Topics
یہ بات آپ جان چکے ہیں کہ ماورائی علوم سیکھنے کے لئے بطور خاص منتشر خیالات سے خود کو آزاد کر نا ضروری ہے ۔ جب خیالات ایک نقطہ پر مر کوز ہو جا تے ہیں تو دماغ سو جاتا ہے۔ جن حضرات نے پہلے سبق کی تکمیل نہیں کی ہے انہیں چاہئے کہ پہلے سبق کی تکمیل کے بعد دوسرا سبق شروع کر یں ۔اسی طر ح جب تک دو سرے سبق کی تکمیل نہ ہو تیسرا سبق شروع نہ کیا جائے ۔ ایک بات اور سمجھ لیجئے اللہ تعالیٰ نے پا نچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی ہیں ۔ جس طر ح پانچو ں انگلیاں برابر نہیں ہے اسی طر ح ہر آدمی کی صلا حیت بھی الگ الگ ہے کسی کے اندر صلاحیت بہت زیادہ ہے اور کسی بندے کے اندر صلا حیت کم ہو تی ہے ۔ کم صلاحیت لوگوں کو زیادہ صلاحیت لوگوں کی کامیابی سے خوش ہونا چاہیئے۔
احساس کمتری میں مبتلا ہو نا دراصل اپنی صلا حتوں کو زنگ لگا نے کے مترادف ہے جن لوگوں کو کامیابی کم ہوئی یا وہ ابھی بھی کا میاب نہیں ہو ئے ہیں ۔انہیں بددل ہو نے کے بجا ئے زیادہ ذو ق وشوق سے کوشش کر نی چا ہئے کامیابی یقینی ہے ۔ ع ہمت مرداں مددخدا
ذہنی یکسوئی حاصل کر نے کے لئے تیسرا سبق یہ ہے :۔
داہنے ہا تھ کے انگو ٹھے سے سیدھے ہا تھ کے نتھنے کو بند کر لیں اور با ئیں نتھنے سے سات سیکنڈ تک سانس کھینچ کر سیدھا نتھنا چھنگلیا سے بند کر لیں اور پندرہ سیکنڈ کے بعد اُلٹے نتھنے سے سانس باہر نکالیں ۔ یہ ایک چکر ہو گیا یعنی سات سیکنڈ سانس لینا، پندرہ سیکنڈ سانس روکنا اور سات سیکنڈ با ہر نکالنا اسی طرح پندرہ مرتبہ اس عمل کو دہرایا جائے۔ یہ مشق بھی خالی معدہ اور صبح سورج نکلنے سے پہلے اور رات کو سونے سے پہلے خالی پیٹ کر نی چا ہئے ۔ مشق کر نے والے تمام طلبا ء اور طلبات کو ہدا یت کی جا تی ہے کہ رات کا کھانا بہت ہلکا اور سر شام کھا ئیں ، کھا نے اور سانس کی مشق کے درمیان کم سے کم تین گھنٹے کا وقفہ ہو نا ضروری ہے ۔
سانس کی اس مشق کے بعد آلتی پا لتی (گو تم بدھ کی نشست )مار کر بیٹھ جا ئیں یا اس طر ح بیٹھیں کہ اعصاب ڈھیلے اور پر سکون رہیں ۔اب آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور کر یں کہ ایک حوض ہے اوور اس حوض میں ایک پا رہ (MERCURY)بھرا ہو ا ہے اور آپ حوض میں پا رے میں ڈوبے ہو ئے ہیں ۔جب اس تصور میں گہرائی واقع ہو جا تی ہے تو پہلے پا رے کا احساس مر تب ہو تا ہے اور جب یہ احساس گہرا ہو تا ہے تو دماغ پر پا رے کا وزن محسوس ہو تا ہے ۔ دماغ میں نقر ئی لہریں پھلجھڑی کی طر ح پھو ٹتی ہو ئی نظر آتی ہے جب بند آنکھوں سے یہ تصور قائم ہو جا ئے تو اس مشق کو کھلی آنکھ سے کیا جا ئے اور دیکھا جا ئے کہ آپ خود اور یہ ساری دنیا پا رے کے حوض کے اندر ڈوبی ہو ئی ہے جب یہ بات مشاہدے میں آجا ئے تو اس مشق کو کھلی آنکھوں سے کیا جا ئے اور دیکھا جائے کہ آپ خود اور یہ ساری دنیا پا رے کی حوض کے اندر ڈوبی ہو ئی ہے جب یہ بات مشاہدے میں آجا ئے تو سمجھ لیجئے کہ اس مشق کی تکمیل ہو گئی ہے۔
نوٹ : مراقبہ لیٹ کر نہ کیا جا ئے کیوں کہ اس طر ح نیند غالب آجا تی ہے اور وہ کیفیات جو بیداری میں سامنے آنی چا ہیئں خواب میں منتقل ہو جاتی ہیں ۔ اس سے نقصان ہو تا ہے کہ دماغ بیداری کے بجا ئے خوا ب دیکھنے کا عادی ہو جا تا ہے اور خواب میں دیکھی ہو ئی با توں کا ایک دو سرے کے ساتھ ربط قائم رکھنا مشکل امر ہے ۔
٭٭٭٭٭
سائنس کا عقیدہ
رضوانہ ۔۔۔
سوال : بقول آپ کے ٹیلی پیتھی جاننے والا اگر ہر زبان سمجھ سکتا ہے دوسروں کے خیالات پڑھ سکتاہے تو ایسا کیسے ممکن ہے کیوں کہ ہمارا عام مشاہدہ یہ ہے کہ آدمی جب کو ئی بات سوچتا ہے تو ا س کی سو چ کادائرہ ما دری زبان کے الفاظ میں محدود ہو تا ہے مثلا ً یہ کہ ہم انگر یزی میں ایک مضمون لکھنا چا ہتے ہیں اور ہماری ما دری زبان اردو ہے تو مضمون کا خاکہ یا مضمون کے اندر مفہوم جو ہم بیان کر نا چا ہتے ہیں وہ ہمارے دما غ میں مادری زبان میں وارد ہو تا ہے اور ہم اس ما دری زبان کو انگر یز ی الفاظ کا جامہ پہنا دیتے ہیں ۔
جواب : سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر یا رو شنی پر ہے ۔ جب ہر شئے شعاعوں یا لہروں کا مجمو عہ ہے تو ہم شعاعوں اور لہروں کو سمجھے اور دیکھےبغیر یہ کیسے جا ن لیتے ہیں یہ درخت ہے ، یہ پتھر ہے یا یہ چیز پا نی ہے ۔ہم جب کو ئی پھول دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ پر پھول سے متعلق خوبصورتی ، خوشبو ، فر حت وانبساط کا تا ثر قائم ہو تا ہے حالانکہ ابھی ہم نے نہ پھول کو چھوا ہے ، نہ سونگھا ہے اسی طر ح جب ایک ایسے آدمی کا چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے جو طبعاً تخر یب پسند ہے یا ہم سے مخا صمت رکھتا ہے تو اس کے خیالات سےہم متا ثر ہو تے ہیں اور ہماری طبیعت کے اوپر اس کا رد عمل ہو تا ہے اس کے بر عکس کو ئی آدمی ہم سے دلی تعلق رکھتا ہے ۔ اس کو دیکھ کرہماری طبیعت میں اس کے لئے محبت اور انسان شنا سی کے جذبات ابھرتے ہیں حالانکہ ان دونوں آدمیوںمیں سے کسی نے نہ ہم سے کو ئی بات کی ہے اور نہ ہمیں کو ئی نقصان یا نفع پہنچا یا ہے ۔
دنیا میں ہزاروں زبا نیں بو لی جا تی ہیں لیکن جب پا نی کا تذکرہ ہو تا ہے تو آدمی اسے پا نی سمجھتا ہے جس طر ح ایک اردو داں پا نی سمجھتا ہے ۔ اس طر ح دوسری زبا نیں بو لنے والے جل ، آب ، واٹر ، ما ء وغیرہ کہتے ہیں لیکن پا نی پا نی ہے جب کو ئی اردوداں کسی انگر یز کے سامنے درخت کہتا ہے تو اس کے ذہن میں درخت ہی آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ انگر یزاس کو TREE کہتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی خطے پر جب ہم آگ کا تذکرہ کر یں گے تواس خطے پر بولی جا نے والی ما دری زبان کچھ بھی ہو لوگ اسے آگ ہی سمجھیں گے ۔ مقصد یہ ہے کہ کو ئی چیز اپنی ما ہیئت ، خواص اور اپنے افعال سے پہچانی جا تی ہے ۔ نام کچھ بھی رکھا جا ئے ہر چیزکاقیام لہر پر ہے ایسی لہر جس کو رو شنی کے علاوہ کچھ نہیں دیا جا سکتا ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہی ہے جس طرح پانی لہروں اور رو شنیوں کامجمو عہ ہے اسی طر ح خیالات بھی لہروں کے اوپر رواں دواں ہیں۔ ہم جب کسی چیز کی طر ف متوجہ ہو جا تے ہیں تو ہمارے خیالات کے اندر کام کر نے والی لہریں اس چیز میں منتقل ہو جا تی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جب کسی آدمی کی طرف متوجہ ہو کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم پیاسے ہیں تو دوسرا آدمی اس بات کو سمجھ جا تا ہے حالانکہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں پا نی پلا ؤ ۔
درخت بھی گفتگو کر تے ہیں خیالات کو سمجھنے اور خیالات میں معانی پہنانے کے لئے الفاظ کا سہارا لیا جا تا ہے لیکن اگر کا ئناتی لاشعور کا مطا لعہ کیا جا ئے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ الفا ظ کا سہا را لینا ضروری نہیں ہے ۔ درختوں ، چو پا یوں ، پر ندوں ، درندوں اور حشرات الارض کی زندگی ہمارے سامنے ہے یہ سب با تیں کر تے ہیں اور خیالات کو آپس میں ردوبدل کر تے ہیں لیکن الفاظ کا سہا ر انہیں لیتے مو جو دہ زمانے نے اتنی تر قی کر لی ہے کہ اب یہ بات پو ری طر ح ثابت ہو چکی ہے کہ درخت میں بھی آپس میں با تیں کر تے ہیں ۔ درخت مو سیقی سے بھی متا ثر ہو تے ہیں اچھے لو گوں کے سائے سے درخت خوش ہو تے ہیں اور ایسے لو گوں کی قربت جن کے دماغ پیچیدہ اور تخر یب پسند ہیں درخت نہ خوش ہو تے ہیں۔ یہ بات میں اپنے مشاہدے کی بنا پر لکھ رہا ہوں ۔میں نے ایسے گھر دیکھیں ہیں کہ اس گھر کے با سی ذہنی طور پر پس ما ندہ اور متعفن خیالات کے حامل تھے ۔اور اس گھر کے پتوں میں اور درختوں کی شاخوں میں ان کا عکس نظر آتا ہے ۔ان درختوں کو دیکھ کر طبیعت میں تکدر پیدا ہو جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ زبان دراصل خیالات ہیں اور خیالات ہی اپنے معنی مفہوم کے ساتھ نوع انسانی اور دو سری تمام نوعوں میں ردوبدل ہو تے رہتے ہیں الفاظ کا سہارا در اصل شعوری کمزوری کی کی علامت ہے۔ اس لئے کہ شعور الفاظ کا سہارا لئے بغیر کسی چیز کو سمجھ نہیں پا تا ۔ جب کو ئی بندہ ٹیلی پیتھی کے اصول و ضوابط کے تحت خیالات کی منتقلی کے علم سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو اس کے لئے دونوں با تیں برابر ہو جا تی ہیں ۔چا ہے کو ئی خیال الفاظ کا سہارا لیکر منتقل کیا جا ئے یا کسی خیال کو لہروں کے ذریعے منتقل کیا جا ئے ہر آدمی کے اندر ایسا کمپیو ٹر نصب ہے جو خیالات کومعنی اور مفہوم پہنا کر الگ الگ کر دیتا ہے اورآدمی اس مفہوم سے با خبر ہو کر اس کو قبول کر تا ہے یا رد کر دیتا ہے ۔
کیفیات وواردات سبق ۳
افتخار احمد نجمی ، سوہدرہ ۔۔۔
۱۸۔ اکتو بر : جب میں نے پا رہ کے تا لا ب کا تصو ر کیا تو شروع شروع میں مجھے مسلسل نور کی با رش نظر آتی کیوں کہ ذہن نور کی با رش کا عادی ہو چکا تھا ۔پھر تھو ڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ نور کی بارش مرکری (پارہ ) سے بھر ی ہو ئی تا لا ب میں گر رہی ہے ۔ پھر یہ با رش گر نا بند ہوگئی اور میرے سامنے پا رے سے بھراہوا تا لا ب ہی رہ گیا ۔ مجھے یو ں محسوس ہوا کہ میں پارہ کے تا لاب کو دیکھتے دیکھتے خود پا رہ میں تبدیل ہو رہا ہوں ۔
مشق کے دو ران دیکھا کہ پا رہ کے چھو ٹے چھوٹے تا لاب ہی تا لا ب پھیلے ہوئے ہیں اور میں ان کے اوپر سے اڑتا جا رہا ہوں پھر میں ان تالابوں میں سے ایک تا لا ب اپنے لئے چن لیتا ہوں اور اسے دیکھنا شروع کر دیتا ہوں ۔
۲۰۔ اکتوبر : مرکری (پا رہ )کی ایک بہت بڑی لہر زمین پر نمودار ہو ئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پو ری زمین پر پھیل گئی ۔ لہر کے گزرنے کے بعد زمین پر جا بجا چھوٹے چھوٹے گڑے پڑ گئے جن میں مر کری بھرا ہوا تھا ۔ اس کے بعد یوں محسوس ہو ا جیسے میں اس میں ڈوبتا چلا جا رہا ہوں۔
۲۱۔ اکتو بر : میں نے خود کو پا رے کے حوض میں ڈوبتے دیکھا مجھے احساس ہوا کہ میں پارے کے نیچے سے نیچے جا رہا ہوں لیکن حوض کی گہرائی ختم نہیں ہو ئی پھر میں نے حوض کی گہرائی میں اِدھراُدھر اڑنا شروع کر دیا ۔ اڑتے اڑتے حضور ﷺ کا رو ضہ اقدس میرے سامنے آگیا میں نے دیکھا کہ ہمارے نبی ﷺ کا رو ضہ مبارک نور سے بھرا ہو اہے اور درد دیوار سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں ۔یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو بے اختیارجا ری ہو گئے جب یہ کیفیت ٹوٹی تو دیکھا کہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔پھر میں دوبارہ مراقبے میں چلا گیا ۔ دیکھتا ہوں کہ پارے کے حوض کے اندر ایک بہت بڑا محل ہے جس کی ہر دیوا ر اور ہر چیز سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں حتٰی کے محل کے اندر جو بزرگ بیٹھے ہیں ان کی پیشانی اور داڑھی بلکہ سارے جسم سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں ،میری آنکھیں اتنی زیادہ روشنی کی تا ب نہ لاکر خیرہ ہو گئیں اور مر اقبہ ختم ہو گیا ۔
۲۳۔ اکتوبر :مراقبہ میں حوض کا تصور قائم کیا تو حوض کے بجا ئے میرے سامنے پا رہ کا وسیع سمندر آگیا۔ اس کی شعاعیں بہت چمک دار تھیں اور ان سب شعاعوں کا رنگ مر کر ی جیسا تھا۔ اس دورا ن کسی نے زور سے دستک دی اور مر اقبہ ٹوٹ گیا ۔
پھر میں نے دو با رہ مراقبہ کیا تو بہت آسانی سے میرے سامنے پا رہ کا حوض آگیا میں نے دیکھا کہ اس حوض میں پا رہ کا ایک نا لہ آکر گر رہا ہے ۔میں نے اس نا لہ کے اوپر شمال کی طرف اڑنا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر بعد میں پا رے سے بھرے ہو ئے سمندر میں پہنچ گیا ۔ اس کی شعاعوں کا رنگ حوض کی شعاعوں سے زیادہ چمکدار تھا۔
۵ ۔ نو مبر : ٹیلی پیتھی کے تیسرے سبق کی مشق کر رہا تھا کہ میں نے خو د کو (پا رہ )مر کر ی کے وسیع اور لا محدود سمندر میں ڈوبے ہو ئے محسوس کیا ۔ اس کے بعد میں نے اپنے ذہن کو بہت ہلکا محسوس کیا اور دیکھا کہ میں زمین کے اوپر پر واز کررہا ہوں اور میرے نیچے کھیت ہیں جن میں لوگ کام کر رہے ہیں اڑتے اڑتے نظر وں کے سامنے پا رہ سے بھری ہو ئی نہر آگئی جس میں سے مر کر ی لا ئٹ کی نہر نکل رہی تھیں ۔
۹ ۔ نو مبر : خود کو مختلف علاقوں میں سیر کر تے ہو ئے پا یا ۔ نظر آنے والی دو چیزوں میں قدرت کے دل فر یب منا ظر ، با رونق اور جگمگا تے شہر ، خوبصور ت عبا دت گا ہیں ، ند یاں اور کئی کئی منزلہ خوبصورت عما رتیں شامل تھیں یہ سب چیزیں ذہن میں خود بخود ہی منتقل ہو گئیں مجھے آج پتہ چلا کہ ذہنی سکون کیا ہے ۔
دروازہ کھلا :
سید اصغر علی ظفر ، گو جر انوالہ ۔۔۔
۶۔ نو مبر : ٹیلی پیتھی مشق کے دو ران خود کو ایک صحرا میں کھڑا دیکھا اتنے میں سفید لباس میں ملبو س دو نہا یت حسین عورتوں پر نظر پڑی جو کچھ فا صلے پر کسی کام میں مشغول تھیں ۔ میں ان کے قریب پہنچا تو انہوں نے انہوں نے مجھ پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور دو با رہ اپنے کام میں مشغول ہو گئیں میں نے دیکھا کہ وہ زمین پر سے مو تی چن رہی تھیں میں نے پو چھا کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں دیکھا ؟ انہوں نے دیکھا کہ ہمیں اپنی تیسری ساتھی کا انتظار تھا وہ ابھی تک نہیں آئی ہے ۔ان کا یہ کہنا کہ ان کی وہ ساتھی بھی آگئی اور وہ تینوں اوپر کی طر ف پر واز کر گئیں ۔میں نے بھی ان کے تعاقب میں اڑناشروع کر دیا اور ان کے پیچھے پیچھے ایک بہت خوبصورت دروازے تک جا پہنچا ۔ دو سپا ہیوں نے دروازہ کھو لا اور وہ اندر داخل ہو گئیں ۔ سپا ہیوں نے مجھے روک دیا لیکن ان عورتوں نے سپا ہیوں سے کہہ کر مجھے اندر آنے دیا ۔
دروازے کے اندر ایک سڑک تھی جس کے دو نوں طر ف پو دے اور فوارے لگے ہو ئے تھے ۔ فوارے سے پا نی ابل ک سڑک پر گر رہا تھا ہم اس سڑک پر آگے بڑھتے گئے لیکن اس فوارے کے پانی سے بھیگے نہیں ۔
آخری تالاب :
منور اعوان ، راولپنڈی ۔۔۔
۳ ۔ مئی: تصور قائم نہیں ہو رہا تھا اگر کبھی ہو تا تو جلدی ٹوٹ جا تا سو چا کہ قلند ربابا ؒ سے مدد لینی چا ہئے ۔ یہ سوچا ہی تھا قلندر بابا اولیا ء ؒ تشریف لا ئے آپ نے آتے ہی ایک زور دار تھپڑ ما را جس کی چو ٹ سے میں گر گیا دیکھا کہ وہ پا رے سے بھرا تا لاب تھا جس میں میں گراتھااور یوں تصور قائم ہو گیا ۔
۶ ۔ مئی: تصور قائم ہو ا تو دیکھا کہ قلندر بابا اولیا ء مسکر اتے ہو ئے تشریف لا ئے ۔ سامنے ایک تا لا ب ہے کہا اس میں کود جا ؤ ۔ جب میں اس تا لاب میں داخل ہو تا ہوں تو تا لا ب کے اندر سے ایک مگر مچھ باہر نکلتا ہے ۔ میں اس تالاب سے با ہر نکلتا ہوں آپ مسکراتے ہو ئے دوسرے تا لاب میں لےجا تے یہاں سنہری رنگ کی مچھلیاں تیر رہی ہو تی ہیں ۔میں بھی وہاں پر تیرتا ہوں ۔ آج ہر طر ف پا رہ ہی پا رہ دیکھا لیکن پا رے کے سمندر میں مچھلیاں ، مگر مچھ اور کیچوے وغیر ہ نظر آئے ۔
۲۔ جون : شومی قسمت سے آج چھت پر مراقبہ شروع کیا دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ تیز آندھی چلنے لگی ۔ پھر نیچے آکر مراقبہ شروع کیا ۔ پہلے جیسی یکسوئی قائم نہ ہو سکی تا ہم محدود کیفیت کے اندر ایک تا لا ب پا رے سے بھرا ہوا نظر آتا رہا بے دلی کے ساتھ مراقبہ ختم کر دیا ۔
۵ ۔ جون : سانس والی مشق کے دوران خیالات آتے رہے ، حوض کا تصور کیا تو ایک چھوڑ سات کے قریب تالاب نظر آئے ۔ آخری تالاب سب سے چھو ٹا تھا اور پہلا تا لاب سب سے بڑا تھا میں اس میں غوطہ لگا کر نیچے بیٹھ گیا ۔
۶۔ جون: حوض کا تصور کیا تو لفظ اللہ نظر آیا ۔ جس کے اندر پارے سے بھرے ہوئے سو کے قریب حوض ہونگے ۔پھر اچانک لفظ اللہ مُحَمَد میں تبدیل ہو گیا ۔ پھر یہ بھی تبد یل ہو کر (ا )بن گیا ۔ میں اس کے اندر جذب ہو کر با ہر آیا تو دیکھتا ہوں الف پھیل کر لمبا ئی میں افق تک پہنچ گیا ہے ۔ پھر اس میں سے لا وے کی طرح پارہ ابلنے لگا ۔ پھیلتے ہو ئے اس پا رے میں درخت بھی ڈوب گئے ۔
داتا گنج بخش کا مزار :
ایک طا لبہ ۔۔۔
پا رے کے حو ض میں ڈوب جا نے کی مشق کی تو دماغ پر بوجھ ہو گیا ۔ پا رے کے حو ض کا تصور بن بن کر بگڑ جا تا ہے اور کبھی کا فی اچھا تصور ہو جا تا ہے اور کبھی مشکل سے بنتا ہے اور پارہ کا حوض کبھی کبھی اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل چا ہتا ہے اس میں ڈوبی رہوں لیکن دماغ پر پا رے کا وزن کا فی محسوس ہو تا ہے اور طبیعت مکدر سی ہو جا تی ہے ۔نیز اس تصور میں نیند بھی آجا تی ہے ۔
مرا قبہ میں دیکھا کہ حضرت داتاگنج بخشؒ کے مزار کی جا لیوں میں نور کی کر نیں جمع ہو رہی ہیں ۔دیواریں بہت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے اور ان پر کو ئی آیت لکھی ہو ئی ہے اور میں اس کو سمجھنے اور پڑھنے کی کو شش کر رہی ہوں لیکن شدت جذبات سے اور رو نے سے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ کیا ہے ۔
۳۰۔ اپر یل : ایسا محسوس ہوا جیسے گر دن سر کا بو جھ نہیں سنبھال سکے گی ۔ بہر حال مشق جا ری رکھی اورپا رے کے حوض کا تصور قائم ہو گیا ۔اور دیکھا کہ میں رسول ؐ خدا کے پا ئے مبا رک سے لپٹ کر خوب رو رہی ہوں اور حضور ﷺ میرے سر پر اپنا دست پاک و مطہر پھیر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ‘’خدا تمہیں کامیابی دے گا ۔ “
آگ کی لَپٹ :
محمد عمران کلیم ۔۔۔
رات کو مراقبہ کیا تو شعوری مزاحمت اس حد تک بڑھ گئی کہ سر ایک بھا ری پتھر محسوس ہو نے لگا ۔ اس کے بعد مطلع صاف ہوا تو دیکھا کہ پا رے کی ایک بڑی لہر اٹھی اور پو ری دنیا اس کے اندر ڈوب گئی ۔ جب وہ لہر گزر گئی تو پا رے کے کئی حوض دیکھے ۔ پھر دیکھا کہ ایک بڑی لہر آئی جس کے اوپر نور تھا اور نیچے پا رہ کی لہر نے پو ری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ کئی بار دنیا کے گرد گھو می ۔
۱۰۔ جنوری : آج مراقبہ شروع کیا تو دیکھا کہ پو ری دنیا ایک چھوٹے سے گو لے کی شکل میں تبدیل ہو کر پا رہ کی شکل میں تبدیل ہو کر پا رہ کے حوض میں ڈوبی ہو ئی تیر رہی ہے ۔پھر میں نے خود کو زمین کے ساتھ پا یا اور پو ری دنیا پا رے میں ڈوبی ہو ئی نظر آئی اور میں نے محسوس کیا کہ میرا پلنگ پا رے پر سوار ادھر ادھر ڈول رہا ہے اور پا رہ کی لہریں مجھ سے ٹکرا رہی ہیں ۔
۱۹ ۔ فر وری : مجھے کھلی آنکھوں سے اپنا دل نظر آیا اس کے اندر دیکھا تو پو ری دنیا پا رہ کے حوض میں ڈوبی ہوئی نظر آئی ساری دنیا میں پا رہ کا طوفان اٹھا ہوا ہے اور ہر طرف طغیائی آئی ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ اس تصور میں گہرائی بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ سر پر ایک بو جھ محسوس ہوا کنپٹیوں میں ایسا لگا ان پر درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں پھر یہ ٹیسیں ختم ہو گئی میں سو گیا ۔
۲۰ ۔ فر وری : آج مراقبہ شروع کر نے سے پہلے سانس کی مشق کی تو تھوڑی سی گر می شروع ہو ئی جو ہر سانس کے ساتھ بڑھتی ہی گئی ۔آخر سانس نکالتے ہو ئے ایسا لگتا ہے کہ میری سانس کے ساتھ آگ کی لپٹ نکل رہی ہو اور ریڑھ کی ہڈی میں کو ئی چیز ہل رہی ہے پھر مراقبہ کیا تو حسب معمول فو را ً ہی تصور بندھ گیا اور طبیعت پر سکون ہو گئی ۔
ہدایت : مراقبہ کر نے سے پہلے ایک گلا س پا نی میں شہد گھول کر پی لیا کر یں ۔ پا نی آہستہ آہستہ گھونٹ کر کے پئیں ۔ کھانوں میں نمک کی مقدار کم کر دیں ۔
٭٭٭٭٭
با طنی آنکھ
راجہ محمد نوید ، لا ہور
سوال : میں نے ٹیلی پیتھی کی جتنی کتا بیں پڑھی ہیں ۔ سب میں ہدا یت کی گئی ہے کہ ٹیلی پیتھی کی مشقیں شمال کے رخ منہ کر کے کی جا ئیں ۔ شائقین ٹیلی پیتھی کے لئے آپ نے اب تک جتنے اسباق لکھے ہیں ان میں سے کسی بھی سبق میں سمتوں کا تعین کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیاسوال یہ ہے کہ مشقوں کے دوران شمال رخ منہ کر کے بیٹھنا اگر ضروری ہو تو اس کی کیا وجہ ہے اور آپ نے سمتوں کا تعین کیوں نہیں کیا ؟
جواب : آدمی کے اندر دو دما غ کام کر تے ہیں ۔ایک دماغ ظا ہری حواس بنا تا ہے اور دوسرا دما غ ظاہری حواس کے پس پر دہ کام کر نے والی اس ایجنسی کی تحر یکات کو منظر عام پر لا تا ہے جو ظاہری حواس کے الٹ ہے جن حواس سے ہم کشش ثقل میں مقید چیزوں کو دیکھتے ہیں ان کا نام شعور ہے اور جن حواس میں ہم کشش ثقل سے آزادہو جا تے ہیں اس کا نام لا شعور ہے ۔ شعور اور لا شعور دونوں لہروں پر قیام پذیر ہیں شعوری حوا س میں کام کرنے والی لہریں مثلث (TRIANGLE)ہو تی ہے اور لا شعوری حواس میں کام کر نے والی لہریں دائرہ(CIRCLE) ہو تی ہیں ۔
زمین کی حر کت دو رخ پر قائم ہے ایک رخ کا نام طو لا نی حرکت ہے اور دوسرے رخ کا نام محوری حرکت ہے یعنی زمین جب اپنے مدار پر سفر کر تی ہے تو وہ طو لانی گر دش میں تر چھی ہو کر چلتی ہے محوری گر د ش میں لٹو کی طرح گھو متی ہے ۔ہر مظہر دو رخ پر قائم ہے ایک رخ ہمیں گوشت پو ست کی آنکھ سے نظرآتا ہے ۔اور دو سرا رخ ہم با طنی آنکھ سے مشاہدہ کرتے ہیں یہ دورخ درا صل دو حواس ہیں حواس کے ایک رخ کا نام شعور اور دو سرے رخ کا نام لا شعور ہے شعوری حواس میں ہم ٹائم اسپیس(TIME & SPACE) میں بند ہیں اور لا شعوری حواس ہمیں ٹا ئم اینڈ اسپیس سے آزاد کر دیتے ہیں ۔
یہ دو نوں حواس ایک ورق کی طر ح ہیں ۔ ورق کے دونوں صفحات پر ایک ہی تحریر لکھی ہو ئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ ورق کےایک صفحے پر عبا رت ہمیں رو شن اور واضح نظر آتی ہے دو سرے صفحہ پر دھند لی اور غیر واضح نظر آتی ہے ۔ دھند لی اور غیر واضح تحر یر لا شعور ہے ۔
ہم جب کو ئی ما ورا ئی چیز دیکھتے ہیں تو درا صل یہ صفحہ کی دھند لی تحر یر کا عکس ہو تا ہے ہو تا یہ ہے کہ وہ نظر جس کو تیسری آنکھ کہا جا تا ہے کھل جا تی ہے چو نکہ اس طر ح دیکھنا ہماری رو ز مر ہ دیکھنے کے عادت کے خلا ف ہے اس لئے شعور پر ضرب پڑتی ہے اس عادت کو معمول پر لا نے کے لئے ہمیں شعوری حواس کے ساتھ لا شعوری حواس کی طر ف متوجہ ہو نا پڑتا ہے جیسے جیسے ہم لا شعور میں دیکھنے کے قابل ہو تے ہیں شعور کی طاقت میں بھی اضا فہ ہو تا رہتا ہے ۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے زمین اپنی طو لا نی گر دش میں چل رہی ہے طو لا نی گر د ش (TRIANGLE) ہے اور محوری گر دش دائرہ (CIRCLE) ہے۔
ہماری زمین پر تین مخلو ق آباد ہیں ۔۔۔انسان ، جنات اور ملا ئکہ عنصری ۔ انسان کی تخلیق میں بحیثیت گو شت پو ست ، مثلث غالب ہے ۔اس کے بر عکس جنات میں دائرہ غالب ہے اور فرشتوں کی تخلیق میں جنات کے مقابلے میں دائرہ زیادہ غالب ہے انسان کے بھی دو رخ ہیں غالب مثلث اور مغلوب رخ دائرہ ۔ جب کسی بندے پر مثلث کا غلبہ کم ہو جا تا ہے اور دائرہ غالب آجا تا ہے تو وہ جنات فر شتوں اور دو سرے سیاروں میں آباد مخلو ق سے متعارف ہو جا تا ہے نہ صرف یہ کہ متعارف ہو جاتا ہے بلکہ ان سے گفتگو بھی کر سکتا ہے ۔ طو لا نی گر دش مشرق اور مغرب کی سمت میں سفر کر تی ہے اور محوری گر دش شمال سے جنوب کی طر ف رواں دواں ہے۔
ٹیلی پیتھی اور ما ورا ئی علوم حاصل کر نے کے لئے شمال کی سمت اس لئے متعین کی جا تی ہیں کہ شمال میں سفر کر نے والی تخلیقی لہروں کا وزن صاحب مشق کے شعور پر کم سے کم پڑے ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی دریا میں اپنے ارا دے سے اتر تا ہے تو اس کے حواس معطل نہیں ہو تے اور اگر کسی آدمی کو بے خبری میں دھکا دے دیا جا ئے تو اس کے حواس غیر متوازن ہو سکتے ہیں ۔ خود اختیاری عمل سے انسان بڑی سے بڑی افتاد کا ہنستے کھیلتے مقابلہ کر لیتا ہے جبکہ نا گہا نی طور پر کسی افتاد سے وہ پر یشان ہو جا تا ہے ۔
ہم کسی سمت کا تعین اس لئے نہیں کیا ہے کہ ا ب تک ٹیلی پیتھی کا سبق براہ راست پیش نہیں کیا گیا ہے جتنے اسباق شائع ہو ئے ہیں ان کا منشاہ ذہنی یکسوئی پیدا کر نا ہے ذہنی یکسوئی حاصل کر نے کے لئے سمت کا تعین ضروری نہیں ہے ۔
٭٭٭٭٭
تصویر کی صحیح تعریف
جمشید احمد دمحمد صفدر ، روالپنڈی ۔۔۔
سوال : آپ نے ٹیلی پیتھی کی جو مشقیں تجویز کی ہیں ان میں سے تصور کو مر کز ی حیثیت حاصل ہے ۔تصور سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ اور تصور کی صحیح تعریف کیا ہے ؟ کیا مشق کے دوران خود کو تر غیبات دینا ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ رو شنی اور نور کا سمندر ہے ساری کا ئنات اس نور میں ڈو بی ہو ئی ہے یا تصور سے کچھ اور مر اد ہے ؟
جواب : روز مر ہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم جب کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز یا اس کے اندر معنویت ہمارے اوپر آشکار ا ہو جا تی ہے ۔کو ئی چیز ہمارے سامنے ہے لیکن ذہنی طور پر ہم اس کی طر ف متوجہ نہیں ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے بسا اوقات کو ئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ہم گھر سے دفتر جا نے کے لئے ایک راستہ اختیار کر تے ہیں جب ہم گھر سے روا نہ ہو تے ہیں تو ہمارے ذہن کی مر کز یت صرف دفتر ہو تا ہے یعنی یہ کہ ہمیں وقت مقررہ پر دفتر پہنچنا ہے ۔وہاں اپنی ذمہ داریاں پو ری کر نی ہیں اب راستے میں بے شمار مختلف النوع چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور انہیں ہم دیکھتے ہیں لیکن دفتر پہنچنے کے بعد کو ئی صاحب ہم سے سوال کریں کہ راستے میں آپ نے کیا کچھ دیکھا تو اس بات کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہوگا کہ ہم نے دھیان نہیں کیا حالانکہ چیزیں سب نظر کے سامنے ے گزریں لیکن چو نکہ کسی بھی چیز میں ذہنی مر کز یت قائم نہیں تھی اس لئے حا فظہ پر اس کا نقش مر تب نہ ہو سکا۔
قانون یہ بناکہ جب ہم کسی چیز کی طر ف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ چیز اوراس چیز کے اندر معنو یت ہمارے اوپر منکشف ہو جا تی ہے ۔ ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں جو بہت دلچسپ ہے دلچسپی کی بنا پر کئی گھنٹے گزر جا تے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب کو مطا لعہ چار یا پا نچ گھنٹے گزر جا تے ہیںجب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب کا مطالعہ چار یا پا نچ گھنٹے کیا ہےتو ہمیں یقین نہیں آتا لیکن چونکہ گھڑی ہمارے سامنے ہے اس لئے ہم یقین کر نے پر مجبور ہیں۔ اس کے بر عکس ایک ایسی کتاب آپ پڑھتے ہیں جس کا مضمون آپ کی دلچسپی کے بر عکس ہے تو پا نچ دس منٹ پڑھنے کے بعد ہی طبیعت پر بوجھ محسوس ہو نے لگتا ہے اور با لآخر وہ کتاب چھو ڑ دیتے ہیں اس مثال سے دو سرا قانون یہ بنا کہ ذہنی مر کز یت کے ساتھ اگر دلچسپی بھی قائم ہو تو کام آسان ہو جا تا ہے ۔جہان تک دلچسپی کا تعلق ہے اس کی حدود اگر متعین کئے جا ئیں تو وہ دو رخ پر قائم ہیں جن کو عرف عام میں ذوق شوق کہا جا تا ہے ۔یعنی ایک طر ف کیسی چیز کو تلاش کرنے کی معنویت کو تلاش کر نے کی جستجو ہے اور دو سری طرف اس جستجو کے نتیجے میں کو ئی چیز حاصل کر نے کا شوق ہے ۔
ذوق شو ق کے ساتھ جب کو ئی بندہ کسی راستے کو اختیار کر تا ہے تو وہ راستہ دین کا ہو یا دنیا کا، اس کے نتا ئج مثبت مر تب ہو تے ہیں ۔ ٹیلی پیتھی کی مشقوں میں تصور کا منشاء یہی ہے کہ آدمی ذوق شوق کے سا تھ ذہنی مر کز یت او ر اس کے نتیجے میں با طنی علم حاصل کر ے چو نکہ یہ علم کتا بی علم نہیں ہے اس لئے اس علم کو سیکھنے کے لئے ایسے طر یقے اختیار کر نا لازم ہے جو مرو جہ طر یقوں سے با لا ہوں روح نور ہے رو شنی ہے رو حانی علوم بھی نور ہے ۔نور یا لہروں کا عالم نور یا لہروں کے ذریعے ہی منتقل ہو سکتا ہے۔ ہم جب نور کا تصو ر کر تے ہیں تو نور کی لہریں یا علم رو حانیت کی روشنیاں ہمارے ذوق شو ق کے مطابق ہمارے اندر منتقل ہو نے لگی ہیں ۔
تصور کی مشقوں سے بھر پور فوائد حاصل کر نے کے لئے ضروری ہے کہ صاحب مشق جب آنکھیں بند کر کے تصور کر ے تو اسے خود سے اور ماحول سے بے نیاز ہو جا نا چا ہئے اتنا بے نیاز کہ اس کے اوپرسے بتد ریج ٹائم اینڈاسپیس کی گرفٹ ٹوٹنے لگے یعنی اس تصو رمیں اتنا انہماک ہو جا ئے کہ وقت گزرنے کے متعلق احساس نہ رہے ۔ کتاب کا دلچسپی مضمون پڑھنے کی مثال پیش کی جا چکی ہے ۔
تصور کے ضمن میں اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر آپ نورکا تصورکر رہے ہیں تو آنکھیں بند کر کے کسی خاص قسم کی روشنی کو دیکھنے کی کوشش نہ کر یں ۔بلکہ صرف نور کی طر ف دھیان قائم کر یں نور جو کچھ بھی ہے جس طر ح بھی ہے ازخود آپ کے سامنے آئے گا۔ اصل مدعا کسی ایک طر ف دھیان کر کے ذہنی یکسوئی حاصل کر نا اور منتشر خیال سے نجات پا نا ہے ۔جس کے بعد با طنی علم کڑی در کڑی ذہن پر منکشف ہو نے لگتا ہے ۔ تصور کا مقصد اس بات سے کا فی حد تک پو را ہو تا ہے جس کو عرف عام میں "بے خیال ہو نا " کہا جا تا ہے ۔
اگر ہم کھلی یا بند آنکھوں سے کسی چیز کا تصور کر تے ہیں اور تصور میں خیالی تصویر بنا کر اُسے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ عمل ذہنی یکسوئی کے احا طہ میں نہیں آتا ۔ ذہنی یکسوئی سے مراد یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر دیکھنے اور سننے کے عمل سے بے خبر ہو جا ئے قانون یہ ہے کہ آدمی کسی لمحے بھی حواس سے ما ورا ء نہیں ہو سکتا ْ جب ہمارے اوپر شعوری حواس کا غلبہ نہیں رہتا تو میکا نکی(AUTOMATIC) طور پر لاشعوری حواس متحرک ہو جا تے ہیں اور لا شعوری حواس سے متعارف ہو نا ہی ما ورا ئی علوم کا عرفان ہے ۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔