Topics
آپ کی طبیعت سیلانی تھی، چلتی پھرتی رہتی
تھیں۔ جہاں بیٹھ جاتی تھیں وہاں کے لوگ خوشی سے بے حال ہو جاتے تھے، جنگل میں آگ
کی طرح خبر پھیل جاتی تھی کہ مائی حمیدہ فلاں جگہ پر بیٹھ گئی ہیں۔ لوگوں کے ٹھٹھہ
کے ٹھٹھہ لگ جاتے تھے جو لفظ منہ سے نکل جاتا لوگ اسے اپنی مراد پوری ہونے کا
پروانہ جانتے اور خوشی خوشی پیچھے ہٹ جاتے تھے۔
کسی بستی میں آ کر بیٹھ گئیں تو ایک شخص
آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا۔ مائی صاحبہ میرا کاروبار مند اہو گیا ہے آپ
دعا کردیں آپ کی دعا سے سوئے ہوئے نصیب جاگ جاتے ہیں۔
بھرپور نظر سے اسے دیکھا اور فرمایا:
’’کاروبار میں حسن اخلاق کامیابی کی ضمانت
ہے، دکاندار کی حیثیت سے سوداگر کے اوپر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،
خریداروں کو اچھی چیزیں فروخت کرے، جس مال پر خود اعتماد نہ ہو وہ فروخت نہ کرے۔
خریدار دکاندار پر اعتماد کرتا ہے اسے بے اعتماد نہ کرے۔ دکان صحیح وقت پر کھولی
جائے، صبر کے ساتھ دکان پر جم کر بیٹھے، صبح بہت جلد بیدار ہو کر فرائض انجام دینے
کے بعد رزق کی تلاش میں نکل جانا خیر و برکت کا ذریعہ ہے۔ ملازمین کاروبار کے فروغ
میں سوداگر کے ہاتھ پیر ہیں ہمیشہ ان کے ساتھ پیار و محبت اور نرمی کا سلوک کرنا
چاہئے۔
پھر آپ نے اس کے لئے دعا کی اور اللہ نے
کاروبار میں بہت برکت دی۔ عرصہ تک نظر نہیں آتی تھیں تو چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی
تھیں کہ ضرور کہیں عبادت و ریاضت میں مشغول ہونگی۔ بہت سے خدا رسیدہ لوگ ان سے
ملاقات کرنا سعادت سمجھتے تھے۔
فرماتی تھیں:
’’اس دنیا کی طرح اور بھی بے شمار دنیائیں
ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے دکھا دیتا ہے۔‘‘
کسی نے پوچھا:
’’جنات کو دیکھا ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا:
’’ہاں! میں نے جنات کو دیکھا ہے۔ کئی جن
خواتین میری دوست ہیں۔‘‘
* قرض اتنا دو کہ کوئی واپس نہ دے تو بھول
سکو۔
* اپنی بیویوں سے نرم خوئی کے ساتھ بات
کرو اللہ نے مردوں کو عورت کا سرپرست بنایا ہے۔
* بیٹے اور بیٹی کو پیار کرو بچوں کے دل
میں یہ خواہش بار بار ابھرتی ہے کہ ابا اماں ہمیں پیار کریں۔
* ہمیشہ بچوں کا حوصلہ بڑھاؤ اس عمل سے
بچوں کا دماغ بڑا ہوتا ہے۔
* بچوں کو بہترین لباس پہنانا، عمدہ قسم
کے کھانے کھلانا اور اعلیٰ تعلیم دلوانا والدین کی ذمہ داری ہے۔
* بیوی کو چاہئے کہ وہ مصیبت اور پریشانی
کے وقت شوہر کی دلجوئی کرے اور اس کا حوصہ بڑھائے۔
* شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی پر
اعتماد کرے۔ بے اعتمادی گھر کا ماحول خراب کر دیتی ہے۔
* بچوں کو اولیاء اللہ کے قصے سنانا
چاہئیں اس عمل سے ان کے اندر اللہ کے دوستوں کی محبت بڑھتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔