Topics

کہکشاں

یہ اس وقت کی بات ہے جب زمین پر آدم کا وجود نہیں تھا۔ زمین اپنے حدود اربعہ میں موجود تھی۔ زمین کی ساخت ایسی تھی کہ اس کی تقسیم در تقسیم یکساں تھی۔ وسعت بیکراں پر پھیلی ہوئی زمین طبقات پر مشتمل تھی۔ طبق در طبق زمین اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ زمین کے ہر حصے پر ایک ہی زمین کا گمان ہوتا تھا۔ ہر جگہ سطح زمین کے ساتھ ساتھ ندی……پہاڑ، آبشار اور برف پوش پہاڑیاں تھیں۔ زمین کی شمالی اور جنوبی ہیئت ایک جیسی تھی۔ ہر خطے کے شمال میں پہاڑ، بادل، جھیلیں، چشمے اور ٹھنڈ کا سماں تھا۔ اس کے برعکس جنوب میں جس کے کنارے مشرق و مغرب سے ملتے تھے کھلے میدان، کھیت کھلیان اور باغات زمین کی رونق بنے ہوئے تھے۔ اگر اس صورتحال کو ماضی کے پیمانے سے ناپا جائے اور محدود شعور میں رہتے ہوئے وقت کا تعین کیا جائے تو یہ وقت لاکھوں سال اور کروڑوں سال پر محیط کیا جاتا ہے۔ لاکھوں، کروڑوں سالوں سے زمین اپنی آغوش پھیلائے ہوئے انسانوں کے لئے وقف ہے۔ سطح زمین پر مرفوع آسمان کی روشن قندیلیں، کہکشانی جھرمٹیں بھی زمین کو زینت بخشنے میں اپنا کردار پورا کر رہی ہیں۔ زمین رنگ برنگ پھولوں سے اپنا سنگھار کر کے نوع انسانی کیلئے دلہن بنی ہوئی ہے اور یہ عمل لاکھوں کروڑوں سال سے جاری ہے ہے اور نہیں معلوم کس وقت تک جاری رہے گا۔

کہا جاتا ہے کہ انتظار موت سے زیادہ سخت ہے۔ انتظار میں وقت کی نبض ڈوب ڈوب کر دوبارہ ابھرتی ہے۔ انتظار ایک ایسی کیفیت ہے جس کیفیت میں کوئی بھی بندہ پہلے ناخوش ہوتا ہے پھر بیزار ہوتا ہے اور اس کے بعد مایوسی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جب زمین اس کیفیت میں داخل ہوئی تو زمین کو پیدا کرنے والی ہستی کو رحم آیا۔ مایوس اور بے حال زمین کو مایوسی کے عمیق غاروں سے نکالنے کے لئے زمین کے مالک نے زمین کے محبوب آدم کو زمین پر بھیج دیا۔ یہ بھیجنا اس طرح عمل میں آیا کہ زمین کی کوکھ کھلی اور کوکھ میں سے معصوم اور کومل بچہ وجود میں آ گیا۔

جیسے بارش کے چھینٹے پڑنے سے زمین پر پھیلی ہوئی چکنی مٹی پھٹ جاتی ہے اور زمین کی نظر نہ آنے والی دراڑوں میں سے بیر بہوٹی جنم لیتی ہے۔

جیسے بارش کی چھینٹیں زمین پر پڑنے سے ایک مخصوص گیس فضا میں اڑتی ہے اور اس مخصوص گیس سے بارش کے قطرے ہم جان ہوتے ہیں تو فضا سے مینڈک کے چھوٹے چھوٹے بچے زمین پر برستے ہیں۔

جیسے پودے کے پتوں پر بارش برستی ہے تو پتوں میں موجود رگیں ٹڈے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ٹڈا اس پتے کا ہم شکل ہو کر ہوا میں اڑتا پھرتا ہے۔

قانون یہ ہے کہ جب جان سے جان ملتی ہے تو تیسری جان خدوخال بن جاتی ہے۔

آدم کی جان جب زمین کی جان سے ملی تو تیسری جان آدم کا شعور تخلیق ہوا اور اس شعور نے آدم کو اسپیس(Space) میں رہنے پر مجبور کر دیا۔ آدم کی مجبوری اپنی جگہ لیکن زمین نے آدم کی خدمت گزاری میں کمی نہیں کی اور آدم کے لئے خورد و نوش کا انتظام کیا۔ آدم کے لئے روٹی اور اون کی شکل میں لباس فراہم کیا۔ آدم کے لئے اپنا دامن پھیلا کر دھوپ سمیٹی…آدم کے لئے سر پر سیاہ پلولے کر ٹھنڈی میٹھی مسرور و مخمور شاعرانہ تخلیل کے ساتھ چاند کی چاندنی کو اپنے اوپر پھیلا لیا۔ اپنے اوپر سایہ دار درختوں کو پہرے دار بنایا۔ نرم و نازک اور دبیز گھاس کو قالین بنا کر اپنے اوپر بچھا دیا۔ انسان کی ساری گندگی اور غلاظت کو زندگی میں بھی چھپایا اور مرنے کے بعد بھی انسان کو بے حرمت نہیں ہونے دیا۔

دیکھنا یہ ہے کہ انسان نے اپنی محسن زمین کے احسانات کا کیا بدلہ چکایا……؟

پانچ ہزار سال کی تاریخ سے زیادہ انسان کچھ نہیں جانتا اور پانچ ہزار سال کی تاریخ میں بھی ۸۰ سے ۹۰ فیصد قیاس آرائی شامل ہے۔ بہرحال انسان کی خود نوشت تاریخ پر اگر غور کیا جائے تو ظلم و بربریت اور جبر و تشدد کے علاوہ انسان نے زمین کو اور کچھ نہیں دیا۔ جس طرح ایک اچھا ڈاکٹر آپریشن کر کے وہ اعضاء نکال دیتا ہے جو پورے جسم کو ناکارہ کر دیتے ہیں زمین نے بھی انسانی قیاس کے مطابق سترہ اٹھارہ مرتبہ انسان کے مفلوج اور زہریلے جسم کو نابود کر کے اپنے اندر محفوظ کر لیا اور پھر ماں کی مامتا کے ساتھ زمین نے انسانوں کی پرورش شروع کر دی۔ یہ سلسلہ جاری ہے، جاری رہے گا۔ کب تک جاری رہے گا یہ بات زمین بھی نہیں جانتی۔

زمین ہم سب کی ماں ہے۔ یہ ماں ہماری ہر ضرورت کی کفالت کرتی ہے۔ یہ ماں ہماری تربیت کر کے ہمیں شعور بخشتی ہے۔

زمین نے آدم کو آگ کے استعمال کا شعور بخشا۔ پھر اس شعور میں اچھائی اور برائی کا تصور منتقل کیا۔ اچھائی اور برائی کے تصور کو قائم رکھنے کے لئے وسائل استعمال کئے۔ مثلاً اگر شعور میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ ستر پوشی ضروری ہے تو زمین نے ستر پوشی کے لئے کپڑا بنانے کی چیزیں مہیا کیں۔

شعور میں ارتقا ہوا کہ علم کی افادیت ہے اور علم کی بنیاد پر ہی آدم زاد حیوانات سے ممتاز ہو سکتا ہے تو زمین نے اپنے اند رمخفی صلاحیتوں کو اس طرح ظاہر کر دیا کہ آدم زاد علم سیکھ سکے۔

انسان اور زمین کے رشتے پر غور کیا جائے تو اس بات سے چھ ارب آدمیوں میں سے ایک آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ زمین نے ہر ہر قدم پر آدم زاد انسان کی مدد کی ہے۔ زمین آج بھی یہ چاہتی ہے کہ زمین پر بسنے والی اس کی اولادوں میں سے ایک ممتاز اولاد آدم خوش رہے۔ خوشی دینے کے لئے زمین انسان سے کوئی قیمت طلب نہیں کرتی۔ انسان بھی دوسروں سے توقع قائم کرنے کی بجائے زمین کی طرح دوسروں کی مفت خدمت کو اپنا شعار بنا لے تو انسانی زندگی مسرت و شادمانی، خوشی و سکون، راحت و آرام اور مخمور زندگی کا گہوارا بن جائے گی۔

حضور قلندر بابا اولیائؒ فرماتے ہیں کہ:

’’شمع جب اپنے وجود میں دوڑنے والی انرجی کو دوسروں کے لئے جلاتی ہے تو دوسروں کو روشنی کا انعکاس ملتا ہے……اندھیرا چھٹ جاتا ہے۔ ماحول روشن و منور ہو جاتا ہے۔ آدمی کا چہرہ ایک دوسرے کا آئینہ بن جاتا ہے۔‘‘

اس کے برعکس اگر انسان کے اندر شمع کا ایثار موجود نہیں ہوتا اور شمع خود کو پگھلا کر اپنی توقعات منقطع نہیں کرتی تو اندھیرا……گھپ اندھیرا بن جاتا ہے۔ تاریکی چھا جاتی ہے۔ راستہ نہیں ملتا۔ مسافر بھٹکتا رہتا ہے، بھٹکتا رہتا ہے……اور بالآخر مر جاتا ہے۔


قوس قزح

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔