راستے میں احمد بن مثنیٰ کا آخری وقت آ گیا اور وہ انتقال کر گئے۔ باقی دو افراد کعبتہ اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ انہیں درد اور شوق میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔

’’خدا کا دوست اس دنیا میں بیمار ہے اور اس کی تکلیف طول پکڑ چکی ہے اس تکلیف کا علاج محبت الٰہی ہے اور خدا نے اپنے فضل وکرم سے خود اسے جام محبت پلا دیا ہے۔ خدا کا دوست اس کی طلب میں دنیاوی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا ہے۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ پر ان کلمات نے بہت اثر کیا۔ آپ اس آواز کی طرف چلے۔ اسی اثناء میں کسی نے ان کا نام لے کر پکارا۔ ’’اے سری سقطیؒ یہاں آیئے۔‘‘

حضرت سری سقطیؒ نے پکارنے والے کو دیکھ لیا۔ پوچھا تم کون ہو؟

جواب ملا۔ ’’حضرت میں وہی تحفہ ہوں جسے آپ نے اسپتال میں دیکھا تھا۔‘‘

بی بی تحفہؒ اتنی ضعیف اور ناتواں ہو گئی تھیں کہ پہچاننا مشکل تھا۔ حضرت سقطیؒ نے پوچھا:

’’اے تحفہؒ ! خلوت اختیار کر کے تمہارا حال کیا ہے؟‘‘

بی بی تحفہؒ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی محبت اور قرب عطا فرما دیا اور غیر اللہ سے لاتعلق اور بے نیاز کر دیا۔‘‘

جب بی بی تحفہؒ نے احمد بن مثنیٰ کے انتقال کی خبر سنی تو فرمایا!

’’اللہ ان پر رحم فرمائے اللہ نے انہیں بڑی عزت و عظمت بخشی ہے وہ جنت میں میرے پڑوسی ہونگے۔‘‘

حضرت بی بی تحفہؒ نے اپنے سابقہ مالک کے لئے بھی دعائے خیر فرمائی۔ دعا کرتے ہوئے آپؒ پر غنودگی طاری ہو گئی۔ حالت غنودگی میں ہاتف غیبی نے آواز دی:

’’تحفہ! تیرے پروردگار نے تجھے طلب فرمایا ہے۔‘‘

لوگوں نے دیکھا کہ بی بی تحفہ کعبتہ اللہ کے قریب گر گئیں۔ اور مالک حقیقی سے جا ملیں۔

حکمت و دانائی

* سب سے بہترین دوست انسان کا اپنا من ہے۔

* اللہ کو پہچاننے کا واحد ذریعہ محبت ہے۔

* ردعمل طرز فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔

* مومن ہر حال میں ثابت قدم رہتا ہے۔

* دنیا کا کوئی آدمی برا نہیں ہوتا۔ خیالات اچھے یا برے ہوتے ہیں۔

* تعصب کرنے والا بندہ رسول اللہﷺ کی شفاعت سے محروم رہتا ہے۔

* جو چیز حقیقی نہیں ہے وہ حق سے قریب نہیں ہوتی۔

* قلبی مشاہدات حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔

* بندہ کا سانس خالص شراب کا ایک گھونٹ ہے۔

* ہر چیز وقت کے ہاتھوں میں کھلونا ہے۔

* کھلونا دنیا ہے۔ وقت چابی ہے۔

Topics


ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔