Topics
محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے
عاشقوں میں ایک عاشق زنخا ’’کوئل‘‘ بھی تھا۔ گاؤں میں اس کا کچا گھر تھا۔ آپؒ کی
یاد میں گم رہتا تھا اور کبھی کبھی پیروں میں گھنگرو باندھ کر ناچنے اور گانے لگتا
تھا، اس کی جادو بھری آواز فضا کو مسحور کر دیتی تھی۔ سریلی آواز کی وجہ سے لوگ
اسے کوئل پکارتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک پیر صاحب اپنے بہت سارے مریدوں
کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری کے لئے جا رہے تھے، پیر صاحب کی
سواری گاؤں سے گزری تو ایک کچے مکان سے گانے کی آواز آئی، مکان کے قریب پہنچے تو
دروازہ کھلا ہوا تھا اور صحن میں کوئل رقص طاؤس میں محو تھا، گانے میں اتنا سحر
تھا کہ پیر صاحب صحن میں جا کر گانا سننے لگے، کچھ دیر کے بعد خیال آیا کہ گانا
سننا ناجائز ہے، ان کی پیشانی شکن آلود ہو گئی اور واپس ہونے لگے تو کوئل ان کے
قریب آیا اور بہت ادب سے عرض کیا:
’’اے ہے میاں! مجھے گنہگار کی ایسی قسمت
کہاں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں۔‘‘
پیر صاحب نے غصے سے کہا:
’’خاموش! ہم محبوب الٰہی کی خدمت میں
حاضری دینے جا رہے ہیں، یہاں گانے کی آواز سن کر ہم دیکھنے کے لئے رک گئے کہ کون
گا رہا ہے۔ ‘‘
پیر صاحب نے سوچا کہ کچھ دیئے بغیر چلے
جانا وضع داری کے خلاف ہے چنانچہ انہوں نے ایک روپے کا سکہ نکال کر کوئل کی طرف
بڑھا دیا۔ کوئل نے روپیہ لے کر دوبارہ پیرصاحب کی طرف بڑھا دیا اور کہا:
’’میاں جی! یہ ایک روپیہ خواجہ محبوب
الٰہی کی نذر کر دینا، مزار شریف پر جا کر کہنا تمہاری کوئل نے نذرانہ بھیجا ہے،
مزار شریف سے ہاتھ باہر آئے تو نذر دینا ورنہ کہیں اور خرچ کر دینا۔‘‘
پیرصاحب کو روپیہ لینے میں ہچکچاہٹ ہوئی،
کوئل نے کہا:
’’میاں جی! پریشان نہ ہوں یہ روپیہ آپ کی
پاک کمائی ہے، لے لیں مجھ نگوڑی کے پاس کیا رکھا ہے۔‘‘
پیرصاحب نے روپیہ رکھ لیا۔ حضرت خواجہ
نظام الدین اولیاءؒ کے مزار پر حاضری کے بعد انہیں کوئل کی نذر کا خیال آیا۔ پہلے
شش و پنج میں رہے کہ نذر پیش کریں یا نہ کریں لیکن پھر روپیہ نکال کر کہا:
’’حضور یہ کوئل کی نذر ہے۔‘‘
اسی وقت مزار میں سے ہاتھ باہر نکلا۔ پیر
صاحب نے روپیہ ہتھیلی پر رکھ دیا، مٹھی بند ہوئی اور جس طرح قبر سے ہاتھ باہر آیا
تھا اسی طرح قبر کے اندر غائب ہو گیا۔
یہ منظر دیکھ کر پیر صاحب پر اضطراب طاری
ہو گیا اور بے تحاشہ رونے لگے۔ حضرت محبوب الٰہی کی نظروں میں کوئل کا مقام دیکھ
کر وہ سخت نادم و پشیماں ہوئے۔ اسی کیفیت میں تھے کہ ان پر غنودگی طاری ہو گئی،
انہوں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ ،
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، خواجہ غریب نوازؒ اور سلطان الہند حضرت معین
الدین چشتیؒ سفید چاندنی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور درمیان میں کوئل رقص کرتا ہوا نغمہ
سرا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے خوش ہو کر حضرت غریب نوازؒ سے فرمایا:
’’حضور! آپ نے ہماری کوئل کو دیکھا؟‘‘
حضرت خواجہ غریب نواز مسکرائے اور خوشنودی
کا اظہار کیا۔
پیرصاحب کی آنکھ کھل گئی، ظاہر بینی کا
خول ان پر سے اتر چکا تھا وہ فوراً اٹھے اور گرتے پڑتے کوئل کے گھر پہنچے۔ اپنی
دستار پھینک دی اور کوئل کے پیر پکڑ لئے، کوئل نے پیر کھینچتے ہوئے کہا:
’’اے میاں جی! کیا کرتے ہو مجھ گندگی سے
کیوں اپنے ہاتھ ناپاک کرتے ہو۔‘‘
کوئل کے بہت کہنے سننے کے باوجود بھی
پیرصاحب نے اس کے پیر نہ چھوڑے۔ کوئل کے پوچھنے پر انہوں نے سارا واقعہ بتایا تو
کوئل کی عجیب حالت ہو گئی۔ وہ دیوانہ وار اٹھا اور رقص کرتے ہوئے گانے لگا، وہ
جھوم جھوم کر گاتے گاتے ایک دم فرش پر گرا، پیر صاحب قریب پہنچے تو کوئل کی روح
قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔