Topics

گھر گھر دستک

میں نے ایک ہزار تنکے جمع کئے۔ میرا ایک دشمن تھا۔ دشمن پر کاری ضرب لگانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک ایک کر کے ہزار تنکے مارے جائیں تو دشمن ملیامیٹ ہو جائے گا۔ مگر ہوا یہ کہ سارے تنکے ٹوٹ گئے۔ میں ٹوٹے ہوئے ٹکڑے زمین پر جمع کرتا رہا……ہوا کا جھونکا آیا اور سارے تنکے تتر بتر ہو گئے کیونکہ میں دشمن کو اپنی دانست میں ملیا میٹ کر چکا تھا۔ اس نے یہ موقع غنیمت جانا اور مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ میں ابھی اس ناگہانی افتاد سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ میرا ہر ہر عضو بیکار ہو گیا۔ جیسے ہر عضو موت کی نیند سو گیا ہو۔

میں نے اپنی بکھری ہوئی توانائی سمیٹ کر اٹھنا چاہا تو اتنی دیر میں دشمن نے بچے کچے تنکوں کو اکٹھا کر کے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ رسی سے باندھ دیا اور میرے سر پر دے مارا۔ آنکھوں کے سامنے ترمرے آئے اور میں نہیں معلوم کون سے عالم میں چلا گیا۔

میرے ارد گرد گدھ جمع ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب سانس کی ڈوری ٹوٹے اور وہ جسم کو نوچ کر اپنی غذا بنائیں۔ آنکھیں تو میری بند تھیں‘ سماعت بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی پتہ نہیں میں کس طرح دیکھ رہا تھا……میں سن رہا تھا۔

بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ باہر کی آنکھ کی طرح اندر کی بھی آنکھ ہوتی ہے۔ باہر کے کانوں کی طرح اندر بھی کان ہوتے ہیں۔ نظر آسمان کی طرف اٹھی تو مجھے فضا میں چیلیں اڑتی ہوئی نظر آئیں۔ کوئے کائیں کائیں کرتے سنائی دیئے۔

لمحے بھی نہیں گزرے تھے کہ چیلیں اور کوئے بھی میرے جسم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ یہ بھی انتظار کے عالم میں تھے……

شاید انہیں یہ انتظار ہو کہ جان کا رشتہ جسم سے ختم ہو تو ہماری بھوک رفع ہو۔ سرخ رنگ کی بڑی بڑی چیونٹیوں کا قافلہ تیزی سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ کچھ چیونٹے میرے پیروں سے چمٹ گئے اور انہوں نے بڑی بے رحمی سے میرے پیروں کو زخمی کر دیا……خون رسنے لگا۔

میں نے دیکھا کہ ……میرے اندر سے ایک اور ’’میں‘‘ نکلا اور سرہانے کھڑا ہو گیا اس ’’میں‘‘ نے سوال کیا……کیا کہتے ہو!

یہ جسم گدھوں کوئوں چیلوں کتوں بلیوں اور بھیڑیوں کی خوراک بنا دی جائے یا ابھی اور تماشہ دیکھنا ہے……ابھی اور مصیبت کی چکی پیسنی ہے؟

میں نے بھیگی آنکھوں روشن دماغ اور گداز دل سے کہا……

میں نے جو تجربہ کر لیا ہے اس تجربہ سے میں ایک اور تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔ افتراق و اختلاف کی جس بھٹی نے مجھے سوخت کر دیا ہے میں اس بھٹی کو ٹھنڈا کر دینا چاہتا ہوں۔

میری ’’میں‘‘ نے مجھے جواب دیا……

کیا پھر ایک ہزار تنکے جمع کرو گے اور ایک ایک تنکے سے دشمن پر کاری ضرب لگائو گے؟

میں نے کہا نہیں۔

میں اپنے لوگوں کو جمع کر کے انہیں اپنی بے بسی اور اپنی بے ثباتی کی کہانی سنائوں گا۔ انہیں یہ باور کرائوں گا کہ انفرادیت موت ہے……اجتماعیت زندگی ہے۔ انفرادیت بٹوارہ ہے۔ اجتماعیت استحکام ہے‘ انفرادیت محکومی ہے اور اجتماعیت حاکمیت ہے۔

میں گھر گھر دستک دوں گا……

اے لوگو!

ہم ایک ہیں۔

ہم ایک امت ہیں

ہم ایک قوم ہیں

ہم ایک برادری ہیں

ہم ایک کنبہ ہیں اور ہم ایک خاندان ہیں۔

وحدت آبشار ہے امت دریا ہے۔ قوم بڑی بڑی نہریں ہیں‘ برادری ندی ہے‘ کنبہ واٹر کورس ہے اور خاندان وہ نالیاں یا وہ شریانیں ہیں جن سے پانی گزر کر ہماری زمین کولہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔

میں اعلان کرتا پھروں گا۔ کوئی سنے یا نہ سنے‘ میں پکارتا رہوں گا۔ انفرادیت ہلاکت ہے۔ انفرادیت عذاب اس عذاب سے ہمیں نجات دلانے کے لئے وحدت نے ایک پیغمبر عطا کیا ہے جس نے بتایا ہے……

جن قوموں کو انفرادیت اور ذاتی غرض کا عفریت ڈس لیتا ہے وہ زمین پر ادبار بن جاتی ہیں……ادبار کی علامت بن جاتی ہیں۔

ہمارے نبیﷺ نے لاکھوں سال کے تجربے کو سامنے رکھ کر ہمارے لئے پروگرام بنایا کہ ہم اجتماعیت سے آشنا ہو جائیں ہم اجتماعی حیثیت حاصل کر کے ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہیں۔ نبیﷺ نے ہمیں بتایا کہ مسلمان کی ساری زندگی اجتماعی زندگی ہے۔

۱) کوئی بھی بچہ زمین پر آتا ہے اس کی حیثیت ایک نہیں‘ تین ہوتی ہے۔ ایک ماں ایک باپ ایک وہ خود بچہ۔

۲) معاشرے میں مقام حاصل کرنے اور باعزت زندگی گزارنے کے لئے جب ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا معاہدہ ’’نکاح‘‘ کیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ بھی اجتماعی ہوتا ہے۔ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ولیمہ کی حیثیت اجتماعی نہیں ہے۔

۳) محلے محلے مساجد میں پانچ وقت اکٹھے ہونا۔

۴) رمضان المبارک کے روزے اس طرح رکھنا کہ ایک آواز پر ہزاروں لاکھوں لوگ اپنے اوپر جائز کھانا پینا بھی حرام کر لیتے ہیں اور دوسری آواز پر سب اجتماعی طور پر کھانے پینے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

۵) عید کی نماز میں لاکھوں فرزندان توحید ایک جگہ جمع ہو کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں:

ہم ایک اللہ کی مخلوق اور ایک نبی کی امت ہیں۔

۶) بقرہ عید میں

اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر البر واللہ الحمد

پڑھتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر یہ شہادت دیتے ہیں کہ ہماری حیثیت من حیث القوم انفرادی نہیں ہے۔ ہم ایک ہیں پوری امت مسلمہ ایک ہے۔

۷) حج کے ارکان پورے کر کے مسلمان قوم ہر سال یہ اعلان کرتی ہے کہ دین حنیف کے ماننے والے ایک ہیں۔ ان میں کوئی تعصب نہیں ان میں کوئی تفرقہ نہیں۔ ان میں کوئی کالا نہیں، کوئی گورا نہیں، کوئی عجمی نہیں اور کوئی عربی نہیں۔

اے لوگو سنو!

اگر مسلمانوں نے انفرادی حیثیت کو ختم نہیں کیا تو پوری قوم‘ پوری امت ایک مردہ جسم یا لاش کی طرح ہے۔ جس کے چاروں طرف گدھ کوئے چیلیں اس انتظار میں ہیں کہ اس کو اپنا لقمہ تر بنا کر نگل لیں۔ نوچ نوچ کر گوشت کھا جائیں۔ جس طرح میرے اندر کے ’’میں‘‘ نے آگاہی بخشی ہے اسی طرح مسلمان قوم کے اندر ایک اور قوم ہے۔ ایک اور تشخص ہے‘ ایک روح ہے جو پکار رہی ہے جو بتا رہی ہے……کہ اگر مسلمان قوم نے انفرادیت کے عذاب سے نجات حاصل کر کے اجتماعیت کو گلے نہیں لگایا تو یہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی اور زمین پر اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔

آیئے!

اپنے اندر نفرتوں کے جہنم بجھائیں۔

تفرقوں سے ہم آزاد ہو جائیں…اور

’’اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ تھام لیں‘‘

مسلمان قوم کے لئے یہی میرا پیغام ہے۔


قوس قزح

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔