Topics
زمین پر تین مخلوق آباد ہیں۔ دو مکلف اور ایک غیر مکلف۔ مراقبہ میں دیکھا کہ تینوں مخلوق ایک کھلی جگہ جس کا نہ تو کوئی سرا ہے اور نہ ہی کوئی حد ہے‘ جمع ہیں۔ تینوں کے خدوخال ایک جیسے ہیں تینوں نے لباس زیب تین کیا ہوا ہے۔ ناک نقشہ ایک جیسا ہے لیکن نقوش میں نمایاں فرق ہے۔
ایک مخلوق کی آنکھ مخروطی ہے ناک چپٹی اور کھڑی ہے چہرہ کتابی یا گول ہے۔
دوسری مخلوق کی آنکھیں بادام کی طرح ہیں۔ پتلی میں گہرے رنگ کے ڈورے ہیں۔ ستواں ناک کی نوک غائب ہے چہرہ بیضوی اور سر کشکول کی طرح ہے۔
تیسری مخلوق کی آنکھ سانپ کی چھتری کی طرح گول ہے۔ ناک گلدستہ چہرہ نصف النہار سورج کی طرح۔ سر میں پیشانی سانپ کے سر کے مشابہ ہے۔
ایک مخلوق قد میں بارہ سے سولہ فٹ دراز یا اس سے بھی زیادہ……
دوسری مخلوق غفوان شباب جوانوں کی طرح‘ متوازی قد……
تیسر ی مخلوق پانچ سے چھ فٹ کوتاہ یا دراز‘ جسم روشنیوں کا مرقع……
ایک مخلوق کے جسم میں ڈبل برقی رو دوڑتی ہے……
دوسری مخلوق میں اکہری برقی رو دوڑتی ہے……
تیسر ی مخلوق میں ایسی روشنی ہے جسے روشنی نہیں کہا جا سکتا۔
ایک مخلوق کے حواس محدود……
دوسری مخلوق کے حواس محدودیت میں لا محدود……
تیسری مخلوق کے حواس لامحدود……
ایک مخلوق دماغ میں دس ارب خلیے چارج ہیں۔
دوسری مخلوق کے دماغ میں نوے ارب خلیے کام کرتے ہیں۔
تیسری مخلق کے دماغ میں دو کھرب خلیے متحرک ہیں۔
ایک مخلوق ایک گھنٹے میں تین میل کی مسافت طے کرتی ہے۔
دوسری مخلوق ایک گھنٹے میں ستائیس میل چلتی ہے۔
تیسری مخلوق کی پرواز ایک سو اسی ہزار میل ہے۔
پہلی مخلوق مادیت کے خول میں بند ہے۔
دوسری مخلوق روشنی کے خول میں بند ہے۔
تیسری مخلوق روشنی کی رفتار (ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ) میں قید ہے۔
ایک مخلوق کی بساط زمین ‘ دوسری مخلوق کی بساط خلا‘ تیسری مخلوق کی بساط زمین کے اوپر خلا کی بساط ہے۔
ایک مخلوق کو کھانے اور پینے کی اشتہا کو پورا کرنے کے لئے اربعہ عناصر کی ضرورت ہے۔
دوسری مخلوق کی اشتہا پوری ہونے میں فاسفورس کا عمل دخل ہے۔
تیسری مخلوق میں اشتہا کا تقاضہ بے رنگ روشنیوں سے پورا ہوتا ہے۔
خلا ایک تانا بانا ہے……اس تانے بانے میں مخلوق نقش ہے……کپڑے پر پھول……قالین پر شیر کی طرح۔
خلا کا دوسرا رخ محض تانا ہے اس پر بھی نقوش ہیں……
خلا کا تیسرا رخ ایسی لہروں سے مرکب ہے جس میں تانا بانا نظر نہیں آتا……
تینوں مخلوقات میں لمس کا احساس ہے……خوش ہونے اور ناخوش ہونے کے جذبات ہیں لیکن یہ احساس کہیں بھاری اور کہیں لطیف ہے……جہاں بھاری اور بہت بھاری ہے وہاں کشش ثقل ہے……جہاں ہلکا ہے وہاں کشش ثقل تو ہے لیکن خلا کا سفر کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی……جہاں لطافت ہے وہاں کشش ثقل(Gravity) ختم ہو جاتی ہے۔
تینوں مخلوقات میں مشترک قدریں ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتی ہیں……ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں اور……ایک دوسرے سے عدم تعاون بھی ہوتا ہے۔
غرض یہ کہ تینوں مخلوقات کے افراد ایک جگہ جمع تھے۔……اسپیس میں بند ایک بندے نے خود کو ان تینوں کے سامنے پیش کیا……ایک فرد ٹھوس اور دوسرا ٹرانسپیرنٹ نظر آیا……تیسرا فرد اس بندے کی طر ف متوجہ ہوا تو بغلوں کے نیچے جڑے ہوئے خوبصورت اور کئی رنگوں سے مذین پر کھل گئے ……ان پردوں سے رنگین روشنیاں سرچ لائٹ کی طرح نکلیں کہ فضا رنگین ہو گئی ۔ قوس قزح کے رنگ ان رنگوں کے سامنے ہیچ اور دم بخود ہیں۔
اسپیس میں بند شعور کا ایک فرد تینوں افراد سے اس طرح مخاطب ہوا……
یہ جو تخلیق کے اتنے سارے روپ ہیں اتنے سارے رنگ اور اتنے سارے نقوش ہیں کیوں ہیں؟ الگ الگ رفتار کے تعین میں کیا حکمت ہے؟ ان میں سے ایک نے پوچھا دلہن کو کیوں سجایا جاتا ہے؟ اس بندے نے کہا Attractionپیدا کرنے کے لئے ……نامکمل رخ کی تکمیل کے لئے‘ دنیا میں رنگینی اجاگر کرنے کے لئے‘ پوچھا۔ دلہن بوڑھی کیوں ہو جاتی ہے؟
اسپیس میں بند شعور مخلوق کے فرد نے کہا……ماضی سے رشتہ استوار رہنے کے لئے……
دلہن بوڑھی نہیں ہو گی تو ماضی کی طرح نئی دلہن نہیں بنے گی……ماضی کا رشتہ ہی اس ساری کائنات کی اصل ہے۔
تخلیق کے روپ بہروپ دراصل دو شیزائوں اور دلہنوں کے روپ ہیں……کسی جگہ زمین پر پھول دلہن ہے……کہیں زمین پر خوبصورت درخت دلہن کا روپ ہے……آسمانوں پر یہ دلہن ستاروں بھرا جھومر پیشانی پر رکھے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔
کائناتی سسٹم میں مخلوق جب تک دلہن کے روپ میں رہتی ہے خوش رہتی ہے……ہر فرد اپنے اندر پھول کھلتے دیکھتا ہے……فوارے ابلتے نظر آتے ہیں……آبشاریں اندر گرتی ہیں……آبشاروں کے مدہم اور سریلے گیت اسے لطیف حس سے مانوس کر دیتے ہیں……
تینوں مخلوقات میں ہر مخلوق کے اندرلطیف حس موجود ہے……فرق درجہ بندی کا ہے……
ایک مخلوق کے اوپر کثافت کا پردہ زیادہ ہے۔
دوسری مخلوق پر کثافت کا پردہ یا خول کم ہے۔
تیسری مخلوق پر کثافت کا پردہ نہیں ہے۔
دونوں مخلوقات تیسری مخلوق کی طرح کثافت کے پردے اور تاریکی کے خول سے خود کو آزاد کر دیں تو وہ اپنے اندر گرتی آبشاروں کو دیکھ لیتی ہے……اور یہ آبشار خود کو نور کے بہتے دریا کے سپرد کر دیتی ہے۔
نور کا بہتا دریا کیا ہے؟
وہ خول ہے جو ساری کائنات کی بساط ہے……
اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔
اس نور کی مثال ایسی ہے جیسی طاق میں چراغ……
چراغ شیشے کی قندیل میں ہے……
قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے……
زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے……
نہ شرقی ہے نہ غربی ہے……
قریب ہے کہ روشن ہو جائے اگرچہ آگ نے اسے نہ چھوا ہو……
نور علی نور ہے……
اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور کو دکھا دیتا ہے……
اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے……
اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔(القرآن)
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک معروف صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے روحانی وماورائی علوم اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی لاکھوں مداح آپ کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔
کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے 14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔