Topics
داہنے ہا تھ کے انگو ٹھے سے سیدھے نتھنے کو بند کر لیں
اور با ئیں نتھنے سے دس سیکنڈتک سانس کھنچ کر بایاں نتھنا چھنگلیاسے بند کر لیں
اور تیس سیکنڈ تک سانس رو ک لیں ۔ تیس سیکنڈ کے بعد سیدھے نتھنے سے دس سیکنڈ تک
سانس خارج کریں۔
اب دوبارہ دائیں نتھنے ہی سے دس سیکنڈ
تک سانس اندر کھینچیں ۔با ئیں نتھنے پر سے چھنگلیاں ہٹا کر دو بارہ دائیں ہاتھ کے
انگو ٹھے سے دایاں نتھنا بند کر لیں۔ سانس کو تیس سیکنڈ تک رو کے رکھیں ۔پھر با
ئیں نتھنے سے دس سیکنڈ تک سانس باہر نکا لیں یہ ایک چکر ہو گیا ۔
اوقات مشق
:
صبح سورج نکلنے سے قبل اور رات کو
سونے سے پہلے۔ لیکن یہ عمل آدھی رات سے پہلے پہلے کر لیاجا ئے ۔
سانس لینے کی تعداد :
صبح کے وقت پانچ چکر ، رات کے وقت دس
چکر ۔
مراقبہ میں بیٹھ جا ئیں ۔ آنکھوں کے
اوپر رو ئیں دار سیاہ رنگ کپڑا اس طر ح با ندھ لیں کہ آنکھوں کے پپوٹوں پر ہلکا
سا دبا ؤ پڑتا رہے ۔رو مال کی بند ش اتنی زیادہ نہ ہو کہ آنکھیں دکھنے لگیں ۔
رومال باندھنے سے مقصد یہ ہے کہ پپوٹے پر اتنا لطیف دبا ؤ رہے کہ پپوٹے حرکت نہ کر
سکیں ۔ اب یہ تصور کر یں کہ الٹی طر ف کا دماغ
ANTI CLOCK WISE گھوم رہا ہے ۔ اس مشق کے دوران اکثر
یہ ہو تا ہے کہ جب کو ئی طالبعلم دماغ کو گھما تا ہے تو جسم بھی ہلنے لگتا ہے اس
بات کا خاص خیال رکھا جا ئے کہ سر نہ ہلے ۔ پندرہ منٹ صبح اور پندرہ منٹ رات دماغ
کو گر دش دینے کی یہ مشق جا ری رکھی جا ئے ۔
اس مشق کے ساتھ ساتھ کسی ایسے آدمی کا انتخاب کریں جو
پا کیزہ ذہن ہو اور آپ سے انسیت رکھتا ہو ۔ایک بڑی میز کے اوپر لکڑی کا ایک اونچا
تختہ اس طر ح فٹ کر لیں کہ آمنے سامنے دو بیٹھے ہو ئے آدمی نظر نہ آئیں، دیا ر
کی لکڑی کے پچاس عدد گٹکے (جیسا لوڈو کا پا نسہ ہو تا ہے )بنوالیں ۔ گٹکے کو نیلے
رنگ سے پینٹ کر وا لیں اور ہر گٹکے کے چھ پہلوؤں پر سفید رنگ سے ہند سے لکھوائیں ۔ پا نسہ کے ہر
پہلو پر چھ مرتبہ ایک کا ہندسہ لکھا جا ئے گا دو سرے پا نسہ کے ہرپہلو پر چھ مر تبہ دو کا ہندسہ لکھا جا ئے گا
۔ تیسرے پا نسہ کے ہر پہلو پر چھ مرتبہ تین
کا ہند سہ لکھا جا ئے گا ۔اس طرح پچاس پا نسے لکھوائے جا ئیں ۔
میز کے دونوں طر ف دو اسٹول ڈال دیں
اور دونوں آدمی بیٹھ جا ئیں ۔ پچیس پا نسے ایک صاحب کے پاس رہیں گے اور پچیس پا
نسے دو سرے صاحب کے پاس رہیں گے ۔ دونوں صاحبان ایک کا پی اور پنسل بھی اپنے پاس
رکھیں ۔
دونوں میں سے ایک صاحب یہ اپنے ذہن
میں یہ بات سو چیں کہ سامنے بیٹھا ہوا آد
می نمبر ۱ ایک کاپا نسہ پھینکے اور نمبر
ایک کا ہندسہ کا پی پر لکھ لیں ۔ جب پا نسہ پھینکا جا ئے تو اس کا نمبر بھی کا پی
پر اتار لیا جا ئے مطلب یہ ہےکہ وہ ہندسہ
جو آپ نے سو چا ہے کاپی پر لکھ لیا جا ئے اور وہ ہندسہ جو پھینکا گیا ہے اس کا
نمبر بھی نوٹ کر لیا جا ئے ۔
جب دونوں طر ف سے پچیس پچیس پا نسوں
کا تبا دلہ پو را ہو جا ئے تو دونوں صاحبان دیکھیں کہ ذہن نے کس حد تک رہنما ئی کی یعنی کتنے پا
نسے آپ کی سوچ کے مطا بق ڈالے گئے ۔ اس مشق کو اس وقت تک جا ری رکھا جا ئے جب تک
پچھترفی صد کا میابی ہو ۔ کامیابی سے
مراد یہ ہے کہ جو ہندسے آپ کے ذہن میں آئیں فریق ِثانی وہی ہندسے تختہ کے اس پار
پھینکے ۔
یہ مشق فرصت کے اوقات متعین کر کے چو
بیس گھنٹے میں پندرہ پندرہ منٹ دو وقت کی جائے۔
٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق ہر تخلیق دو رخ پر قائم
ہے ۔ایک رخ غالب رہتا ہے اور دو سرا مغلوب ۔
مثال
: آدمی دو رخ سے مر کب ہے ۔ ایک مذکر ، ایک مونث ۔ مذکر
رخ اگر غالب ہے تو مؤ نث رخ چھپا ہو ا ہے اور مونث رخ اگر غالب ہے تو مذکر رخ چھپا
ہو ا ہے۔اس بات کو ہم اس طر ح بیان کرسکتے ہیں کہ مرد دو رخوں سے مر
کب ہے ۔ ایک مذکر اور ایک مو نث ۔ ان دونوں میں سے کو ئی ایک غالب ہو جا تا ہے
تو اسی غالب رخ کی بنیاد پر جنس کا تعین کیا جا تا ہے جنسی کشش کے قانون میں بھی
یہی فا رمولا متحرک ہے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ عورت کے اندر مغلوب رخ مر د چو نکہ خود
کو نا مکمل سمجھتا ہے اس لئے وہ غالب رخ مر د سے متصل ہو کر اپنی کمی پوری
کر نا چا ہتا ہے ۔اسی طرح مر د کے اندر مغلوب رخ عورت ہے کیوں کہ یہ مغلوب رخ اپنی
تکمیل چا ہتا ہے اس لئے وہ غالب رخ عورت کے اندر جذب ہو جا نا چا ہتا ہے۔علیٰ ہذ
القیاس تخلیق کا یہ فا رمولا دوسرے عوامل میں بھی سر گرم عمل ہے ۔ایک آدمی بیمار
ہے ا ور ایک آدمی صحت مند ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیمار آدمی کے اندر بیماری
کارخ غالب ہے ۔وہ صحت مند رخ سے ہم رشتہ ہو کر صحت مند ہو نا چاہتا ہے ۔صحت مند
آدمی کے اندر غالب رخ صحت ہے اور بیماری اس کا دوسرا رخ ہے بیماری جو مغلوب رخ ہے
اس کے اندر بھی یہ تقاضا موجود ہے کہ اس کی تکمیل ہو ۔اور جب بیمار رخ صحت کے اوپر
غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو آدمی بیمار ہو جا تا ہے ۔
ایک آدمی خو شحال ہے اس کے بر عکس دو
سرا آدمی پر یشان اور مفلوک الحال ہے
تخلیقی قانون کے تحت حالات بھی دو رخ پر متعین ہیں ۔ایک رخ کا نام سکون ہے اور دو
سرے رخ کا نام اضمحلال اور پریشانی ہے ۔حالات کا وہ رخ جو اضمحلال اور پر یشانی ہے
اگر پر سکون حالات پر غالب آجا ئے تو حالات خراب ہو جا تے ہیں لیکن آدمی اپنی صحیح
طر ز اور رو حانی طا قت کے ساتھ خراب حالت کو مغلوب کر دے تو حالات اچھے ہو جا تے
ہیں اور آدمی کی زندگی میں سکون کا عمل دخل ہو جا تا ہے۔
فا رمولا کا ئنات میں جو کچھ موجود ہے
وہ دائرہ(CIRCLE) یا
مثلث(TRIANGLE) میں
قید ہے دنیا کی کو ئی چیز زمین یا آسمان پر ایسی موجود نہیں ہے جو سرکل یا ٹرائنگل سے
مستثنی قرار دی جا سکے ۔کسی مخلوق میں میں سر کل غالب ہو تا ہے اور کسی مخلوق کے
اوپرمثلث غالب ہو جا تا ہے ۔ ہماری دنیا میں جس کو عالم نا سوت کا نام دیا جا تا
ہے موجودات پرمثلث غالب ہے۔
پچھلے اسباق میں ہم یہ بات پو ری طر ح
واضح کر چکے ہیں کہ زمین پر موجود ہر شئے زندہ ہے متحرک ہے ، سانس لیتی ہے یہ
بالکل الگ بات ہے کہ ہم اسے شعوری طور پر زندہ نہ سمجھیں یا منجمد خیال کریں جیسے
پہاڑ ۔
قانون قدرت اور تخلیقی فا رمولوں کے مطا بق پہاڑ بھی با
شعو ر ہو تے ہیں ،پہاڑ بھی سانس لیتے ہیں پہاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں اور جوان
ہوتے ہیں چو نکہ تخلیقی فا رمولوں میں پہاڑ کی تخلیق اور نشو ونما کا فا
رمولا الگ ہے اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پہاڑ جمے ہو ئے کھڑے ہیں ایک انسان ایک
منٹ میں بیس سانس لیتا ہے پہاڑ کی پو زیشن اس سے مختلف ہے پہاڑ کے سانس کی رفتار
یہ ہے کہ پہاڑ کا ایک سانس رو ٹین کی زندگی میں پندرہ منٹ کا ہو تا ہے
۔یعنی ایک آدمی ایک منٹ میں سانس لیتا ہے
اور پہاڑ پندرہ منٹ میں ایک سانس لیتا ہے ۔ہر نوع میں سانس کی معین مقداریں الگ الگ ہیں دوسرا قانون یہ ہے کہ کا ئنات میں موجود ہر شئے
ایک شکل و صورت رکھتی ہے انسان کبھی خوش ہو تا ہے کبھی رنجیدہ ،، کبھی بیمار ہو تا
ہے کبھی صحت مند ۔ باطنی نگا ہ سے مشاہدہ کیا جا ئے تو خوشی اور رنج دونوں مشکل
اور مجسم ہیں ۔اسی طر ح ہر بیماری کی بھی الگ الگ شکل ہوتی ہے مثلاً بخار کی بھی
ایک شکل و صورت ہو تی ہے ، موتی جھرہ بھی اپنی ایک شکل رکھتا ہے ۔ اور کینسر (CANCER) کے بھی خدو خال ہو تے ہیں
اس کا قانون کتاب "رنگ و روشنی سے علاج " میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے
۔
جس طر ح ایک آدمی دو سرے آدمی سے
ذہنی رابطہ قائم کر کے اپنا پیغام پہنچا
سکتا ہے اسی طر ح بیماریوں سے بھی ذہنی رابطہ قائم کر کے انہیں یہ پیغام دے دینا
ہے کہ وہ مر یض کو آزاد کر دیں یہ سب بیماریاں اس پیغام کو قبول کر تی ہیں اور مر
یض کی جان بخشی ہو جا تی ہے ۔
مثلاً ایک آدمی کے سر میں درد ہے آپ
اپنی پوری توجہ کے ساتھ سر میں درد کی بیماری کی صورت کو دیکھیں ۔ دو صورتیں ہو تی
ہیں یاتو سر درد کی صورت حال سامنے
آجا تی ہے یااس کا ایک ہیولا سامنے آجا تا ہے ۔ آپ سر درد کو سجیشن دیں کہ وہ
بھاگ جا ئے سر درد غائب ہو جائے گا علیٰ ہذ القیاس آپ اس قانون کے مطابق ہر
بیماری کا علاج کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ بیماری با اختیار نہ ہو ۔
جی ہاں ! بیماری بھی با اختیار ہو تی
ہے ان میں سے ایک بڑے اختیارات کی حامل بیماری کینسر(CANCER)
ہے ۔
کینسر خون کو مضرت پہنچاتا ہے وہ اس طر ح کہ خون میں بر
قی رو جن جن حصوں سے بچ کر نکل جا تی ہے ان حصوں میں جا ن نہیں رہتی اور ساتھ ہی
ساتھ ان ہی حصوں میں بہت با ریک گول کیڑے
بن جا تے ہیں یہ کیڑا دراصل سوراخ ہو تا ہے ۔اس سوراخ کی خوراک بر قی رو ہو تی ہے۔
وہ بر قی رو جو زندگی کے مصرف میں آنی چا ہئے تھی وہ ان سو راخوں کی خوراک بن
جاتی ہے نتیجہ میں خوراک کا ایک چھوٹے سے چھو ٹا ذرہ بجائے فا ئدے کے خون کو نقصان
پہنچاتا ہے۔
جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے کینسر
ایسا مر ض ہے جو با اختیار ہے ، سنتا ہے حواس رکھتا ہے ۔ اگر ٹیلی پیتھی کے طر یقے
کے مطابق کینسر سے ذہنی رابطہ قائم کیا جا ئے اور تنہا ئی میں بشرطیکہ مریض سوتا
ہو ۔ نہا یت دوستانہ اور خوشامدانہ انداز میں اس طرح سجیشن دی جا ئے
کہ بھا ئی تم بہت اچھے ہو ، بہت مہر بان ہو ،
یہ آدمی بہت پر یشان ہے اس کو معاف کر دو تو کینسر دو ستا نہ جذبات کی قدر
کر تے ہو ئے مر یض کو چھوڑ دیتا ہے ۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔