Topics

روحانی استاد

اگر آدمی کوئی علم نہیں جانتا تو اس علم کو سیکھنے کے لئے ان تمام علوم سے جو وہ سیکھ چکا ہے صرف نظر کر کے اسے نرسری کا بچہ بننا پڑے گا۔

استاد جب کہتا ہے پڑھو الف۔ بچہ یہ نہیں کہتا کہ الف کیا ہے۔ استاد کی تقلید میں بچہ کہہ دیتا ہے ’’الف‘‘……

عقل و شعور استعمال کر کے کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ یہ وصف بچے کو قدم قدم آگے بڑھاتا ہے اور بچہ پڑھ لکھ کر Ph.Dکر لیتا ہے۔

دنیاوی علوم کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک عقل و شعور کی نفی کر کے طالب علم سکھائے جانے والے علم کو قبول نہ کرے۔ معاشرتی طرزیں بچے میں ماحول اور ماحول میں رہنے والے افراد سے منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ماں آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہتی ہے وہ چاند ہے۔ بچہ چاند کو اسی طرح چاند سمجھتا ہے جس طرح ماں کے شعور میں چاند ہے۔ باپ کہتا ہے یہ درخت ہے بچے کے اندر درخت سے متعلق باپ کا علم منتقل ہو جاتا ہے۔ بہن بھائی دادی نانی بچے کو پانی پلاتے ہیں۔ بچے کی آنتیں پانی سے اسی طرح سیراب ہوتی ہیں جس طرح گھر کے دوسرے افراد پانی پی کرسیراب ہوتے ہیں۔ بچہ اگر چاند کو چاند تسلیم کرنے سے انکار کر دے درخت کو درخت نہ مانے پانی سے پیاس بجھنے پر اعتراض کرے ماں کو ماں نہ کہے باپ کو باپ تسلیم نہ کرے تو معاشرے کی اقدار بچے میں منتقل نہیں ہونگی۔

بچہ جب تک بے شعوری کو Acceptنہیں کرتا اس کے اندر شعور پیدا نہیں ہوتا۔

روحانی استاد کہتا ہے……اندھیرا روشنی ہے۔

چھ ارب لوگ کہتے ہیں اندھیرا اندھیرا ہے تاریکی ہے۔ اگر شاگرد عامل معمول کے طریقہ پر حاصل ہونے والے شعور سے اعتراض کر دے کہ اندھیرا روشنی کیسے ہو سکتا ہے؟ اندھیرا تو اندھیرا ہے…تو روحانی علم نہیں سیکھ سکتا۔

جس طرح بچے نے اے بی سی ڈی پڑھنے میں اپنی عقل استعمال نہیں کی اسی طرح جب تک روحانی شاگرد اندھیرے کو روشنی تسلیم نہیں کرے گا اگلی کلاس میں داخل نہیں ہو سکتا۔

روحانی استاد کہتا ہے……مادی جسم فکشن ہے۔ اس کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فرد حجت پیش کرتا ہے اگر جسمانی نظام فکشن ہے تو روٹی نہ کھانے سے ہم کمزور کیوں ہو جاتے ہیں؟……اگر روٹی کھانا فکشن ہے تو ہمارے اندر کھانا کھانے سے طاقت کیوں آ جاتی ہے؟

روحانی استاد بتاتا ہے کہ ……ہمارا مادی جسم اس لئے فکشن ہے کہ ہم روٹی بھی کھا رہے ہیں پانی بھی پی رہے ہیں فضا سے آکسیجن بھی ہمیں مل رہی ہے لیکن جسم انحطاط پذیر ہے آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

روٹی کھا کر آدمی بوڑھا کیوں ہو رہا ہے؟

جوان آدمی سوکھی روٹی کھا کر بھی صحت مند ہے۔ بوڑھا آدمی طاقتور غذائیں کھا کر روز بروز کمزور ہوتا رہتا ہے۔ رگ پٹھوں سے مرکب جسم کے خوبصورت خدوخال سکڑ جاتے ہیں اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں چہرہ پر جھریاں پڑ جاتی ہیں۔

دنیاوی علوم کا استاد ہو یا روحانی استاد ہو، دونوں کا ادب و احترام ضروری ہے۔ روحانی استاد اور علم حصولی کے استاد میں فرق یہ ہے کہ روحانی استاد کے پیش نظر صرف اللہ ہوتا ہے۔ دنیاوی غرض لالچ طمع کچھ نہیں ہوتا۔ روحانی استاد کے ذہن میں شاگرد کی اصلاح و تربیت کا ایک مکمل پروگرام ہوتا ہے کہ شاگرد غیب کی دنیا سے واقف ہو جائے اسے عرفان ذات حاصل ہو جائے۔

روحانی استاد تعلیم دیتا ہے کہ اللہ سے دوستی کی شرط یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرے جو اللہ کے لئے پسندیدہ ہے۔

روحانی استاد بتاتا ہے کہ روحانی انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہے۔ روحانی انسان وہی کام کر کے خوش ہوتا ہے جو اللہ کی صفت ہے۔

جواری کی دوستی کا تقاضہ ہے کہ دوست کے ساتھ کلب میں جا کر جوا کھیلے۔ شطرنج کے کھلاڑی سے دوستی شطرنج میں مہارت حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔ مصور کی دوستی آدمی کو ماہر مصور نہ بھی بنائے اسے اس قابل ضرور بنا دیتی ہے کہ وہ کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر خدوخال اور نقش و نگار واضح کر دے۔ سینما دیکھنے کا شوقین پیسے خرچ کر کے دوست کو علم دکھانے لے جاتا ہے۔

دنیا داری میں بھی دوستی اس وقت تک بااعتبار نہیں ہے جب تک دوست وہی اوصاف اختیار نہ کرے جو اس کے دوست کے ہیں۔

بچے کا نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں بظاہر حیاتیاتی ضابطوں کے خلاف پرورش پانا پیدا ہو کر دنیا میں آنا غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ماں کے سینے سے دودھ کا چشمہ ابل پڑنا پیدائش سے موت تک حفاظت و سائل کا مہیا ہونا یہ سب بندوں کی خدمت ہے جو اللہ کے قائم کردہ نظام کے تحت جاری و ساری ہے۔

اللہ کے نظام میں ہر آدمی کے ساتھ بیس ہزار فرشتے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ یعنی ہر آدمی اللہ میاں کا کمپیوٹر ہے جس میں بیس ہزار چپس (Chips) ہیں۔ ایک چپ(chip) یا ایک کنکشن بھی کام نہ کرے تو پورے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔

انسان کے اندر جو مشینری فٹ ہے بیس ہزار فرشتے اس کے ایسے کنکشن ہیں جن سے انسانی مشین کے اندر بجلی دوڑتی ہے اور اس بجلی سے انسان کے اندر بارہ کھرب سیلز Cellsچارج ہوتے ہیں۔

دماغ میں دو کھرب سیلز ہیں اور ہر ایک سیل کسی نہ کسی حس(Sense) کسی نہ کسی عضو کسی نہ کسی Tissueکسی نہ کسی شریان اور رگ پٹھوں سے متعلق ہے۔ دو کھرب میں سے ایک سیل بھی متاثر ہو جاتا ہے تو انسانی جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مربوط نظام کو اللہ کی جانب سے مخلوق کی خدمت کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

زمین سورج چاند تارے ہوا کی پرواز بارشوں کا انتظام جمادات نباتات معدنیات سمندروں میں آباد دنیائیں کس چیزکی نشاندہی کرتی ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں جاتی ہے اور مختلف نالیوں سے گزرتی ہوئی پورے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دبائو زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ ان نالیوں کا قطر بتدریج چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور پھیپھڑوں میں موجود تین ملین تھیلیوں میں ہوا پہنچ جاتی ہے۔

کانوں سے ہم سنتے ہیں۔ آواز کی لہریں کان میں داخل ہوتی ہیں۔ کان کے پردے پر بالوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی گونج میں ہم معانی پہناتے ہیں۔

کیا یہ سب مخلوق کی خدمت نہیں ہے…؟

آدمی کے اندر خون کا حیرت انگیز نظام کام کر رہا ہے۔ جسم کے اندر وریدوں اور شریانوں میں دوڑنے والا خون چوبیس گھنٹے میں ۷۵ہزار میل سفر کرتا ہے۔ آدمی ایک گھنٹے میں تین میل چلتا ہے اگر وہ مسلسل بغیر وقفے کے ۲۶ہزار ۳۸۰گھنٹوں تک چلتا رہے تو تب ۷۵ہزار میل کا سفر پورا ہو گا۔ کم و بیش ایک ہزار دن رات کی مسلسل مسافت انسانی طاقت سے باہر ہے اور اللہ نے انسان کے ارادہ و اختیار کے بغیر جسمانی مشینری کو متحرک رکھنے کے لئے دل کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اپنے اندر پھیلنے اور سکڑنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر سارے جسم کے ایک ایک عضو کو خون فراہم کرتا رہے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭


ان خدمات کے لئے آدمی اللہ کو کتنے پیسے دیتا ہے۔ آدمی زبانی کلامی بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔

جو عالمین کی خدمت کرتا ہے۔

جو عالمین کو وسائل فراہم کرتا ہے۔

جو عالمین کو رزق دیتا ہے۔

جو عالمین میں آباد مخلوق کو زندہ رہنے کے لئے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے وسائل فراہم کرتا ہے۔

جس بندہ کا……اللہ سے……تعلق قائم ہو جاتا ہے اس کے اندر اللہ کا وصف منتقل ہو جاتا ہے……اور اللہ رب العالمین کا وصف خدمت خلق ہے۔ کوئی نبی، کوئی رسول، کوئی روحانی آدمی ایسا نہیں گزرا جس نے اللہ کی مخلوق کی خدمت نہ کی ہو……مخلوق کی خدمت اللہ کا ذاتی وصف ہے جو بندہ مخلوق کی خدمت کرتا ہے فی الحقیقت اس نے وہ کام شروع کر دیا ہے جو اللہ کر رہا ہے۔ جتنا زیادہ مخلوق کی خدمت میں انہماک بڑھتا ہے اس ہی مناسبت سے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ اللہ سے اس کی دوستی ہو جاتی ہے۔

روحانی استاد اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے۔

مخلوق کی خدمت اللہ کی پسندیدہ عادت ہے……

روحانی آدمی اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے……

جو بندہ مخلوق سے نفرت کرتا ہے اور تفرقہ ڈالتا ہے وہ اللہ کا دوست نہیں ہے……

اللہ کا دوست خود غرض نہیں ہوتا……

اللہ کا دوست خوش رہتا ہے اور سب کو خوش دیکھنا چاہتا ہے۔

ماں باپ بچے کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتے ہیں اسی طرح اللہ بھی اپنی مخلوق کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہوتا ہے ایسی باتوں سے جن کے پیچھے خلوص نیت اور مطمح نظر صرف اللہ ہو۔

اللہ اپنی مخلوق کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔

ہر بندہ پر لازم ہے کہ وہ شکر گزار بندہ بن کر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے……اور……اللہ کا دوست بن جائے۔


قوس قزح

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔