Topics

الصلوۃ معراج المومنین

نماز علم و آگاہی کے سمندر سے مخفی خزانوں کو ظاہر کر کے مسائل و مشکلات کا حل‘ پیچیدہ اور لا علاج بیماریوں کا شافی علاج پیش کرتی ہے۔ نماز ہمارے اوپر غیب کی دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے۔

خوف و دہشت میں مبتلا‘ عدم تحفظ کے احساس میں سسکتی ہوئی اور مصائب و آلام میں گرفتار امت مسلمہ کے لئے نماز ایک لائحہ عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کر کے زندہ قوموں میں ممتاز مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

نماز اس مخصوص عبادت کا نام ہے جس میں بندے کا اپنے خالق کے ساتھ براہ راست ایک ربط اور تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ نماز ارکان اسلام میں وہ رکن ہے جسے کوئی باہوش و حواس مسلمان کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ نماز کے اخلاقی‘تمدنی‘معاشرتی‘جسمانی و روحانی بے شمار فائدے ہیں۔ صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تعظیم بیان کرنا مقصود ہے۔ نماز کو ٹھیک طریقہ پر ادا کرنا اولین رکن دین ہے۔ قبولیت نماز سے دین و دنیا کی ساری بلندیاں حاصل ہو جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق نماز بندے کو منکرات اور فواحشات سے روکتی ہے۔ نماز کے ارادے میں خالق کائنات کا فرمان یہ بھی ہے۔

’’اور وہ لوگ جو نمازی ہیں اور اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں ایسی نمازیں ان کے اپنے لئے ہلاکت اور بربادی بن جاتی ہیں۔‘‘

سورۃ الماعون)

سیدنا حضورﷺ کا ارشاد پاک ہے:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اس کا ذمہ لے لیا ہے کہ جو شخص ان پانچ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اس کو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا۔‘‘

آدمی جب نماز کے لئے قیام کرتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ نمازی اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل پردے ہٹ جاتے ہیں۔

نماز مومن کا نور ہے۔

سجدہ کی حالت میں نمازی کا سر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ہوتا ہے۔ نماز مومنوں کی معراج ہے۔

ہر آسمانی مذہب میں خدا کی یاد کا حکم اور اس یاد کے لئے قوانین موجود ہیں۔ اسلام میں اگر حمد و تسبیح ہے تو یہودیوں میں مزمور‘ عیسائیوں میں دعا‘ پارسیوں میں زمزمہ اور ہندوئوں میں بھجن ہیں اور دن رات میں اس فریضہ کے ادا کرنے کے لئے ہر ایک میں اوقات کا تعین بھی ہے۔ نماز اعمال میں ایک ایسا عمل ہے جس پر دنیا کے تمام مذاہب متفق ہیں۔ ہر پیغمبر نے اپنی امت کو صلوٰۃ قائم کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کو مکہ کی ویران سرزمین میں آباد کیا تو اس کی غرض یہ بتائی کہ:

’’اے ہمارے پروردگار تا کہ وہ صلوٰۃ قائم کریں۔‘‘

(سورۃ ابراہیم۔ ۳۷)

’’اے میرے پروردگار مجھ کو میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ قائم کرنے والا بنا۔‘‘ (سورۃ ابراہیم۔ ۴۰)

’’اور وہ اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔‘‘

(سورۃ مریم۔ ۵۵)

حضرت لوطؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ اور ان کی نسل کے پیغمبروں کے متعلق قرآن کہتا ہے:

’’ار ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔‘‘

(سورۃ انبیائ۔ ۷۳)

حضرت لقمانؑ نے اپنے لخت جگر کو یہ نصیحت فرمائی۔

’’اے میرے بیٹے صلوٰۃ قائم کر۔‘‘ (سورۃ لقمان۔ ۱۷)

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

’’اور میری یاد کے لئے صلوٰۃ قائم کر۔‘‘ (سورۃ طہٰ۔ ۱۴)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو اور ان کے ساتھی بنی اسرائیل کو حکم ہوتا ہے۔

’’اور صلوٰۃ قائم کرو۔‘‘ (سورۃ یونس۔۷)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں:

’’اور خدا نے صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔‘‘ (سورۃ مریم۔ ۳۱)

عرب میں بعض یہود اور عیسائی قائم الصلوٰۃ تھے۔ ارشاد ہے:

’’اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہو کر خدا کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ آل عمران۔ ۱۱۳)

’’اور جو لوگ محکم پکڑتے ہیں کتاب کو اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ کو ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔‘‘ (سورۃ اعراف۔ ۱۷۰)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک رات جب آپﷺ اعتکاف میں بیٹھے تھے تو آپﷺ نے فرمایا۔ ’’لوگو! نمازی جب نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے‘ اس کو جاننا چاہئے کہ وہ کیا عرض معروض کر رہا ہے۔‘‘

نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ آقائے نامدار خاتم النبیین تاجدار دو عالم حضور اکرمﷺ کا یہ بہت بڑا عجاز ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کے لئے حصول رحمت کا ایک ایسا طریقہ عطا فرمایا جس طریقہ میں انسانی زندگی کی ہر حرکت سمو دی گئی ہے۔ ہم جب نماز کے اندر حرکات و سکنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کی کوئی حرکت ایسی نہیں ہے جس کو حضور اکرمﷺ نے نماز میں شامل نہ کر دیا ہو۔ مثلاً ہاتھ اٹھانا، بلند کرنا، ہاتھ ہلانا، ہاتھ باندھنا، ہاتھوں سے جسم کو چھونا کھڑا ہونا جھکنا لیٹنا بولنا دیکھنا سننا سر گھما کر ادھر ادھر دیکھنا۔ غرض زندگی کی ہر حالت نماز کے اندر موجود ہے۔ مقصد واضح ہے کہ انسان خواہ کسی بھی کام میں مصروف ہو یا کوئی بھی حرکت کرے اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے اور یہ عمل عادت بن کر اس کی زندگی پر محیط ہو جائے حتیٰ کہ ہر آن‘ ہر لمحۃ اور ہر سانس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی وابستگی یقینی عمل بن جائے۔

ہم جب نیت باندھتے ہیں تو ہاتھ اوپر اٹھا کر کانوں کو چھوتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ نماز شروع کرنے سے پہلے یہ بات ہماری نیت میں ہوتی ہے کہ ہم یہ کام اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ نیت کا تعلق دماغ سے ہے یعنی پہلے ہم دماغی اور ذہنی طور پر خود کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔

غور و فکر کا مقام ہے کہ حضورﷺ نے زندگی میں‘ وہ تمام حرکات جو انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں سب کی سب نماز میں سمودی ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ انسان کچھ بھی کرے کسی بھی حال میں رہے اٹھے بیٹھے جھکے کچھ بولے اِدھر اُدھر دیکھے، ہاتھ پیر ہلائے، ہر حالت میں اس کا ذہنی تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم رہے۔ قرآن پاک میں جتنی جگہ نماز کا تذکرہ ہوا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ قائم کرو صلوٰۃ اور وہ لوگ جو قائم کرتے ہیں صلوٰۃ وغیرہ وغیرہ پر غور کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں نماز قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔


قوس قزح

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔