Topics
ایک بزرگ عبدالواحد بن زہدؒ نے دعا کی کہ
’’اے اللہ! بہشت میں جو شخص میرا رفیق ہو
گا اسے دکھا دے۔‘‘
حکم ہوا کہ
’’تیری رفیق بہشت میں میمونہ سوداء ہے۔ وہ
کوفہ میں فلاں قبیلے میں ہے۔‘‘
بزرگ تلاش کرتے ہوئے وہاں جا پہنچے۔ لوگوں
نے کہا کہ
’’میمونہ ایک دیوانی ہے جنگل میں بکریاں
چراتی ہے۔‘‘
بزرگ نے جنگل میں دیکھا بھیڑیئے اور
بکریاں ایک ساتھ پھر رہے ہیں۔ اور ایک خاتون نماز ادا کر رہی ہیں۔ جب سلام پھیرا
تو فرمایا
’’اے عبدالواحد! اب جاؤ۔ ملنے کا وعدہ بہشت میں ہے۔‘‘
بزرگ کو بہت تعجب ہوا کہ انہیں میرا نام
کیسے معلوم ہو گیا۔
کہنے لگیں:
’’تم کو معلوم نہیں جن روحوں کو عالم بالا
میں جان پہچان ہو چکی ہے ان میں آپس میں الفت ہوتی ہے۔‘‘
بزرگ نے کہا کہ
’’میں بھیڑیئے اور بکریاں ساتھ دیکھ رہا
ہوں۔ کیسی عجیب بات ہے۔‘‘
کہنے لگیں:
’’جاؤ اپنا کام کرو۔ میں نے اپنا معاملہ
حق تعالیٰ سے درست کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے میری بکریوں کا معاملہ بھیڑیوں کے ساتھ
درست کرا دیا۔‘‘
* جن روحوں کی عالم بالا میں جان پہچان ہو
چکی ہے وہ آپس میں الفت رکھتی ہیں۔
* جب بندے کا اللہ سے معاملہ درست ہو جاتا
ہے تو بھیڑیئے اور بکریاں ساتھ رہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔