Topics
جس طرح ورزش اور دیگر عملی طریقوں سے جسمانی خطوط میں تبدیلی پیدا کی جاتی ہے۔ اسی طرح مراقبہ کے ذریعے ذہنی حرکات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ خیالات یا ذہنی کیفیات ہمارے اوپر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اگر کسی خیال میں خوف و دہشت کا عنصر شامل ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ہاتھ پیروں میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ جسم بے جان محسوس ہوتا ہے۔ ذہنی پراگندگی میں مبتلا رہنے سے کوئی شخص اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو مجتمع نہیں کر پاتا۔
آرام کرنے کا مطلب صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی لیٹا رہے یا کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے جسمانی توانائی ضائع ہو لیکن آرام کی یہ تعریف نامکمل ہے۔ بہت سے افراد ظاہری اعتبار سے پر سکون دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اندرونی طور پر پریشان خیالی میں مبتلا رہتے ہیں، خیالات کے تانوں بانوں میں الجھے رہنے سے دماغ تھک جاتا ہے اور توانائی کا ذخیرہ تیزی سے خرچ ہوتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ذہنی یکسوئی تندرستی کے لئے ضروری ہے اور مسلسل پریشان رہنے سے بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ توانائی زیادہ مقدار میں خرچ ہونے سے قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔ اورا مراض حملہ کر دیتے ہیں۔
اعصابی قوت مضمحل ہو جائے تو دماغی افعال سست پڑ جاتے ہیں، قوی میں کمزوری آ جاتی ہے اور قوت حافظہ متاثر ہوتی ہے۔ قوت فیصلہ کم ہونے کی بناء پر زندگی کے مراحل میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ تجربات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ذہنی الجھاؤ کا نتیجہ بالآخر جسمانی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ ذہن کی پیچیدگی براہ راست اور بالواسطہ دل کے ا مراض، پتہ اور گردوں میں پتھری کا باعث بنتی ہے۔
متواتر ذہنی دباؤ سے اعصابی نظام میں ناقابل علاج شکست و ریخت بھی ہو سکتی ہے۔ منفی خیالات سے معدے کا السر، تیزابیت اور قبض لاحق ہو جاتا ہے۔
ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے لوگ ایسے ذرائع اختیار کرتے ہیں جن سے شعور وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے۔ مثلاً شراب نوشی، نشہ کی دوسری چیزیں اور نیند آور ادویات کے ذریعے دماغی سکون تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ ادویات ذہنی ساخت میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتیں جبکہ ایک خاص وقفے تک خود فراموشی طاری کر دیتی ہیں۔ ان ذرائع سے نہ صرف جسمانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اعصابی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور آدمی جلد بڑھاپے تک پہنچ جاتا ہے۔میڈیکل سائنس کے مطابق مسکن ادویات ’’ٹرانکو لائزرز‘‘ (Tranquilizers) کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروہ کو Major Tranquilizerاور دوسرے گروہ کو Minor Tranquilizerکہا جاتا ہے۔
نفسیاتی امراض مثلاً سائیکوسس(Psychosis) جس میں زندگی پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ ہر کام میں منفی پہلو زیادہ ہوتا ہے، بند کمرے میں مریض آرام محسوس کرتا ہے۔ گھر والوں اور عزیز رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ کسی کے سامنے آنے سے مریض کتراتا ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے، سخت گرمی اور حبس میں بھی دروازے کھڑکی بند رکھتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ شدید گرمی اور رطوبت کے زمانے میں بھی مریض لحاف اوڑھ کر سویا رہتا ہے۔ کھانا کھانے سے برائے نام دلچسپی رہ جاتی ہے۔ غذا کی کمی کی وجہ سے جسم لاغر اور بعض اوقات ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔
شیزوفرینیا:
اس کیفیت میں مریض کے شعور پر لاشعور کا اتنا دباؤ ہو جاتا ہے کہ مریض کو ماورائی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ وہ کبھی سایہ دیکھتا ہے اور کبھی خود کو گوشت پوست کے جسم سے آزاد۔ سایہ کی صورت میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اڑنے کی صورت میں لذت کو حاصل کرنے کے لئے فلک بوس عمارتوں سے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ جب اس کی سماعت پر ماورائی حواس کا غلبہ ہوتا ہے تو اسے دور پرے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ خیالی دنیا میں خود کو قید کر لیتا ہے۔ اس کو بڑے بڑے خوبصورت باغ نظر آتے ہیں۔ اس خیالی باغ میں خود کو وہ چبوترے پر دیکھتا ہے۔ وہاں بے شمار لوگوں کے ہجوم کو اپنا منتظر پاتا ہے کبھی منفی جذبات کا اتنا تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ بھیانک مناظر دیکھ کر رونے لگتا ہے۔ غرض یہ کہ حواس میں ایک عجیب انتشار پیدا ہو جاتا ہے۔ کبھی بہت ہوشیار، مستعد، ذہین آدمی کے روپ میں ہوتا ہے اور کبھی Senslessباتیں کرتا ہے۔
مینیا:
جب آدمی پر دیوانگی کا دورہ پڑتا ہے، ابتداء کسی طرح ہو۔ خواہ تھوڑا تھوڑا یا اچانک۔ اس میں ہمیشہ ام الدماغ کے اندر رو کا ہجوم ہو جاتا ہے اور چونکہ ان کے نکلنے کا راستہ نہیں ہوتا لہٰذا دباؤ کی بنا پر خلیوں کے اندر کی دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں اور راستہ کہیں کہیں سے زیادہ کھل جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ خلاء قطعی نہ ہو۔ اکثر خلیوں میں رو صفر کے برابر ہو جاتی ہے تو آدمی بیٹھے بیٹھے بالکل بے خیال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مرض نہیں ہے لیکن ام الدماغ میں جب ایسا خلاء واقع ہوتا ہے تو خلیوں میں ایک سمت رو کا تصرف بہت بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہ خلیے کسی قسم کی یادداشت سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آدمی پرانے واقعات یاد کرنا چاہتا ہے۔ بار بار یاد کرنا چاہتا ہے لیکن یاد نہیں آتے۔ ایک طرف تو یہ ہوتا ہے اور دوسری طرف رو کا اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح خلیوں کی رو میں جو ترتیب ہونی چاہئے وہ نہیں رہتی بلکہ اس میں ایسی بے قاعدگی ہو جاتی ہے کہ مریض ایک بات زمین کی کہتا ہے ایک آسمان کی۔ کبھی وہ پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی بادشاہ بن جاتا ہے۔
زیادہ اثر ہونے سے کپڑوں سے بھی آزاد ہو سکتا ہے۔ کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ جب چلنے پر آتا ہے تو میلوں میل چلتا رہتا ہے۔ دوڑ دوڑ کر چلتا ہے جسم پر کسی قسم کی تھکان کے اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ ماحول اور دنیا و مافیہا سے آزاد، سوچوں میں گم، خلاء میں گھومتا رہتا ہے۔ دنیاوی زندگی کی ترتیب قائم نہیں رہتی۔ آرام و آسائش کا احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ جسم میں اتنی زیادہ انرجی ذخیرہ ہو جاتی ہے کہ لوہے کی زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے۔ پاگل پن کا مریض جب بولنا شروع کرتا ہے، بولتا رہتا ہے لیکن باتوں میں کوئی ربط نہیں ہوتا۔ آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک اور ماورائیت آ جاتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل بہت زیادہ محدود ہو جاتا ہے۔
سائیکوسس، شیزوفرینیا اور مینیا میں میجر ٹرانکو لائزر اور مائنر ٹرانکو لائزر دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں جن سے مندرجہ ذیل Side Effectsرونما ہوتے ہیں۔
منہ خشک ہو جاتا ہے، نظر دھندلا جاتی ہے، بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، وزن بڑھ جاتا ہے، خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یرقان کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ مریض کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے، رعشہ کا مرض لاحق ہو جاتا ہے، گھبراہٹ، خوف، بے چینی اور کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے اور بھوک کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات مریض دواؤں کے منی اثرات سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے کئی دیگر سائڈ افیکٹس ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں مریض’’کوما‘‘ میں بھی جا سکتا ہے۔ مائنر ٹرانکو لائزر دوائیں، ذہن کو پرسکون رکھنے کے لئے استعمال کرائی جاتی ہیں۔
ان ادویات کا ایک بہت مضر اثر یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ آدمی ان کا عادی ہو جاتا ہے اور زیادہ عرصہ استعمال سے خوراک کی مقررہ مقدار اپنا اثر کھو دیتی ہے اور خوراک کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ مسکن ادویات کو فوری طور پر چھڑانا نہیں چاہئے کیونکہ فوری طور پر دوائیں بند کرنے سے مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور بے خوابی، رعشہ، متلی کا احساس، پورے جسم میں درد، ارتکاز توجہ کی کمی جیسے امراض ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس معالج کی نگرانی میں مراقبہ کے ذریعے علاج سے سکون ملتا ہے اور فاسد خیالات کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور خیالات کے بہاؤ میں تسلسل پیدا ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے ذہن اور روح کا قدرتی تعلق بڑھ جاتا ہے اور انسان روح سے توانائی کی نئی لہریں حاصل کرتا ہے۔ اس وقت دماغی کیفیات بیداری اور خواب کے عام وقتوں سے الگ ہوتی ہے۔ چنانچہ اعصابی نظام میں واقع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو نارمل ہونے کا بہترین موقع ملتا ہے۔
جسمانی لحاظ سے ہمارے اندر دو نظامکام کرتے ہیں۔ ایک سمپیتھیٹک سسٹم (Sympathetic System) اور دوسرا پیرا سمپیتھیٹک سسٹم (Parasympathetic System) اول الذکر نظام دل کی دھڑکن کی تیزی، خون کی رفتار کی تیزی اور آنکھوں کی پتلیوں کے پھیلنے کو کنٹرول کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے نظام کے تحت دل کی دھڑکن کا آہستہ ہونا، خون کی رفتار کا کم ہونا۔ پتلیوں کا سکڑنا اور جسم کے مختلف مادوں کی حرکات وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ یہ Systemہمارے ارادے اور اختیار کے بغیر کام کرتا ہے مثلاً ہم سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اگر سانس روک بھی لیں تو کچھ وقفے کے بعد دوبارہ سانس لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دل کی رفتار پر بھی ہمیں اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ فی زمانہ طبی ماہرین اور ماہرین علم النفس اس بنیاد پر کام کر رہے ہیں کہ مختلف طریقوں اور مشقوں سے اگر ہم Parasympathetic Systemکی حرکات پر اثرات مرتب کر سکیں تو ہم بیماریوں کا کامیابی سے دفاع کر سکیں گے اور بہت سے امراض کا خاتمہ آسانی سے ہو جائے گا۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے ’’بائیو فیڈ بیک‘‘(Bio Feed Back) نامی طریقہ ایجاد کیا ہے جس پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مراقبہ کے ذریعے Parasympathetic Systemپر حسب منشاء اثرات مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ مراقبہ اس نظام میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے۔ مراقبہ کی کیفیت گہرے سکون اورٹھہراؤ میں لے جاتی ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اوپر عام طور پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ ذہن زیادہ دیر تک ایک جگہ نہیں ٹھہرتا۔ مراقبہ سے نہ صرف قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ تجربات اور مشاہدات نے ثابت کر دیا ہے کہ مراقبہ سے مندرجہ ذیل جسمانی اور نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
* خون کے دباؤ پر کنٹرول
* قوت حیات میں اضافہ
* بصارت میں تیزی
* خون کی چکنائی میں کمی
* تخلیقی قوتوں میں اضافہ
* چڑچڑے پن میں کمی
* دل کی کارکردگی میں بہتری
* قوت سماعت میں اضافہ
* بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت
* ڈیپریشن اور جذباتی ہیجان کا خاتمہ
* پریشانی اور مشکلات میں آنے والے دباؤ میں کمی
* خون کے سرخ ذرات میں اضافہ
* قوت یادداشت میں تیزی
* بہتر قوت فیصلہ
* بے خوابی سے نجات اور گہری نیند
* ڈر اور خوف کے خلاف ہمت اور بہادری پیدا ہو جاتی ہے۔
* عدم تحفظ کے احساس اور مستقبل کے اندیشوں سے نجات مل جاتی ہے۔
* مراقبہ کرنے والے مرد اور مراقبہ کرنے والی خاتون کو وسوسے نہیں آتے۔
* حسد ختم ہو جاتا ہے۔
* مراقبہ میں کامیابی کے بعد، آدمی جادو ٹونے، بھوت پریت، آسیب اور منفی خیالات سے آزاد ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔