Topics
بی بی مائی فاطمہؒ کا تعلق وادی مہران کے
ایک شہر سیہون شریف سے تھا۔ یہ اپنے والد قاضی ساون فاروقیؒ کی روحانی تربیت اور
اللہ کے فضل و کرم سے ولایت کے مرتبہ پر فائز تھیں۔ ایک مرتبہ تہجد پڑھنے اٹھیں،
کمرے کی کھڑکی سے دیکھا کہ چور گھوڑے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آپ نے گھوڑے کی طرف نظر
کی تو وہ غائب ہو گیا۔ چوروں کی گھگی بندھ گئی۔ وہ سخت خوفزدہ ہو کر وہاں سے بھاگ
گئے۔ بی بی فاطمہؒ مسکرائیں۔ گھوڑے پر دوسری نظر ڈالی تو گھوڑا اپنی جگہ موجود
تھا۔
ایک دفعہ بی بی فاطمہؒ اور ان کے شوہر
قاضی سائیں ڈنونے اللہ سے دعا مانگی کہ ہمیں ایک بچہ مرحمت فرما جو تجھے محبوب
رکھے اور تیرا سچا بندہ بنے اور جسے تو پسند کرے، میاں بیوی نے یہ دعا اتنے خشوع و
خضوع سے مانگی کہ ہاتف غیبی سے آواز آئی:
’’اپنے نیک فرزند کا انتظار کرو۔‘‘
دو سال بعد میاں میر محمد پیدا ہوئے۔ بی
بی فاطمہؒ نے ان کی اعلیٰ تربیت کی۔ شوہر کی وفات کے بعد بچے کو روحانی تعلیم و
تربیت کے لئے سیہون سے چودہ کوس دور ایک آبادی میں علامہ موسیٰ باغبانی کے پاس
بھیجنا چاہا لیکن چودہ سال کے بچے کا روز اتنی دور آنا جانا مشکل تھا۔ بی بی
فاطمہؒ نے دعا مانگی کہ اس مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔ ایک رات خواب میں اپنے والد
قاضی ساونؒ اور شوہر کو دیکھا۔ قاضی صاحبؒ نے فرمایا:
’’بیٹی! پریشان نہ ہو۔ تمہارا فرزند علامہ
موسیٰ ہی سے علم و فضل حاصل کرے گا۔ کل موسیٰ باغبانی تمہارے پاس آئے گا۔ بچے کو
اس کے سپرد کر دینا۔‘‘
بی بی فاطمہؒ نے حیران ہو کر پوچھا:
’’بابا جان! اتنی لمبی مسافت بچہ روزانہ
کیسے طے کرے گا؟‘‘
انہوں نے کہا:
’’اس کا انتظام ہو گیا ہے تم کو دروازے پر
ایک گھوڑا ملے گا جو روزانہ لے جایا کرے گا اور واپس بھی لے آیا کرے گا۔ اس راز کو
کسی پر ظاہر نہ کرنا۔‘‘
علامہ موسیٰ باغبانی بی بی فاطمہؒ کے
اعلیٰ مرتبہ سے واقف تھے۔ یہ ایک کھلی کرامت تھی کہ روز بچہ فجر کے ایک گھنٹہ کے
بعد ان کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ جب تین سال میں تعلیم مکمل ہو گئی تو علامہ موسیٰ کو
پتلا چلا کہ جو مشکی گھوڑا بچے کو لاتا لے جاتا تھا وہ قاضی ساونؒ کے مرید
کا’’جن‘‘ گھوڑا تھا۔
میاں میر محمد کے اوپر جب یہ راز منکشف
ہوا تو انہوں نے ماں سے وضاحت چاہی۔ بی بی فاطمہؒ نے فرمایا:
’’میرے پیارے بیٹے! تم نے علم ظاہر کی
تعلیم حاصل کر لی ہے مگر یہ تکمیل علم کی تکمیل نہیں بلکہ تم اب علم کے دروازے میں
داخل ہوئے ہو اور آج سے تم علم باطن سیکھو گے علم باطن کا پہلا سبق عقیدہ توحید ہے
اور اس علم کو حاصل کرنے کی سب سے بڑی شرط اللہ کی محبت ہے، دل محبت الٰہی سے
معمور ہونا چاہئے اس میں کسی اور کی محبت داخل نہ ہو۔ جب طلب حق دل میں جاگزیں ہو
جاتی ہے تو کوئی خواہش باقی نہیں رہتی۔ یہ ایسی آگ ہے جو سب خواہشات کو جلا کر
خاکستر کر دیتی ہے، یاد رکھو نفس کی نفی حق کا اقرار ہے اور اقرار حق ہی تزکیہ نفس
ہے، جب دل کو تزکیہ نفس سے جلا ملتی ہے تو قلب مصفیٰ ہو جاتا ہے اور قلب پر حق کی
تجلیات کی بارش شروع ہو جاتی ہے، تمام حواس اللہ کے ترجمان ہو جاتے ہیں، بندے کے
ہاتھ اللہ کے ہاتھ اور بندے کی زبان اللہ کی زبان بن جاتی ہے، کشف، خرق عادت،
کرامت تسخیر اپنی ذات کی نفی کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ میں یہ علم تمہیں خود سکھاؤں
گی۔ انشاء اللہ تمہارا دل محبت الٰہی سے پرنور ہو جائے گا۔ مگر یہ علم میں تمہیں
منتقل نہیں کر سکتی کیونکہ تمہارا حصّہ میرے پاس نہیں ہے۔
بی بی فاطمہؒ نے میاں میر محمد کو اسم ذات
سکھایا یا چھ ماہ انہوں نے ذکر خفی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے بلند آواز میں اسم ذات
کا ذکر شروع کر دیا۔ دوسری ہی صبح بی بی فاطمہؒ نے بیٹے سے پوچھا:
’’اگر تم بلند آواز سے ذکر نہ کرتے تو کیا
برائی تھی؟‘‘
پھر مسکراتے ہوئے فرمایا:
’’اچھے معلم کو پتا ہوتا ہے کہ شاگرد کا
اگلا سبق کیا ہو گا۔‘‘
دوسری صبح ماں نے بیٹے کو بغیر کسی زاد
راہ کے گھر سے انجانی منزل کی طرف رخصت کر دیا اور کہا
’’اب تم کسی جنگل یا ویرانے کو اپنا مسکن
بناؤ اور ذکر جلی جس قدر جوش سے کر سکتے ہو کرو، اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہے۔‘‘
میاں میر محمد کو سندھ کی وادیوں میں ایک
ولی اللہ شیخ خضر نے بیعت کیا اور دو سال تربیت کی۔ خرقہ خلافت پہنانے کے بعد شیخ
خضر نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے سپرد کیا۔ تربیت کے بعد انہوں نے میاں میر
کو حکم دیا۔ اب مخلوق کی خدمت کرو، پہلے جا کر اپنی والدہ کی قدم بوسی کرو۔ میں
سلام کرتا ہوں ایسی قابل فخر ماں کو جس نے ایسا بے نظیر ہیرا تراشا ہے، اعلیٰ
تربیت کر کے کندن بنا دیا ہے۔
گھر سے گئے ہوئے میاں میر محمد کو آٹھ سال
ہو چکے تھے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ بی بی فاطمہؒ بستر پر دراز ہیں۔ سلام کیا
تو جواب اس طرح ملا کہ جیسے وہ پاس ہی ہوں۔ بی بی فاطمہ نے کہا:
’’بیٹا! شروع وقت سے میں نے اس دن کی پیشن
گوئی کی تھی جب اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت و بصارت کو تابع کر دے۔ فاصلے تمہارے
قدموں میں سمٹ آئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مخفی راز ہیں اب تم جلدی گھر آ جاؤ۔‘‘
گھر پہنچے تو بی بی فاطمہؒ کا آخری وقت
تھا۔ میاں میر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور فرمایا:
’’آٹھ سال میں ایک پل بھی تم میری آنکھوں
سے اوجھل نہیں ہوئے۔ پہلے تم چلے گئے تھے اب میں جا رہی ہوں۔ اب بھی ہم ایک دوسرے
کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔‘‘
یہ کہہ کر بی بی فاطمہؒ نے اپنے چار بیٹوں
اور دو بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ میاں میر محمد کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ جب سب نے
بیعت کر لی تو کہا کہ
’’کلمہ طیبہ کا ورد کرو۔‘‘
خود بھی کلمہ طیبہ پڑھتے اس دنیا سے رخصت
ہو گئیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
* دل میں صرف اللہ کی محبت ہونی چاہئے۔
* جب دل میں حق ہوتا ہے تو کسی اور کا
خیال نہیں آتا۔
* نفس کی نفی حق کا اقرار ہے۔
* جب اللہ تعالیٰ تمہاری سماعت اور بصارت
کو تمہاری مرضی کے تابع کر دے گا تو فاصلے تمہارے قدموں میں سمٹ آئیں گے۔
* انسان اللہ کی مشیت و حکمت کا خزانہ ہے۔
* تزکیۂ نفس سے قلب مصفی ہو جاتا ہے اور
مجلی دل پر تجلیات کی بارش برستی ہے۔
* آدمی اپنی ذات کی نفی کے بعد غیب کی
دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔