Topics

حضرت سعیدہ بی بیؒ

سعیدہ بی بیؒ ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ قلندر بابا اولیاءؒ کے نانا حضرت بابا تاج الدینؒ اکثر ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

’’جس زمانے میں والد صاحب دلی ٹول ٹیکس میں محرر تھے، ہمارے مکان کی ایک دیوار بارش میں گر گئی، مکان دار بارش میں مکان کی مرمت کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔

نانا تاج الدینؒ نے والد کو خط لکھا کہ بیٹی سعیدہ کو ناگپور پہنچا دو۔ ان ایام میں وہ مہاراجہ رگھوراؤ کے پاس مقیم تھے۔ ہم لوگوں کے لئے شطرنج پورہ میں انتظام کیا گیا، روزانہ یا دوسرے دن نانا اپنی گھوڑا گاڑی میں تشریف لاتے، گھنٹوں ہمارے ساتھ گزارتے اکثر ارد گرد کی آبادی کے لوگوں کا آنا جانا رہتا۔ نانا ان کے معاملات میں غور کرنے میں اتنا دماغ صرف کر دیتے کہ حواس ماؤف ہو جاتے۔ ایک بار بے خیالی میں دروازے کی طرف جانے کے بجائے وہ دیوار کے پیچھے کھڑی گھوڑا گاڑی کی طرف بڑھتے چلے گئے اور ٹھوس دیوار سے گزر کر سڑک پر نکل گئے۔ غالباً! یہ کرامت ان سے غیر ارادی طور پر صادر ہوئی تھی، لوگوں کے معاملات کے متعلق سوچنے میں ان کا ذہن تجلی الٰہی میں تحلیل ہو گیا اور جسم ذہن کے تابع ہونے کی وجہ سے ثقل کی منزل سے آگے نکل گیا۔

ہمارے گھر میں ایک بڑا اژدھا تھا جو درخت کے نیچے صحن میں پڑا رہتا تھا۔ رات کو جب چاند شباب پر ہوتا چاندنی پتوں سے چھن چھن کے زمین پر بکھر جاتی تھی۔ پتوں میں سے چھن کر چاند کا روپہلا عکس عجیب نقش و نگار پیش کرتا تھا۔ لگتا تھا کہ زمین پر کہکشاں اتر آئی ہے۔ صحن کا فرش کچی زمین تھی اور حضرت شیر دل خان(حضور قلندر بابا اولیاءؒ ) کے والدصحن میں دریائی ریت ڈلوا دیتے تھے۔ اژدھا بھی وہاں پڑا رہتا جو موصل کی طرح موٹا تھا اور اس کا قد ساڑھے پانچ فٹ تھا۔ گھر میں جب مہمان آتے تو سعیدہ بی بی اژدھے سے کہتیں’’جاؤ کمرے میں جا کر سو جاؤ، باہر نہ آنا‘‘ اور اژدھا کمرے میں چلا جاتا۔

ایک روز سعیدہ بی بی نے دیکھا کہ درخت کے تنے پر ایک ناگ پھنکار رہا ہے۔ اس کے سر پر تاج تھا۔ زبان بار بار باہر نکل رہی تھی۔ انہیں خیال آیا کہ کالا ناگ کہیں بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔ بھرپور طریقے سے سانپ کو دیکھا اور اس کے اوپر نظریں جما دیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ وہ سانپ درخت سے چپک گیا اور اس کے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے۔

اللہ نے سعیدہ بی بیؒ کے رزق میں اتنی برکت دی تھی کہ گھر مہمانوں سے بھرا رہتا تھا۔ نانا تاج الدینؒ نے سعیدہ بی بی کو سبز مرہم نام کی کوئی چیز عطا فرمائی تھی وہ کیا چیز تھی کسی کو علم نہیں ہو سکا۔ غیبی فتوحات کو اس کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔

لوگوں کو لینا دینا اور لنگر عام تھا، گھر میں کھانے پینے کی اشیاء سے اسٹور بھرا رہتا تھا۔ نہایت سخی، فیاض اور مہمان نواز خاتون تھیں۔

حکمت و دانائی

* عورت کے لئے شوہر اس کا تاج ہے شوہر کے بعد عورت اجڑ جاتی ہے۔

* ماں کو چاہئے کہ وہ بچوں کو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنا سکھائے۔

* بچوں کی ہر ضد پوری نہیں کرنی چاہئے۔

* بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا ماں باپ دونوں پر فرض ہے۔

* قیامت کے دن اللہ یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے بچوں کو کیا کھلایا پلایا تھا اللہ تربیت کے بارے میں پوچھے گا۔

* بزرگ مرد اور بزرگ خواتین سے اپنے سروں پر ہاتھ رکھواؤ اور ان سے دعائیں لو۔

* شوہر میں کوئی کمزوری ہو تو بیوی کے اوپر لازم ہے کہ اسے چھپائے، عورتوں میں ظاہر نہ کرے، شوہر کی عیب جوئی اپنی ذات کی عیب جوئی ہے۔

* گھر سے باہر اولاد کی برائی کبھی نہیں کرنی چاہئے اس برے عمل سے اولاد نافرمان ہو جاتی ہے۔

* کوشش کرنی چاہئے کہ شادی کے بعد بہو بیٹا الگ گھر میں رہیں، ہر پرندہ اپنا گھونسلہ الگ بناتا ہے۔

* اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ رزق کی پرواہ مت کرو، مخلوق کا کام صرف تدبیر کے ساتھ محنت کرنا ہے۔

* لینے سے دینا اچھا ہے کھلا ہاتھ رزق میں فراوانی کا وسیلہ ہے

* زردار اور سرمایہ پرست لوگوں کی نسبت غریب اور نادار لوگوں کا زیادہ خیال کرو۔

Topics


ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین

خواجہ شمس الدین عظیمی

عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی  جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔