Topics
جس زمانے میں حضرت بابا تاج الدین
ناگپوریؒ شکر درہ میں رونق افروز تھے۔ ان کی خدمت میں گلاب نامی ایک بنجارہ آیا
اور عرض کیا حضرت میں دونوں آنکھوں سے معذور ہو گیا، کوئی کام نہیں کر سکتا، سخت
مشکل میں ہوں۔
بابا تاج الدینؒ نے فرمایا:
’’تیرے گاؤں میں چراغ ہے اور تو روشنی کے
لئے یہاں آیا ہے۔‘‘
گلاب اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسے
اپنی آنکھوں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا لگتا تھا کہ کوئی اس کی آنکھوں پر
انگلیاں پھیر رہا ہے، اندھی آنکھ روشن ہو گئی، دیکھا کہ سکو بائیؒ سامنے کھڑی ہیں۔
سکو بائیؒ کے پیدائش کے وقت خزاں کا موسم
تھا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ درختوں میں نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ان کونپلوں کی
خوشبو سے آنگن مہکنے لگا اور نہایت خوبصورت اور خوش الحان پرندے آ کر درختوں پر
بیٹھنے لگے ، ان کی پیدائش کے کچھ عرسہ بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور موسم بہار پھر
موسم خزاں میں تبدیل ہو گیا۔
جب سکو بائیؒ چالیس سال کی ہوئیں تو بابا
تاج الدینؒ نے ان کو ہندوستان کے شہر وردھا میں قیام کا حکم دیا، تعمیل حکم میں
آپؒ مختصر سامان لے کر ریل میں بیٹھ کر وردھا پہنچ گئیں۔ دوران سفر انہوں نے دیکھا
کہ ہر طرف سبزہ ہے، خوبصورت درخت اور پھولوں سے لدی ہوئی بیلیں ہیں، رنگ برنگے
پھولوں میں سے رنگ رنگ روشنیاں پھوٹ رہی ہیں، ستاروں سے جگ مگ کرتے آسمان پر نور
کا جھماکا ہوا اس نورانی فضا میں سے آواز آئی:
’’کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟‘‘
سکو بائیؒ پر لرزہ طاری ہو گیا، روتے ہوئے
سجدہ میں گر گئیں اور کہا:
’’بے شک آپ ہی میرے رب ہیں۔‘‘
آواز آئی:
’’اے سعادت ازلی سے سرفراز روح! میں تجھ
سے راضی ہوں، جس طرح میں اپنی مخلوق پر مہربان ہوں تو بھی ان کے دکھوں کا علاج کر،
ان کے زخم پر محبت کا مرہم لگا۔‘‘
ایک صاحب انتہائی پریشانی کے عالم میں آپؒ
کے پاس آئے اور عرض کیا۔ میری بیوی امید سے ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ زچہ بچہ کی
زندگی خطرے میں ہے، سکو بائی یہ سنتے ہی جلال میں آ گئیں اور فرمایا۔
’’اللہ کی قسم اللہ تیری بیوی کو بھی زندہ
رکھے گا اور تیرا بچہ بھی زندہ رہے گا، جوان ہو کر لائق فائق ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور بخیر و
عافیت نارمل ڈلیوری ہوئی، جوان ہو کر بچہ لائق فائق ہوا۔
شہر وردھا سخت خشک سالی کی لپیٹ میں آگیا۔
کھلیان ویران ہو گئے، مویشی مرنے لگے، جو بچ گئے وہ ہڈیوں کا پنجر بن گئے، غلہ کی
کم یابی سے بھوک نے ڈیرے جما لئے، جب کوئی تدبیر کامیاب نہ ہوئی تو پریشان حال لوگ
سکو بائیؒ کے پاس حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی، سکو بائیؒ نے فرمایا:
’’ہاں۔ پانی کم ہے لیکن اللہ رحیم و کریم
ہے۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اپنے پیالے سے چلو میں
پانی لیا اور زمین پر چھڑک دیا اور کہا:
’’یہ بارش ہے۔‘‘
اور پھر کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر
لیں، زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ بھیگی ہواؤں کے جھونکے آنے لگے، آسمان پر بادل
چھا گئے، گھن گرج کے ساتھ ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔
* امیدیں اتنی رکھنی چاہئیں جو آسانی سے
پوری ہو جائیں۔
* پیدل چلنا بقائے صحت کا راز ہے۔
* اتنا غصہ نہ کرو کہ وہ تمہیں کھا جائے۔
* شرافت پگڑی میں نہیں سیرت میں ہے۔
* آرائشی لباس سے آرام دہ لباس بہتر ہے۔
* بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو
پانی پلانا انسانی صفت ہے۔
* جو نصیحت نہیں سنتا وہ ملامت سننے کا
عادی ہو جاتا ہے۔
* توبہ کرنا کمال نہیں، توبہ پر قائم رہنا
کمال ہے۔
* گناہوں سے پاک انسان بہادر ہوتے ہیں۔
* کم بولنا عقل مند ہونے کی علامت ہے۔
* فقیر کی بخشش سب پر عام ہوتی ہے۔
* دنیا میں سب سے قیمتی چیز عزت ہے۔
* لالچ ایک جال ہے جس میں آدمی پھنس جاتا
ہے۔
* پہاڑ سے گر کر آدمی اٹھ سکتا ہے لیکن
ذلت میں گرا ہوا انسان زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
* جو بات پوری نہیں کر سکتے اسے زبان پر
نہ لاؤ۔
* گزرگاہوں پر نہ بیٹھو یہ غیر اخلاقی بات
ہے۔
* بہترین کام وہ ہے جو اعتدال میں کیا
جائے۔
* جاہل اپنی خامیاں خود بیان کرتا ہے اور
دانش مند اسے آخری موقع تک چھپائے رکھتا ہے۔
* سلام کرنے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔