Topics
حضرت نظام الدینؒ کی والدہ ماجدہ کا نام
زلیخاؒ ہے۔ حضرت نظام الدینؒ فرماتے ہیں:
’’میری والدہ کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق
تھا جب انہیں کوئی ضرورت پیش آتی تھی تو خواب میں دیکھ لیتی تھیں۔ میری حالت یہ ہے
کہ مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اپنی اماں کے مزار پر جا کر عرض کر دیتا
ہوں، میرا کام تقریباً ایک ہفتے کے اندر ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ
کسی کام کو پورا ہونے میں ایک مہینہ لگ جائے۔ میری والدہ کو جب کوئی ضرورت ہوتی ہے
تو وہ پانچ سو بار درود شریف پڑھ کر اپنا دامن پھیلا کر دعا مانگتیں اور جو
مانگتیں تھیں مل جاتا تھا۔
ایک روزگھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا تو
اماں نے کہا:
’’آج ہم اللہ کے مہمان ہیں۔‘‘
اچانک ایک آدمی آیا اور ایک اشرفی قیمت کا
اناج ہمارے گھر ڈال گیا۔ یہ اناج اتنے دنوں تک چلا کہ طبیعت گھبرا گئی کہ اناج ختم
کیوں نہیں ہوتا؟
حضرت نظام الدینؒ جب رشد و ہدایت اور
خانقاہی امور میں زیادہ مصروف ہو گئے تو آپؒ نے والدہ سے ملاقات کے لئے ہر ماہ کی
چودہ تاریخ مقرر کی۔ ایک مرتبہ فرمایا:
’’نظام! آنے والے مہینے میں کس کے قدموں
پر سر رکھو گے؟‘‘
نظام الدینؒ سمجھ گئے، روتے ہوئے عرض کیا:
’’اماں جان! آپ مجھ غریب لاچار کو تنہا
چھوڑ کر جا رہی ہیں؟‘‘
بی بی زلیخاؒ نے کہا:
’’کل صبح بات ہو گی آج رات شیخ نجیب
الدینؒ متوکل کے گھر آرام کرو۔‘‘
صبح صادق کے وقت ملازم نے آ کر کہا کہ بی
بی صاحبہؒ بلا رہی ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں
نے فرمایا:
’’کل تم نے کچھ پوچھا تھا میں اب تمہیں
بتاتی ہوں۔‘‘
اور حضرت نظام الدینؒ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:
’’اے اللہ! اسے میں نے تیرے حوالے کیا۔‘‘
اور ہمیشہ کیلئے آنکھیں بند کر لیں۔
قطب الدین بن علاؤ الدین خلجیؒ نے جامع
مسجد تیار کرائی اور حکم دیا کہ لوگ نماز جمعہ جامع مسجد میں ادا کیا کریں لیکن
شیخ نظام الدینؒ نے جامع مسجد میں جانے سے انکار کر دیا اور فرمایا:
’’ہمارے قریب کی مسجد زیادہ مستحق ہے۔‘‘
دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ بادشاہ نے حکم جاری
کر دیا کہ ہر ماہ کی چاند رات کو تمام مشائخ، علماء اور رؤسا نئے چاند کی مبارک
باد پیش کرنے کے لئے بادشاہ کے حضور حاضر ہوں۔
حضرت نظام الدینؒ خود ان تقاریب میں نہیں
گئے بلکہ اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیا۔ حاسدوں نے اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا
اور اسے بادشاہ کی توہین قرار دیا۔ بادشاہ نے جلال کے عالم میں حکم دیا کہ آئندہ
ماہ کی پہلی تاریخ کو جو شخص حاضر نہیں ہو گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ یہ بات جب
شیخ نظام الدینؒ کو معلوم ہوئی تو کچھ کہے بغیر والدہ بی بی زلیخاؒ کی قبر پر گئے
اور عرض کیا:
’’بادشاہ مجھے تکلیف دینا چاہتا ہے اور
اگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا تو میں آپ کی زیارت کے لئے نہیں آ سکوں گا۔‘‘
اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو عجیب واقعہ پیش
آیا کہ بادشاہ کے مقرب خردخان نے بادشاہ کو قتل کر کے اس کی لاش محل سے باہر پھینک
دی۔
* علم لدنی اس بندے کو عطا ہوتا ہے جو
رسول پاکﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے رسول اللہﷺ کی طرز فکر حاصل کرے۔
* بہترین رفیق وہ ہے جس کا رفیق اللہ ہو۔
* فقیر ایک دریا ہے جس سے تین نہریں جاری
رہتی ہیں سخاوت، لوگوں پر شفقت اور سب سے بے نیازی اور حق تعالیٰ کے ساتھ نیاز
مندی۔
* خدا کی دوستی اس شخص کے دل میں داخل
نہیں ہوتی جو مخلوق پر مہربان نہ ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عورت اورمرد دونوں اللہ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین پر عورت کے بجائے مردوں کی حاکمیت ہے ۔ عورت کو صنف نازک کہا جاتاہے ۔صنف نازک کا یہ مطلب سمجھاجاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مردکرلیتاہے ۔ عورت کو ناقص العقل بھی کہا گیا ہے ۔ سوسال پہلے علم وفن میں عورت کا شمار کم تھا۔ روحانیت میں بھی عورت کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق ہے ۔ غیر جانبدارزاویے سے مرد اورعورت کا فرق ایک معمہ بنا ہواہے ۔
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی نے سیدنا حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے عطاکردہ علوم کی روشنی میں کوشش فرمائی ہے کہ عورت اپنے مقام کو پہچان لے اوراس کوشش کے نتیجے میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک سوا ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالات ، کرامات اورکیفیات کی تلاش میں کامیاب ہوئے ۔ یہ کہنا خودفریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ عورتوں کی صلاحیت مردوں سے کم ہے یا عورتیں روحانی علوم نہیں سیکھ سکتیں ۔ آپ نے اس کتاب میں پیشن گوئی فرمائی ہے کہ زمین اب اپنی بیلٹ تبدیل کررہی ہے ۔ دوہزارچھ کے بعد اس میں تیزی آجائے گی اوراکیسویں صدی میں عورت کو حکمرانی کے وسائل فراہم ہوجائیں گے ۔