پہلے سبق میں یہ بات پو ری طرح واضح کر دی گئی ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ منتشر خیالات سے نجات حاصل کر کے صرف ایک خیال کو اپنا ہدف بنالیا جا ئے ، ذہنی یکسوئی اور مر کزیت حاصل کر نے کے لئے دو سرا سبق یہ ہے ۔
داہنے ہا تھ کے انگوٹھے سے سیدھے نتھنے کو بند کر لیں ۔اور با ئیں نتھنے سے پا نچ سیکنڈ تک سانس کھنچ کر سیدھا نتھنا چھنگلیا سے بند کر لیں ۔اور پانچ سیکنڈ تک سانس کو رو ک لیں ۔ دس سیکنڈ کے بعد الٹے نتھنے سے پانچ سیکنڈ تک سانس با ہر نکا لیں۔ یہ ایک چکر ہو گیا یعنی پا نچ سیکنڈ سانس لینا ،دس سیکنڈ رو کنا اور پا نچ سیکنڈ با ہر نکالنا ہے۔ اس طر ح دس مر تبہ اس عمل کو دہرا ئیں ۔سانس کی یہ مشق صبح سورج نکلنے سے پہلے خلوئے معدہ اور رات کو سونے سے پہلے خالی پیٹ کر نی چا ہئے ۔ سانس کی اس مشق کے بعد آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور کر یں کہ آسمان پر نیلے رنگ کے با دل چھا ئے ہو ئے ہیں اور آپ کے اوپر نور کی بارش ہو رہی ہے۔شروع شروع میں اس مراقبہ کے دوران شعور پر مزاحمت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بوجھل اور ماؤف ہونے لگتا ہے۔ دماغ کا ماؤف ہونا دراصل مشق کی کامیابی کی طرف اشارہ ہے۔ ابتدائی چند دنوں میں یا تو تصور بالکل قائم نہیں ہوتا یا صرف آسمان اور بادل کا تصور دماغ کی سطح پر نمودار ہوتا ہے۔
جب اس تصور میں گہرائی واقع ہوجاتی ہے تو پہلے سر کے اوپر بارش کے قطرے گرنے کا احساس ہوتا ہے ۔تصور اور زیادہ گہرا ہو جاتا ہے تو فی الواقع بارش ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور جسم پر اس نورانی بارش کی بڑی بڑی بوندوں کا وہی اثر مرتب ہوتا ہے جو پانی کی بارش سے ہوتا ہے۔ یعنی نورانی بارش کی بوندیں گرنے سے جسم پرچوٹ پڑتی ہے اور پھر پورے ما حول پر بر کھا رُت کا سماں پیدا ہو جا تا ہے جب بند آنکھوں سے با رش کا تصور قائم ہو جائے اور جسم پر بوندوں کی چوٹ محسوس ہونے لگے تو اس مشق کو کھلی آنکھوں سے کیا جا ئے اور تیسری آنکھ سے یہ دیکھا جا ئے کہ ہر طر ف نور کی بارش ہو رہی ہے اور پورا ما حول ا س نو را نی با رش میں ڈو با ہوا ہے ۔ جب یہ تصور پو را ہو جائے تو یہ سمجھ لیجئے گا کہ اس مشق کی تکمیل ہو گئی ہے ۔
٭٭٭٭٭
فکر سلیم
جاوید اختر ، لا ہور ۔۔۔
سوال : آپ نے خیالات کے دو ر خ متعین کئے ہیں ۔ ایک اسفل اور دو سرا اعلیٰ ۔ اعلیٰ خیالات کو آپ نے فکر ِسلیم کا نام دیا ہے ۔ مذہبی نقطہ نظر سے اسلامی اصولوں کے مطا بق زندگی گزرنا فکرسلیم ہے ۔ اور اسلام میں ٹیلی پیتھی کا کہیں کو ئی تذکرہ نہیں ہے ،۔ ٹیلی پیتھی دراصل ان علوم میں سے ایک علم ہے جو یو رپ کے سائنسدانوں نے دوسرے ماورا ئی علوم سے اخذ کیا ہے ۔ یہ بہت زیادہ پر یشان کن بات ہے کہ آپ نے اسلام میں ٹیلی پیتھی کو پیو ند کاری کی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ٹیلی پیتھی ایک ایسا علم بن گیا ہے کہ جس کی اہمیت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے والاہر فرد فکرسلیم بھی رکھتا ہو ۔ یعنی وہ مسلمان ہو کیا آپ کسی ایسے واقعے کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف کے ساتھ پیش آیا ہو اور ٹیلی پیتھی کے علم سے مطا بقت رکھتا ہو ؟ آپ سے نہا یت دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ اس علم کو اس کی اصلی شکل و صورت اور اسکی حقیقی ہییت میں پیش کر یں تا کہ اسلام اور ٹیلی پیتھی میں امتیاز بر قرار رہے ۔
جواب : جہاں تک فکر سلیم کا تعلق ہے اس کو کسی ایک گر وہ کی میراث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فکر سلیم دراصل انسانی اقدار کا دوسرا نام ہے ۔اگر کسی غیر مسلم میں انسانی قدریں موجودہیں اس کو بہر حال انسان کہا جا ئے گا۔ اور اگر کسی مسلمان میں ا نسانی قدریں نہیں ہیں تو وہ ہر گز مسلمان کہلا نے کا مستحق نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ پا رہ ۶ ، رکوع ۱۳، سورہ الما ئد ہ کی آیا ت ۶۹ میں ارشادفر ما تے ہیں:
البتہ جو مسلمان ہیں اور جو یہودہیں اور صائبین اور نصاریٰ جو کو ئی ایمان لا ئے اللہ پر اور یوم آخرت پر اور عمل کر ے نیک ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غم کھا ویں (تر جمہ شاہ عبد القادر جیلا نی ؒ)۔
آیت مقدسہ میں یہ بات پو ری طر ح واضح کر دی گئی ہے کہ کسی قوم یا کسی فرد کا نیک عمل ضائع نہیں کیا جا تا ۔ اس نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کر تے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ اس کا عمل خالصتا ً اللہ کے لئے ہو ۔ایسا عمل جو اللہ کے لئے کیا جا ئے فکر سلیم کے دائرے میں آتا ہے ۔ہم نے فکر سلیم کو ایک ایسی طر ز فکر بتا ئی ہے جو انسان کو اس کی روح سے قریب کر تی ہے ۔ رو ح سے قریب ہو نا اور روح کا عرفان حاصل ہونا ہی دراصل انسانیت ہے ۔ تمام آسمانی صحائف نو ع انسانی کو اس طر ز فکر کی دعوت دیتے ہیں ۔
اس سوال کا جواب کہ اسلام میں ٹیلی پیتھی کا وجود نہیں ہے یا ہے کہ دراصل ٹیلی پیتھی نام ہی ایسی چیز کا جس کا ذریعے ایک بندہ اللہ کی مخلو ق کے دلو ں میں اللہ کے خیالات اور طر ز فکر منتقل کر تا ہے تمام انبیا ء علیہم السلام کا مشن رہا کہ وہ اپنی اس طر ز فکر کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص ودیعت ہو ئی ہے اللہ کی مخلوق کو اس سے فیض یاب کر یں اور ان کو شیطنت سے مامون اور با غیا نہ طر ز زند گی سے نجات دلا ئیں ۔ اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا کہ تر غیب کے بجا ئے اس علم کو ٹیلی پیتھی کہہ دیا جا ئے جس طر ح خدا کو انگر یزی میں GOD یا ہندی میں بھگوان کہا جا تا ہے ۔
آپ نے یہ بھی لکھا کہ کسی ایک واقعہ کی نشاندہی کر دی جائے جو اسلاف کے ساتھ پیش آیا ہو وہ ٹیلی پیتھی سے مطا بقت رکھتا ہو ۔
تاج دار دو عالم سرور کا ئنات حضور علیہ السلام جب ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو اونٹ کی آنکھوں میں آنسودیکھ کر اس کے ما لک سے ارشاد فر ما یا کہ یہ اونٹ تیری شکا یت کر رہا ہے کہ تو اس پر بوجھ پو را ڈالتا ہے لیکن اس کے خورد نوش کا انتظام پو را نہیں کر تا۔
اسی طر ح تاریخ اسلام میں حضرت عمرفا روق ؓ کا یہ واقعہ سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے ایران کے ایک جنگ کے دو ران سپہ سالار اسلام حضرت ساریہ ؓ اپنے لشکر کو لیکر دشمن کے بہت قریب پہنچ گئے اور اس کا محا صرہ کر لیا ۔ اور اس کے بعد دشمن نے امداد حاصل کر لی اور اس کی تعداد بہت بڑھ گئی اسی دو ران حضرت عمر ؓ جمعہ کا خطبہ دینے کھڑے ہو ئے تو اچانک آپ نے فر ما یا ‘’اے لوگوں ! میں نے فریقین کو دیکھا ہے ۔ “اس کے بعد آپ نے دونوں لشکروں کا حال بیان کیا پھر پکار کر فر مایا ‘’یا ساریۃ، الجبل الجبل ! “ ‘’(اے ساریہ ! پہاڑ کی طر ف چلئے جاؤ) “۔تا ریخ شاہد ہے کہ ساریہ ؓ میدان جنگ میں حضرت عمر ؓ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہو ئے اور شکست سے محفوظ مامون رہے ۔
اس ضمن میں انبیا ء اکرام ؑ اوار اولیا ء اللہ اور جینیئس (GENIUS)لوگوں کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جو مثال کے طور پر پیش کئے جا تے ہیں ۔
٭٭٭٭٭
قبر میں پیر
طفیل اے ۔ شیخ ، لا ہو ر ۔۔۔
سوال : میری عمر اس وقت ساٹھ بر س ہے ٹیلی پیتھی اور دیگر مخفی علوم پر میری گہری نظر ہے ۔ اور ان علوم پر میں تمام ملکی اورغیر ملکی مصنفین کو کھنگال ڈالا ہے لیکن ٹیلی پیتھی کے عنوانات کے تحت جو کچھ آپ نے تحر یر کیا ہے اتنی مدلل ، اتنی جا مع اور ایسی رو شن تحریر آج تک میری نظر سے نہیں گزری ۔
اب جب کہ میں محاورۃ ً نہیں بلکہ حقیقتاً قبر میں پیر لٹکا ئے بیٹھا ہوں ۔میں آپ سے ایک مشورہ طلب کر نا چا ہتا ہوں کہ میں اس عمر میں ٹیلی پیتھی کی مشقیں کر سکتا ہوں ؟ آپ جا نتے ہیں کہ اس عمر تک پہنچتے پہنچتے کو ئی شوق بر قرار نہیں رہتا ۔ میرے اللہ کا دیا ہو اسب کچھ ہے اگر کچھ نہیں تو ذہنی سکون نہیں ہے ۔ آپ نے لکھا ہے کہ ٹیلی پیتھی کی مشقوں سے دماغی خلیوں کی شکست وریخت ختم ہو جا تی ہے ۔خیالات خود بخود سُدھر جاتے ہیں۔اور بے اطمینانی ختم ہو جاتی ہے۔ کیا یہ اثرات عمر کے ہر حصے میں مر تب ہو سکتے ہیں ؟نیز یہ کہ ساٹھ بر س کی عمر میں یہ مشقیں دل و دماغ کے لئے نقصان دہ تو نہیں ہو ں گی ؟ لِلہ آپ مجھے ان مشقوں کی اجازت مر حمت فر ما دیں ۔
ایک سوال اور پو چھنا چا ہتاہوں ۔
کیا ہمارے خیالات کا تبا دلہ انسانوں کی طرح جنات ، فر شتوں ، حیوانات سے بھی ہو تا ہے ، نیز کیاہم اپنے تفکر سے عالم ِاسباب کے علاوہ دو سرے نظام شمسی میں بھی تصرف کر سکتے ہیں اور کیا روشنیاں (خیالات)اپنی ایک الگ طبیعت اور ماہیئت اور رحجانات رکھتی ہیں ؟
جواب : بابا تاج الدین ناگپوری ؒ صرف خصوصی مسائل ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جا تے تھے جو براہ راست قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں بعض اوقا ت اشاروں اشاروں میں ہی وہ ایسی بات کہہ جا تے تھے جس میں کرامتوں کی علمی تو جیہہ ہو تی اور سننے والوں کی آنکھوں کے سامنے یکبارگی کرامت کے اصولوں کا نقشہ آجا تا ۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہو تا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں رو شنی کی لہریں منتقل ہو رہی ہیں اور ایسا بھی ہو تا ہے کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین من و عن ہر وہ بات ذہن میں سمجھتے اور محسوس کر تے جا رہے ہیں جو بات نانا رحمتہ اللہ علیہ کے ذہن میں اس وقت گشت کر رہی ہے ۔بغیر تو جہ دئیے بھی ان کی غیر ارادی توجہ لوگوں کے اوپر عمل کر تی رہتی تھی بعض لوگ یہ کہا کر تے تھے کہ ہم نے بابا صاحب نے اس طر ز ِذہن سے بہت زیادہ فیضان حاصل کیا ہے ۔یہ بات تو بالکل ہی عام تھی کہ چند آدمیوں کے ذہن میں کو ئی بات آئی اور نانا رحمتہ اللہ علیہ نےاس کا جواب دے دیا ۔
انسان، فرشے اورجنات:
مرہٹہ راجہ رگھو راؤ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتاتھا۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کوئی درخواست کرتا توا س طرح جیسے دیوتاؤں کے حضور میں۔ ایک مرتبہ انہوں نے راجہ کے مندر کا بت توڑ ڈالا ۔ پجاریوں نے شور مچادیا۔ لیکن راجہ صورتِ حال سے بالکل متاثر نہیں ہوا۔ محل والوں کی شکایت پر راجہ نے مسکراکر فقط ایک جملہ کہا۔" باباصاحبؒ بھی دیوتا ہیں۔ یہ معاملہ دیوتاؤں کا ہے، آپس میں خود نمٹ لیں گے۔ ہماراتمہارا بولنا بے ادبی ہے۔" اس جملہ سے محض راجہ کی عقیدت کا ہی نہیں اس طرزِ فکر کا بھی اندازہ ہوتاہے جو روحانی شخصیتوں کے بارے میں راجہ کے ذہن میں تھی۔ جو لوگ روحانی قدروں سے کچھ بھی مانوس ہیں وہ اتنا ضرور جا ن سکتے ہیں کہ راجہ مخفی علوم سے مس رکھتاتھا اور اس کے اندرفیضان حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ یہاں وہ چند باتیں پیش کر نا بھی ضروری ہیں جو میری موجودگی میں راجہ اورنانا رحمۃ اﷲعلیہ میں ہو اکرتی تھیں۔ ان اوقات میں کوئی اورصاحب بھی سوال کرلیا کرتے اور پوری مجلس جواب سے مستفیض ہوتی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال کیا۔ " بابا صاحبؒ ! ایسی مخلوق جونظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات ، خبر متواتر رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں بدروحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلی اور علمی توجیہات نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتاہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ہم سمجھ گئے۔ تجربات جو کچھ زبان زدہیں، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ آپ اس مسئلہ پر کچھ ارشاد فرمائیں۔"
نانا رحمۃاﷲ علیہ نے اس باب میں کچھ فرمایا وہ فقط تبصرہ نہیں بلکہ میرے اندازے میں ایسے الہامات کا مجموعہ ہے، قدرت نے ان کی ذات کو جن کا مرکز بنایا تھا۔ صاحبِ فراست انسانوں کے لئے یہ ملفوظات حد درجہ محلِ تفکر ہیں۔ ان کے جواب سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ قدرت اوران کے ذہن کی سطح قریب قریب ایک ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مسئلہ کی وضاحت جن خیالات کے ذریعے کی گئی ہے وہ قدرت کے رازوں میں کس طرح سمائے ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سوال کیا گیا۔ نانا تاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی۔ فرمانے لگے۔ "میاں رگھو راؤ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں، ہم آسمانی دنیاسے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیاسے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ تو یہ قطعاً نہیں سوچتاکہ اس دعوےٰ کے اندر حقیقت ہے یا نہیں فرمایا۔" جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو، پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتاہے کہ میں بہت کچھ جانتاہوں۔ یہ چیزیں دورپرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں۔ ان پر بھی نظر ڈالتے جاؤ۔ دن طلوع ہوتاہے۔ دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے۔ اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوعِ انسانی کایہی تجربہ ہے۔
ٍ میاں رگھوراؤ، ذرا سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہوجائے گا؟ دن رات ، فرشتے نہیں ہیں، جنات نہیں ہیں، پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فردواحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے ، اس لئے قابلِ یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ نگاہ اور فکر کا عمل ظاہر ہے۔ دراصل سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کرلو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اوراندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اوربصارت دیتاہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا لقیاس ہرذی ہوش تفکرہے۔
ٍ فرمایا کہ اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آجاتاہے جہاں کائنات کے کئی رازمنکشف ہوجاتے ہیں۔ غور سے سنو، ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہر سے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں اور جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے۔ فرشتے اورجنات۔ ان سے انسان کا تفکراسی طرح متاثر ہوتارہتاہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتاہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لا متناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے ۔ ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرزِ عمل کا ایک جزوہے۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں توربط ٹو ٹ جائے گا اور کائنات منہدم ہوجائے گی۔
ثبوت یہ ہے کہ ہماراتفکر ہیولیٰ اورہیولیٰ قسم کے تمام جسموں سے فکری طورپر روشناس ہے۔ ساتھ ہی ہمارا تفکر نور اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طورپر روشناس ہے حالانکہ ہمارے اپنے تفکر کے تجربات پابہ گِل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ہیولیٰ اورنور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے ہیں۔
عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتاہے اور انا یاتفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتاہے کہ جن کو مجموعی طورپر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اورذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یاتو بالکل نہیں آتی یابہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلۂ خیال ہوتا رہتاہے۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں بھی بہت کچھ دیتی ہیں اورہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلۂ خیال کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ اورتبادلۂ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔"
نانا تاج الدین اس وقت ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے کہکشانی نظاموں اورہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اوران کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویرخانوں کو ہم اپنی زبان میں توہّم ، خیال، تصوراورتفکر وغیرہ کانام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطۂ مشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطۂ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتاہے۔ یہ علم نوع اورفرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتاہے تصویرخانے اس ہی اسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرزِ عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ قرآنِ پاک میں انسان، فرشتہ اورجنات کے نام سے کیاگیاہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیاہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کا رکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہوکر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کرکے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔
میں یہ کہہ چکا ہوں کہ تفکر ،انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر یہ انا، تفکر اورشخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمارکیفیات کی شکلوں اورسراپا سے بنی ہیں۔ مثلاً بصارت ، سماعت، تکلم، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اورسراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہوگئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیت کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تاہم ہرنوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔
انسان لاشمار سیّاروں میں آبادہیں۔ اوران کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اورجنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں،جنات ہوں یا فرشتے ، ان کے سراپاکا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جلی ہوتی ہے یاخفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آجاتی ہے، خفی ہوتی ہے تو لاشعورمیں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع وایجاد کہتاہے لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے۔ حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔ یہاںیہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ البتہ یہ مظاہر محض انسانی لاشعور کی پیدا وار نہیں ہیں۔ انسان کا خفی کائنات کے دوردراز گوشوں سے مسلسل ربطہ قائم نہیں رکھ سکا۔ اس کمزوری کی وجہ نوعِ انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ اس نے اپنے تفکر کو کس مقصد کے لئے پابہ گل کیا ہے یہ بات اب تک نوعِ انسانی کے شعور سے مارواء ہے۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہاہے ، اس کا تقاضہ کوئی ایسی مخلوق پورانہیں کر سکی جو زمانی ، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست وپا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اس کے خالی گوشوں کو مکمل کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ چنانچہ کائناتی تفکر سے جنات اورفرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تاکہ خلاپر ہوجائے۔ فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رونما نہیں ہوسکے جن سے کائنات کی تکمیل ہوجاتی۔
کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑاہونا ہی تغیر کہلاتاہے۔ دراصل زمان اورمکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دخان جس کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے اس مخلوط کا نتیجہ اورمظاہر کی اصل ہے۔یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتاہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اورجنات منفی کی پیداوار ہیں۔ رہا فرشتہ ، ان دونوں کے ملخص سے بناہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب وشہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموّج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعور اور لاشعور حیات سے دور نابود میں گم ہوجاتاہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب وغریب کرشمہ برسرِ عمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کانام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنتے ہیں۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہوجائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتاہے۔ اگرکسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہوجائے تو اس میں ثقلِ وزن پیدا ہوجاتاہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتاہے اور منفی کے زور پر جنات کی ۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہوجائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔
طریقِ کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقدار کم کرکے فرشتوں کی طرح زمانی مکانی فاصلوں سے وقتی طورپر آزاد ہوسکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔
شیر کی عقیدت:
ایک دن واکی شریف کے جنگل میں پہاڑی ٹبّے پر چند لوگوں کے ہمراہ چڑھتے چلے گئے۔ نانا رحمۃ اﷲعلیہ مسکرا کر کہنے لگے۔"میاں جس کو شیر کا ڈرہو وہ چلاجائے، میں تو یہاں ذراسی دیر آرام کروں گا۔ خیال ہے کہ شیر ضرور آئے گا۔ جتنی دیر قیام کرے اس کی مرضی ۔ تم لوگ خواہ مخواہ انتظار میں مبتلا نہ رہو۔ جاؤ کھاؤ پیو اور مزہ کرو۔"
بعض لوگ اِدھر اُدھر چھپ گئے اورزیادہ چلے گئے۔ میں نےحیات خاں سے کہا ۔ کیا ارادہ ہے ۔ پہلے تو حیات خاں سو چتارہا۔ پھر زیرِ لب مسکرا کرخاموش ہوگیا۔تھوڑی دیربعد میں نے پھر سوال کیا۔ "چلتاہے یا تماشا دیکھناہے۔"
"بھلا باباصاحب کوچھوڑکے میں کہاں جاؤں گا!" حیات خاں بولا
گرمی کا موسم تھا۔ درختوں کا سایہ اور ٹھنڈی ہو ا خمار کے طوفان اٹھا رہی تھی۔
تھوڑی دور ہٹ کر میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے لیٹ گیا۔ چند قدم کے فاصلے پر حیات خاں اس طرح بیٹھ گیا کہ نانا تاج الدینؒ کو کن انکھیوں سے دیکھتا رہے۔
اب وہ دبیز گھاس پر لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں بندتھیں۔ فضا میں بالکل سنّاٹا چھایا ہواتھا۔
چند منٹ گزرے تھے کہ جنگل بھیانک محسوس ہونے لگا۔ آدھ گھنٹہ پھر ایک گھنٹہ ۔ اس کے بعد بھی کچھ وقفہ ایسے گزر گیا جیسے شدید انتظار ہو۔ یہ انتظار کسی سادھو، کسی جوگی ، کسی ولی ، کسی انسان کا نہیں تھا بلکہ درندہ کا تھا جو کم ازکم میرے ذہن میں قدم بقدم حرکت کر رہاتھا۔ یکایک نانا رحمۃاﷲعلیہ کی طرف نگاہیں متوجہ ہوگئیں۔ ان کے پیروں کی طرف ایک طویل القامت شیر ڈھلان سے اوپر چڑھ رہا تھا ۔ بڑی آہستہ خرامی سے بڑے ادب کے ساتھ۔
شیر نیم واکی آنکھوں سے نانا تاج الدینؒ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ذرا دیر میں وہ پیروں کے بالکل قریب آگیا۔
نانا گہری نیند میں بے خبر تھے۔ شیر زبان سے تلوے چھورہاتھا۔ چند منٹ بعد اس کی آنکھیں مستانہ واری سے بند ہوگئیں۔ سرزمین پر رکھ دیا۔
نانا تاج الدینؒ ابھی تک سورہے تھے۔
شیر نے اب زیادہ جرأت کرکے تلوے چاٹنا شروع کردیئے۔ اس حرکت سے نانا کی آنکھ کھل گئی۔ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ شیر کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کہنے لگے تو آگیا۔ اب تیری صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میں تجھے تندرست دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اچھا اب جاؤ۔شیر بڑی ممنونیت سے دم ہلائی اور چلا گیا۔
میں نے واقعات پر بہت غور کیا ۔یہ بات کسی کو معلوم نہیں کہ شیر ان کے پاس آیا تھا۔ مجبوراًاس امر کا یقین کرنا پڑتاہے ، نانا اور شیر پہلے سے ذہنی طور پر روشناس تھے۔ روشناسی کا طریقہ ایک ہی ہو سکتاہے۔ انا کی جو لہریں نانا او رشیر کے درمیان ردوبدل ہوتی تھیں وہ آپس کی اطلاعات کا باعث بنتی تھیں۔ عارفین میں کشف کی عام روش یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جانور وں میں بھی کشف اسی طرح ہوتاہے۔ کشف کے معاملے میں انسان اور دوسری مخلوق یکساں ہیں۔
یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دورکرتے رہتے ہیں ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دوری کی ایسی مخلوق سے ہوتاہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہوں۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑا اپنی زندگی سے ملانا چاہتے ہیں تو ہزار کوشش کے باوجود ناکام رہ جاتے ہیں۔
لہروں میں ردو بدل کا قانون :
یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کر نا چا ہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے ہیں کر تے رہتے ہیں ان میں سے بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیرمتعین ہو تے ہیں ۔ان کا تعلق قریب اور دور ،کی ایسی مخلوق سے ہو تا ہے ۔جو کا ئنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہو ۔اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں ۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑ اپنی زندگی سے ملا تے ہیں تو ہزار کو شش کے با وجود نا کا م رہ جا تے ہیں ۔سائنس دان روشنی کوزیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں ۔ لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے ۔کہ زمانی مکانی فاصلے کو منقطع کر دے۔البتہ انا کی لہریں لا اتنا ہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں زمانی اور مکا نی فا صلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں ، بہ الفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں ان لہروں کے ذریعے زمانی اور مکانی فا صلے موجود ہی نہیں ہیں ۔ “روشنی کی لہریں جن فا صلوں کو کم کر تی ہیں انا کی لہریں ان ہی فا صلوں کو بجا ئے خود موجود نہیں جا نتیں ۔انسانوں کے درمیان ابتدا ئے آفر نیش سے بات کر نے کا طریقہ رائج ہے ۔آواز کی لہریں جن کے معنی متعین کر لئے جا تے ہیں سننے والوں کو مطلع کر تی ہے ۔یہ طر یقہ اس ہی تبا دلے کی نقل ہے ۔جو انا کی لہروں کے درمیان ہو تا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہو نٹوں کی خفیف سے جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ لیتے ہیں ۔یہ طر یقہ بھی پہلے طر یقہ کا عکس ہے ۔جانور آواز کے بغیر ایک دو سرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں ۔یہاں بھی انا کی لہریں کام کر تی ہیں درخت آپس میں گفتگو کر تے ہیں یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہو تی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہو تی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں ۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے ۔کنکروں ، پتھروں ، مٹی کے ذروں میں من وعن اسی طر ح تبا دلہ خیال ہو تا ہے۔( تذکر ہ تاج الدین بابا تصنیف قلندربابا اولیا ؒ )
درخت کی سر سبز شاخ آسانی سے مڑجا تی ہے اور ہم اپنی مر ضی اور منشاہ کے مطا بق اس میں لچک پیدا کر لیتے ہیں اس کے بر عکس سوکھی لکڑی کے ساتھ زور آزمائی کر نے سے کو ئی عمل حاصل نہیں ہوا قدرت کا یہ فیضان جا ری و ساری ہے اور اللہ کے قانون کے مطا بق ’جو لوگ اللہ کے لئے جدو جہد کر تے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اوپر اپنے راستے کھو ل دیتے ہیں ۔ “
آپ اس قانون کا سہا را لیکر ٹیلی پیتھی سیکھ سکتے ہیں ۔
انتساب ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج حاصل کر نا چاہتے ہیں اور ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور بھر یں گے ۔