Topics

ٹیلی پیتھی کا چو تھا سبق

دائیں ہا تھ کے انگو ٹھے سے دایاں نتھنا بند کر لیں اور با ئیں نتھنے سے دس سیکنڈ تک سانس کھینچ کرسیدھے ہا تھ کی چھنگلیاں سے با یاں نتھنا بند کر لیں اور بیس سیکنڈ تک سانس رو کے رہیں ۔بیس سیکنڈ کے بعد دائیں نتھنے سے دس سیکنڈ تک سانس خا رج کر یں ۔اب دو با رہ با ئیں نتھنے سے ہی سانس کو رو کے رکھیں ۔ پھر با ئیں نتھنے سے سانس کو دس سیکنڈ تک نکا لیں ۔ یہ ایک چکر ہو گیا اس طر ح اس عمل کو بیس مر تبہ دوہرایا جا ئے ۔ یہ مشق بھی خالی معدہ سورج نکلنے سے پہلے اور را ت کو سونے سے قبل خالی پیٹ کر نی چا ہئے ۔ٹیلی پیتھی تمام طلبا ء اور طلبات کو ہدا یت دی جا تی ہے کہ وہ رات کو کھا نا بہت ہلکا اور مغرب کے وقت کھا لیں کھا نے اور سانس کی مشق کے دوران کم سے کم تین گھنٹے کا وقفہ ہو نا ضروری ہے ۔

سانس کی اس مشق کے بعد اس طر ح بیٹھ جا ئیں کہ اعصاب ڈھیلے اور پر سکون رہیں ۔ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کر یں کہ ایک گنبد ہے اور گنبد کے اندر ایک نیلے رنگ کی رو شنیاں بھری ہو ئی ہیں اور یہ رو شنیاں سورج کی کر نوں کی طر ح آپ کے اوپر پڑرہی ہیں اور یہ رو شنیاں آپ کے دما غ میں جذب ہوکر جسم میں دور کر تی ہو ئی پیروں سے نکل رہی ہیں ۔اس تصور میں گہرائی واقع ہو نے پر پہلے دماغ میں ہلکا پن محسوس ہو تا ہے پھر کشش ثقل ختم ہو جا تی ہے ۔ جب بند آنکھوں سے کیا جا ئے اور یہ دیکھا جا ئے کہ آپ خود اور یہ ساری دنیا گنبد کے اندر بند ہے اور گنبد کے اندر نیلے رنگ کی رو شنیاں بھری ہو ئی ہیں اس مشق کی تکمیل کے بعد آپ خود کو اتنا ہلکا محسو س کر تے ہیں جب وہ زمین پر چلتا ہے تو یہ محسوس کر تا ہے کہ جیسے وہ ہوا میں چل رہا ہے ۔

اس مشق کے دوران یہ احتیاط ضروری ہے کہ یہ عمل اس وقت نہ کیا جا ئے جب آپ سڑک پر چل رہے ہوں اس لئے کہ کسی بھی وقت آپ کشش ثقل سے آزاد ہو سکتے ہیں اور زمین آپ کے پیروں سے نکل سکتی ہے اگر سڑک پر چلتے وقت یہ کیفیت از خود طاری ہو جا ئے تو سڑک پر سے ہٹ کر فٹ پا تھ پر چلیں اور چلتے وقت قدم جما کرر کھیں تا کہ آپ کسی راہ چلتے آدمی سے ٹکرائیں نہیں ۔گھر میں عمل کیا جا سکتا ہے ۔کو ئی حر ج نہیں ہے ۔


 

۱۲۶عنا صر


سوال : آپ نے بتایا ہے کہاب تک جتنے اسباق لکھے گئے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ طالب علم کو ذہنی یکسوئی اور خیالات کی پا کیزگی حاصل ہو جا ئے کیا آپ براہ راست ٹیلی پیتھی کی مشقیں تجو یز کر کے کو ر س کی مدت مختصر نہیں کر سکتے ؟ ٹیلی پیتھی کر نے سے از خود ذہنی یکسوئی ہو جا تی ہے تو آپ کیوں خواہ مخواہ مضمون کو طول دے رہے ہیں ؟

جواب : انسان ان ہی حقیقتو ں کو سمجھنے اور پا لینے کی کوشش کرتا ہے جن کی بنیاد ہو تی ہے ان میں زیادہ حقیقتیں ایسی ہیں جو موجود ہو نے کے با وجود ہمارے دائرے احساس یا شعور میں نہیں آتیں ۔شعور کے دائرے کار میں رہ کر ہم لا کھ کوشش کر یں لیکن ہم ان حقیقتوں کو اپنے اعصابی نظام اور گوشت ہو ست کے دماغ سے نہیں پہچان سکتے ۔ جب ہم ان اٹل حقیقتوں کی چھان بین کر تے ہیں تواس ادراک کی بنیاد وہ علم نہیں ہو تا جس میں شعوری حواس اور اعصاب کا دخل ہو تا ہے ۔ اور ہماری عقل ان گتھیوں کو سلجھا نے سے قاصر نظر آتی ہے ۔عقل عملی تجر بہ کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے جبکہ غیب میں آباد دنیا کے رموز و نکات کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے۔

جدید سائنس کی رو سے آدمی ایک سوچھبیس عنا صر سے مر کب ہے ۔ آگ ، پا نی ، ہو ا، ہا ئیدوجن ، ریڈیم ، کا ربن ، نا ئٹروجن ۔۔۔وغیرہ عرض یہ کہ جتنے بھی عنا صر مل کر کسی ما دہ کی تخلیق و تشکیل کر تے ہیں وہ سب آدمی کے اجزائے تر کیبی میں بھی شامل ہیں ۔ جب ہم ما دی اعتبار سے آدمی حیوانات چر ند ے پر ندے درندے ذی روح اور غیر ذی   روح مخلوق کا تجر یہ کر تے ہیں تو سب ایک صفت میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ آدمی جہاں افضل ہو کر انسان بنتا ہے اور اس میں جو چیز تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے وہ اس کی قوت ارادی ہے ۔ انسان اپنی قوت ارادی سے نا صر ف یہ عرفان حاصل کر تا ہے بلکہ اس کے سامنے کا ئنات سرنگوں ہو جا تی ہے ۔

زمین پر سے خس و خاشاک دو ر کر نے کے بعد کو ئی پو دا لگا دیا جا ئے تو وہ جلد ہی نشوونما پا تا ہے اور جوان ہو کر اچھا پھل دیتا ہے اسی طر ح جب ذہن کو پو ری طر ح صاف کر کے کسی نئے علم کا پو دا اس میں لگا دیا جا تا ہے تو وہ بہت بر گ وبار لا تا ہے اور سر سبز شاداب ہو جا تا ہے جس طر ح جسم کے فا سد ما دہ خود ہی خا رج کر دیتے ہیں یا وہ قدرتی نظام کے تحت خارج ہو جا تا ہے اسی طر ح ہیجان ، جذبات اور خیالات کی کثافت کو اخراج ہو نا بھی ضروری ہے ۔ جب تک دماغ جذبات و ہیجان کی کثافت سے صاف نہیں ہو تاآدمی رو حانی ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس صفائی کو حاصل کر نے کے لئے بر اہ راست ٹیلی پیتھی شروع کر نے سے پہلے ہم نے ذہنی یکسوئی حاصل کر نے کے اسباق تجو یز کئے ہیں ۔

پیرا سائیکاجی (PARAPSYCHOLOGY)کی رو سے ما ورا ئی طا قت حاصل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ دماغ کی کا ر گر دگی اور دماغ کے کمپیو ٹر کو سمجھ لیا جا ئے ظا ہر ہے کہ جب تک ہم عملاً اس ما دی نظام سے الگ ہو کر دماغ کی طر ف متوجہ نہیں ہو نگے۔دماغ کی کار کر دگی اور دماغ میں موجود مخفی صلا حیتیں ہمارے سامنے نہیں آئیں گی ۔ ان مخفی اور محدود صلا حیتوں سے آشنا ہو نے کے لئے یہ امر لا زم ہے کہ ہم اس بات سے واقف ہو ں کہ مفروضہ حواس کی گر فت سے آزاد ہو نا کس طر ح ممکن ہے ۔

جہاں تک طو یل انتظار کا تعلق ہے کائنات کے اگر تخلیقی فا رمولوں پر اگر غور کیا جا ئے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر گزرنے والالمحہ آنے والے لمحات کا انتظار کا پیش خیمہ ہے ۔ انتظار بجا ئے خود زندگی ہے ۔ بچپن سے لڑکپن ، لڑکپن سے جوانی اور جوانی سےبڑھا پے کے انتظام میں گزر جا تی ہے اگر آج پیدا ہو نے والے بچے کی زندگی میں آنے والے ساٹھ سالوں پر محیط بڑھا پا چپکا ہوا ہے اور چھپا ہوا نہ ہو تو پیدا ہو نے والا بچہ پنگو ڑے سے با ہر نہیں آئے گا ۔نشوونما رک جا ئے گی ، کا ئنات ٹھہر جا ئے گی ، چا ند سورج اپنی رو شنی سے محروم ہو جا ئیں گے ۔

جب ہم زمین میں کو ئی بیج ڈالتے ہیں تو یہ دراصل اس انتظار کے عمل کی شروعات ہے کہ یہ بیج پھول بن کر کھلے گا ۔

٭٭٭٭٭
















انٹینا(ANTENNA)

سوال : یہ بات تو سب جا نتے ہیں کی زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے۔ سانس جا ری ہے تو زندگی بے قرار ہے اور جب سانس کا سلسلہ ختم ہو جا تا ہے تو زندگی بھی راہ عدم اختیار کر تی ہے ۔درخواست ہے کہ آپ ہم طلبا ء طلبات کو یہ بتا ئیں کہ ماورا ئی علوم حاصل کر نے میں سانس کی مشقیں کیوں ضروری ہیں اور سانس کی روحانی حیثیت کیا ہے ؟

جواب : تخلیقی فا رمولوں پر غور کیا جا ئے اور اللہ کے بیان کر دہ قوانین میں تفکر کیا جا ئے تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کا ئنات اور کا ئنات کے اندر تمام مظاہرات کی تخلیق دو رخوں پر کی گئی ہے ۔ اس حقیقت کی روشنی  میں سانس کے بھی دو رخ متعین ہیں ایک رخ یہ کہ آدمی سانس اندر لیتا ہے ۔ دوسرا رخ یہ کہ سانس با ہر نکالتا ہے تصوف کی اصطلا ح میں  گہرائی میں سانسس لینا صعودی حرکت ہے اور سانس کا با ہر آنا نزولی حرکت ہے ۔ صعود اس حرکت کا نام ہے جس حرکت میں تخلیق کا ربط براہ راست خالق کا ئنات سے قائم ہے اور نزول اس حرکت کا نام ہے جس میں بندہ ٹائم اسپیس(TIME SPACE) کا پابند ہے۔

جب کچھ نہ تھا اللہ تھا ۔جب اللہ نے چاہا بشمول کائنات ہمیں تخلیق کر دیا تخلیق کی بنیاد اللہ کا چاہنا ہے اللہ کا چا ہنا اللہ کا ذہن ہے مطلب یہ ہو ا کہ ہمارا اصل وجود اللہ کے ذہین میں ہے قانون یہ ہے کہ جب تک شئے کی وابستگی اصل سے بر قرار نہ رہے کو ئی شئے قائم نہیں رہ سکتی ۔ اس وابستگی کا قیام مظاہراتی خدوخال میں صعودی حر کت سے قائم ہے ۔اس کے بر عکس ہمارا ایک جسمانی تشخص بھی ہے اس جسمانی اور مادی تشخص کی بنا نزولی حرکت ہے ۔

پو ری کائنات اور اس کے اندر تمام مظاہرات ہر لمحہ ہر آن ایک CIRCLE میں سفر کر رہے ہیں اور کا ئنات میں ہر مظہر ایک دو سرے سے آشنا اور متعارف ہے ۔ تعارف کا یہ سلسلہ خیالات پر مبنی ہے سائنس نے آپس میں اس تبا دلہ خیال اور رشتہ کو توانائی کانام دیا ہے سائنس کی رو سے کا ئنات کی کسی شئے کو خواہ وہ مر ئی ہو یا غیر مرئی کلیتہً فنا نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مادہ مختلف ڈائیوںمیں نقل مکا نی کر کے توانائی بن جا تا ہے اور توانائی روپ بدل بدل کر سامنے آتی رہتی ہے ۔مکمل موت کسی پر وارد نہیں ہو تی۔ تصوف میں اسی  توانائی کو روح کا نام دیا گیا ہے ۔ روح کو جو علم ودیعت کر دیا گیا ہے وہی خیالات ،تصورات اور احساسا ت بنتا ہے ۔ یہ خیالات اورتصورا ت لہروںاور شعاعو ں کے دوش پر ہمہ وقت ۔ ہر لمحہ اور ہر آن مصروف عمل رہتے ہیں ۔اگر ہمارا ذہن ان لہروں کو پڑھنے اور ان کو حرکت دینے پر قدرت حاصل کر لے تو ہم کائنات کے تصویر خانوں میں خیالات کے ردوبدل سے وقوف حاصل کر کے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم سانس پر کنٹرول حاصل کر لیں جو صعودی حر کت ہے ۔ سانس کا گہرائی میں جانا لا شعور ہے اور سانس کا گہرائی سے مظاہراتی سطح پر آنا شعورہے ۔شعوری زندگی حرکت میں ہو تی ہے تو لا شعوری زندگی پر دے میں چلی جا تی ہے ۔ اور لا شعوری زندگی میں شعوری حرکات مغلوب ہو جا تی ہیں ماورا ئی علوم سے آشنا ہو نے کے لئے لا شعوری تحریکات سے با خبر ہو نا ضروری ہے ۔اور یہ اس وقت ممکن ہے جب گہرائی میں سانس لینے پر اختیار حاصل ہو جا ئے اور ہمارے اندر مر کزیت اور توجہ کی صلا حیتیں بر وئے کار آجا ئیں ۔یاد رکھئے ہمارے انر(INNER) میں نصب شل اینٹینا (ANTENNA)اسی وقت کچھ نشر کر نے یا قبول کر نے کے قابل ہو تا ہے جب ذہن میں توجہ اور مرکزیت کی صلا حیتیں وافر مقدار میں موجود ہوں ۔ان صلا حیتوں کا ذخیرہ اس وقت فعال اور متحرک ہو تا ہے جب ہم اپنی تمام تر توجہ یکسوئی اور صلاحیتوں کے ساتھ صعودی حرکت میں ڈوب جا ئیں ۔

ما ورا ئی علوم سیکھنے کے لئے مضبوط اعصاب اور طا قتور دماغ کی ضرورت ہے ۔ اعصاب میں لچک پیدا کر نے ، دماغ کو متحرک رکھنے اور قوت کارکر دگی بڑھا نے کے لئے سانس کی مشقیں بے حد مفید اور کار آمد ہیں ۔ جب کو ئی مبتدی سانس کی مشقوں پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو اس کے دماغ کے اندر با ریک تر ین ریشوں اور خلیوں (CALLS)کی حرکات اور عمل میں اضا فہ ہو تا ہے ۔ انر (INNER)میں سانس رو کنے سے دماغ کے خلیات (CALLS)چا رج ہو جا تے ہیں جو انسان کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار ہو نے ، ابھر نے اورپھلنے پھولنے کے بہترین مواقع فراہم کر تے ہیں ۔

٭٭٭٭٭





ٹیلی پیتھی سیکھئے

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔