Topics
فاطمہ بنت عبدالرحمٰنؒ کی کنیت ام محمد
ہے۔ ہمیشہ صوف پہنتی تھیں۔ ساٹھ(۶۰) سال تک مصلے پر سوئیں۔ بیت المقدس کے لئے عازم
سفر ہوئیں تو راستے میں ایک بزرگ مل گئے۔ آپ سے پوچھا کہ کیا آپ بھی راستہ بھول
گئی ہیں؟
فاطمہ نے کہا:
’’اللہ کو پہچاننے والا کبھی راستہ نہیں
بھولتا۔‘‘
بزرگ نے کہا کہ میں واقعی راستہ بھول گیا
ہوں۔
حضرت فاطمہؒ نے کہا:
’’اللہ کو پہچاننے والا کیونکر مسافر ہو
سکتا ہے۔ میری لاٹھی پکڑ کر آگے آگے چلو۔‘‘
بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر آگے آگے چلنا شروع
کر دیا۔ ابھی بمشکل سات آٹھ قدم چلے ہونگے کہ فاطمہ بنت عبدالرحمٰنؒ نے کہا:
’’سامنے دیکھو۔ ‘‘
بزرگ نے سامنے دیکھا تو مسجد اقصیٰ کے
مینار نظر آ رہے تھے۔
بزرگ نے حیرت کے ساتھ سوال کیا:
’’ہم اتنی جلدی بیت المقدس کیسے پہنچ گئے؟
ہم جس جگہ سے چلے تھے وہاں سے بیت المقدس کئی ہفتوں کے فاصلے پر ہے۔‘‘
فاطمہؒ نے جواب دیا۔
’’زاہد چلتا ہے۔ عارف اڑتا ہے۔‘‘
* زاہد پیروں سے چلتا ہے اور عارف اڑتا
ہے۔
* اڑنے میں ہفتوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے
ہو جاتا ہے۔
* اللہ کا عارف راستہ نہیں بھولتا۔
* روح سے واقف بندہ کے لئے فاصلے سمٹ جاتے
ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔