Topics
ہم جسے مادی زندگی کہتے ہیں وہ تمام کی تمام جسمانی اعمال و وظائف سے مرکب ہے۔ مثلاً ہمیں بھوک پیاس لگتی ہے تو ہم کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں اور غذا کو جسم و جاں کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح حصول معاش، وسائل کی فراہمی، خوشی اور غم کے تقاضوں کی تکمیل یہ سب افعال جسمانی حرکات پر مبنی ہیں۔ لیکن غور کیا جائے تو عقل رہنمائی کرتی ہے۔ جتنی بھی جسمانی حرکات ہیں وہ پہلے اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ نقطۂ زمین میں متحرک ہوتی ہیں اور جب یہ تمام حرکات واقع ہو چکتی ہیں تو جسمانی مشین ان حرکات کا اتباع کرتی ہے۔ جب ہمیں پیاس لگتی ہے تو پہلے پیاس کا تقاضہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ہم اس علم کی معنویت کے تحت پانی پینے کا ارادہ کرتے ہیں۔ جب پیاس کا علم اور اس کی تمام تفصیلات پوری توانائی کے ساتھ متحرک ہو جاتی ہیں تو ہمارا دماغ جسمانی اعضاء کو اس تقاضے کی تکمیل کا حکم دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جسم حرکت میں آ کر پانی پینے کا عمل پورا کرتا ہے اور تقاضے کی تکمیل ہو جاتی ہے۔
مثال:
جب کوئی شخص مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو مضمون کا خاکہ اور اس کی تمام تفصیلات پہلے اس کے ذہن میں مرتب ہو جاتی ہیں اور پھر مضمون نگار قلم کے ذریعے تمام تفصیلات کاغذ پر رقم کر دیتا ہے۔ اس تفصیل کو مضمون، کہانی یا افسانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔
پیاس کے تقاضے کی تکمیل ہو یا مضمون نگاری پہلے ہمارے ذہن میں پوری تفصیل کے ساتھ تصویر بنتی ہے۔ جسمانی مشین کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ تصویری فلم کو مادی خدوخال عطا کرے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ کوئی بھی عمل جب تک ذہنی خدوخال مرتب نہیں کرلیتا۔ جسم کی فعلیت یا جسم کی حرکات واقع نہیں ہوتیں۔
جسمانی فعلیت کو مادی دنیا اور ماوراء جسم حرکات کو روح کی دنیا کہتے ہیں۔ روح کی دنیا میں تمام احساسات تمام ابعاد بشکل علم وجود رکھتے ہیں۔ پانی پینے کی مثال اوپر دی گئی ہے۔ پیاس کا تقاضہ اور پانی پینے کا ارادہ جب ذہنی طور پر واقع ہوتا ہے تو کوئی شخص اس پورے عمل کو علم کے ابعاد (Dimensions) میں محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن یہ تحریکات جسمانی حرکات میں سامنے نہیں آتی۔ صرف ایک نقطہ میں ان کا ظہور ہوتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد جسم کا مظاہرہ سامنے آتا ہے۔
اس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ انسانی ذہن کی حرکات دو دائروں میں واقع ہوتی ہیں۔ پہلے دائرہ میں اطلاعات جسمانی فعلیت کے بغیر کام کرتی ہیں اور دوسرے دائرے میں اطلاعات فعلیت کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ جب جسم کی حرکت واقع ہوتی ہے تو کشش ثقل کے تمام قوانین روبہ عمل آ جاتے ہیں۔ لمحات ترتیب کے پابند ہو جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا لمحہ آتا ہے۔ جب تک دوسرا لمحہ نہ آئے تیسرا لمحہ نہیں آ سکتا۔ اس کے برعکس جب دوسرا دائرہ برسر عمل ہوتا ہے تو انسانی انا یا انسانی نفس کی حرکات کے لئے مادی جسم کا ساتھ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ اس وقت انسان کی انا لمحات کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔
مثال:
دماغ اطلاع دیتا ہے کہ جسمانی انرجی حاصل کرنے کے لئے روٹی کھانے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اس اطلاع کی تکمیل کرتے ہیں تو ہمیں تواتر اور تسلسل کے ساتھ کئی حد بندیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ہم گندم بوتے ہیں۔ کاٹ کر بالیوں سے علیحدہ کرتے ہیں۔ چکی پر پسواتے ہیں۔ آٹا گوندھ کر روٹی پکاتے ہیں اور پھر روٹی کھاتے ہیں۔ یہ مادی دماغ کی کارکردگی ہے۔ اس کے برعکس جب روحانی دماغ حرکت میں ہوتا ہے اور کسی چیز کے کھانے کی اطلاع وارد ہوتی ہے تو ہمیں کسی حد بندی سے گزرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جیسے ہی روحانی دماغ میں اطلاع آتی ہے کہ روٹی کھانا چاہئے۔ روٹی موجود ہو جاتی ہے۔
طبعی زندگی میں اس کی واضح مثال خواب دیکھنا ہے، جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو حواس بیرونی ماحول سے رشتہ قائم کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی محیج اعصاب کو حرکت دیتا رہتا ہے اور اس اشارے پر ہمارا جسم متحرک رہتا ہے۔ لیکن جب ہم سو جاتے ہیں تو جسمانی حرکات پر سکوت طاری ہو جاتا ہے لیکن انا یا نفس کا فعال کردار ختم نہیں ہوتا۔ خواب میں اگرچہ فرد کا جسم معطل ہوتا ہے لیکن وہ تمام حرکات و سکنات کو اپنے سامنے اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح بیداری میں دیکھتا ہے۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ وقت اور فاصلے کی تمام بندشیں ختم ہو جاتی ہیں اور کیفیات ایک نقطے میں سمٹ آتی ہیں۔ مثلاً ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ اپنے دوست سے باتیں کر رہے ہیں حالانکہ دوست دور دراز مقام پر رہتا ہے لیکن ہمیں بات کرتے وقت یہ احساس بالکل نہیں ہوتا کہ ہمارے اور دوست کے درمیان کوئی مکانی فاصلہ ہے۔
ہم رات کو گھڑی دیکھ کر ایک بجے سوتے ہیں۔ خواب کی حالت میں ایک ملک سے دوسرے ملک جا پہنچتے ہیں۔ واقعات کی ایک لمبی فلم کڑی در کڑی دیکھتے ہیں۔ اچانک بیدار ہو کر گھڑی دیکھتے ہیں تو چند سیکنڈ یا چند منٹ وقت گزرتا ہے۔ مادی جسم کے ساتھ یہ اعمال و حرکات واقع ہوں تو ہفتوں، مہینوں کے دن اور گھنٹوں سے گزرنا ہو گا۔ نیز ہزاروں میل کی مسافت طے کرنا ہو گی۔
نفس کی ایک صلاحیت جو بیداری اور خواب دونوں میں متحرک رہتی ہے۔ قوت حافظہ ہے۔ انسان زندگی کے ہر قدم پر اس قوت سے کام لیتا ہے۔ لیکن اس پر غور نہیں کرتا کہ بچپن کے زمانے کا تصور کیا جائے تو ایک لمحہ میں ذہن بچپن کے واقعات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اگرچہ ہم سالوں کا وقفہ گزار چکے ہیں۔ اور ہزار ہا تبدیلیوں سے گزر چکے ہیں لیکن ذہن جب ماضی کی طرف سفر کرتا ہے تو سالوں پر محیط عرصہ کو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں طے کر کے بچپن کے زمانے میں جا پہنچتا ہے۔ ہم ماضی کے واقعات کو نہ صرف محسوس کر لیتے ہیں بلکہ یہ واقعات اس طرح نظر آتے ہیں جیسے آدمی کوئی فلم دیکھ رہا ہے۔
کبھی کبھی احساسات کا فرق عام حالات میں بھی اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ شعور اس کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر کسی کام میں بہت زیادہ یکسوئی ہو جائے اور شعوری واردات ایک مرکز پر ٹھہر جائے تو یہ بات تجرباتی مشاہدہ بن جاتی ہے۔
مثال:
ہم کسی دلچسپ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوں تو مطالعہ میں اس قدر انہماک ہو جاتا ہے کہ وقت کی نفی ہو جاتی ہے۔ ہم مطالعہ سے فارغ ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ چند منٹ گزرے ہیں لیکن وقت بہت زیادہ گزر چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا انتظار کیا جائے تو منٹ گھنٹوں کے برابر لگتے ہیں۔
عام طور پر خواب کو حافظے میں جمع خیالات اور بے معنی تصورات کہا جاتا ہے۔ لیکن خواب کے تجربات اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ خواب محض خیالات کا عکس ہیں۔ جب سے نوع انسانی کے پاس تاریخ کا ریکارڈ ہے ہر خطے اور ہر قرن میں خواب کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ علم النفس کی تاریخ اور مذہب کے معاملات میں بھی خواب کو امتیازی مقام حاصل ہے۔ ہر طبقے اور ہر سطح کے فرد کو خواب دیکھنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر شخص اکثر و بیشتر سونے کی حالت میں کچھ نہ کچھ دیکھتا ہے۔ لیکن کبھی نہ کبھی وہ ایسا خواب دیکھ لیتا ہے کہ بیدار ہونے کے بعد اس کا تاثر فراموش نہیں ہوتا۔ بعض خواب اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ بیدار ہونے کے بعد ان کا اثر بیداری میں منتقل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو خواب میں کھائی ہوئی چیزوں کا ذائقہ بیدار ہونے کے بعد چند منٹ اور چند گھنٹوں تک اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسا بیداری میں کھانے کے بعد ہوتا ہے۔ جنس سے متعلق خواب دیکھنے کے بعد آدمی اس طرح ناپاک ہوجاتا ہے جس طرح بیداری میں جنسی تلذذ حاصل کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ بارہا یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ خواب میں دیکھا ہوا واقعہ چند دن یا چند مہینوں بعد بیداری میں من و عن اسی طرح پیش آ جاتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح آدمی ماضی کے ریکارڈ کو دہرا سکتا ہے اسی طرح وہ مستقبل کے تمثلات(زندگی کے نقوش) کو بھی پڑھ سکتا ہے۔ خواب کو رویاء کہا گیا ہے۔ آخری کتاب قرآن اور آسمانی کتابوں میں رویاء کا بالخصوص تذکرہ کیا گیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ رویاء ایسی ایجنسی ہے جس کی معرفت انسان کو غیب کا کشف حاصل ہوتا ہے۔ اور رویاء کی صلاحیت انسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔
حضرت یوسف ؑ نے خواب میں دیکھا کہ سورج، چاند اور گیارہ ستارے انہیں سجدہ کر رہے ہیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مستقبل میں آپ نبوت اور علم لدّنی سے سرفراز ہوں گے۔ شاہ مصر کے باورچی اور ساقی نے جو خواب دیکھے انہیں سن کر حضرت یوسف ؑ نے ان کے مستقبل کی پیشگوئی کر دی۔ شاہ مصر نے جو خواب دیکھا حضرت یوسف ؑ نے اس کے جواب میں قحط سالی اور پھر فراوانی غلہ کی پیشگوئی کی اور تمام باتیں اسی طرح پوری ہوئیں۔ جس طرح حضرت یوسف ؑ نے نشاندہی کی تھی۔ واضح رہے کہ ان خوابوں میں ایک خواب پیغمبر کا ہے اور تین خواب عام افراد کے ہیں۔ اور ان تینوں میں مستقبل کے حالات کا انکشاف موجود ہے۔
انسان کی روح یا انا ہمہ وقت حرکت میں رہتی ہے۔ جس طرح بیداری کا پورا وقفہ کسی نہ کسی حرکت سے عبارت ہے۔ اسی طرح خواب بھی حرکت ہے۔ انسان بیداری میں اپنی جسمانی حرکات سے واقف رہتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی شعوری دلچسپی بیداری سے قائم رہتی ہے۔ اس کے باوجود بیداری کے تمام واقعات اس کے حافظے میں ریکارڈ نہیں ہوتے۔ صرف وہ حالات یاد رہتے ہیں جو شعور پر کسی بھی وجہ سے اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔
مثال:
ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں۔ راستے میں کئی جگہیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور کتنی ہی جگہ گزرنے پر ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ جگہ جگہ سائن بورڈ دیکھتے ہیں۔ سڑک پر دوڑتی ہوئی ہزاروں گاڑیاں ہماری آنکھوں کے سامنے گزرتی رہتی ہیں۔ مناظر میں سرسبز و شاداب درخت، اور بڑے بڑے لان دیکھتے ہیں۔ اور جب دوسرے شہر میں پہنچ جاتے ہیں، تو کوئی ہم سے پوچھتا ہے کہ تم نے راستہ میں کیا کیا دیکھا ہے تو سفر میں دیکھے ہوئے مناظر کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم نے اگر کسی جگہ قیام کیا ہے۔ کوئی منظر غور سے دیکھا ہے تو ہم بیان کر دیتے ہیں۔ باقی باتوں کے بارے میں کہتے ہیں۔ ہم نے دھیان نہیں دیا۔ کلیہ یہ بنا کہ جن باتوں پر ہماری توجہ قائم ہوئی ہے۔ اسے ہمارا ذہن ریکارڈ کر لیتا ہے۔ لیکن جو باتیں محل توجہ نہیں بنتیں ذہن ان کا احاطہ نہیں کر سکتا۔
یہی کلیہ خواب میں بھی کام کرتا ہے۔ خواب میں خاکی حواس مغلوب ہوتے ہیں لیکن روح جن واردات و حوادث سے گزرتی ہے۔ انہیں ہمارا ذہن اس حد تک سمجھتا ہے جس حد تک اس کی دلچسپی ان سے وابستہ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خواب کے حصوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ جن پر دلچسپی کی بناء پر ہماری توجہ مرکوز ہو جاتی ہے اور جن واقعات پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ ان واقعات کی کڑیاں ملانے سے ہمارا شعور عاجز رہتا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شعور روح کی واردات کو مربوط حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اور روح کی حرکت شعور میں اس طرح سما جاتی ہے کہ ا س میں معانی پہنانا ذرا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ اس کو سچا خواب کہتے ہیں اور یہی حالت جب ترقی کرتی ہے تو کشف و الہام کے درجے میں پہنچ جاتی ہے۔
قدرت نے تمام مخلوقات بشمول انسان کو اس قانون کا پابند کیا ہے کہ کوئی فرد خواب کے حواس سے اپنا تعلق منقطع نہیں کر سکتا۔ انسانی زندگی کے مادی رخ کو برقرار رکھنے کے لئے خواب کے حواس میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اسی لئے ہر فرد نہ چاہتے ہوئے بھی روزانہ سونے پر مجبور ہے اور جب وہ خواب سے بیدار ہوتا ہے تو جسمانی حرکت کے لئے نئی توانائی اس کے اندر ذخیرہ ہوتی ہے۔
خواب کے حواس قدرت کا ایسا فیضان ہے جو ہر شخص کو حاصل ہے۔ انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
روحانی علم کی ابتداء اس بنیادی سبق سے ہوتی ہے کہ انسان محض گوشت پوست کے جسم کا نام نہیں ہے۔ جسم کے ساتھ ایک اور ایجنسی وابستہ ہے جس کا نام روح ہے اور جو اس جسم کی اصل ہے۔ انسان کی روح جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی ہے اور انسان کو اگر ملکہ حاصل ہو جائے تو وہ جسم کے بغیر بھی روحانی سفر کر سکتا ہے۔
روح کی یہ حرکت روزانہ غیر شعوری طور پر خواب میں واقع ہوتی ہے۔ دن رات میں کوئی وقت ایسا ضرور آتا ہے جب انسان طبیعت میں ایک دباؤ محسوس کرتا ہے۔ غیر ارادی طور پر حواس بوجھل ہونے لگتے ہیں۔ پپوٹوں پر بوجھ پڑتا ہے اور طبیعت نیند کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ ہم اس حیاتیاتی دباؤ سے مجبور ہو کر خود کو نیند کے حوالے کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور حواس بیداری کے ماحول سے دوری چاہتے ہیں۔ شعور ہر اس خیال کو رد کر دیتا ہے جو نیند میں مخل ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اعصاب پر سکوت طاری ہو جاتا ہے اور انسان غنودگی سے گزر کر ہلکی نیند اور پھر گہری نیند میں چلا جاتا ہے۔
یہ کیفیت حواس کی ایسی تبدیلی ہے جس میں انسان کی ارادی کوشش شامل نہیں ہوتی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خواب کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ خواب میں وہ جس واردات سے گزرتا ہے اس کے چند اجزاء حافظے میں ریکارڈ ہوتے ہیں باقی فراموش ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خواب کی کیفیت میں اس طرح داخل ہو جائے کہ شعور ہوشیار و بیدار ہو تو روح کی پرواز محسوساتی تجربہ بن جاتی ہے۔ اور انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ اسے یاد رکھ سکے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے سے خواب کی کیفیت خود پر طاری کر لے۔ مطلب یہ ہے کہ بیداری سے خواب میں داخل ہونے کا عمل جن طرزوں میں غیر ارادی طور پر واقع ہوتا ہے اسی طرز میں جب ارادہ استعمال کیا جائے گا تو انسان اختیاری طور پر خواب کے حواس میں داخل ہو جائے گا۔
اگر خواب اور بیداری کے حوالے سے مراقبہ کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ مراقبہ بیدار رہتے ہوئے خواب کی دنیا میں سفر کرنے کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر مراقبہ اس عمل کا نام ہے۔ جس میں آدمی خواب کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا شعور بیدار رہتا ہے۔ مراقبہ میں وہ تمام حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں جن سے کوئی شخص حواس کی تبدیلی کے وقت گزرتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے سانس کی رفتار آہستہ کر لی جاتی ہے۔ اعضائے جسمانی کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تا کہ جسم غیر محسوس ہو جائے۔ ذہنی طور پر انسان تمام افکار و خیالات سے ذہن ہٹا کر ایک تصور کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اگر مراقبہ کرنے والے کسی شخص کو دیکھا جائے تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک آدمی آنکھیں بند کئے سو رہا ہے۔ لیکن فی الحقیقت اس کا شعور اس طرح معطل نہیں ہوتا جیسا کہ خواب میں ہوتا ہے۔ چنانچہ مراقبہ میں آدمی بیدار رہتے ہوئے اس کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے جو خواب دیکھتے ہوئے طاری ہوتی ہے۔ جوں ہی شعوری حواس پر سکوت طاری ہوتا ہے۔ بیداری کے حواس پر خواب کے حواس کا غلاف چڑھ جاتا ہے۔ اس حالت میں آدمی اپنے ارادے سے ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو استعمال کر سکتا ہے جو خواب میں کام کرتی ہیں۔ ماضی، مستقبل، دوری نزدیکی، بے معنی ہو جاتی ہے۔ آدمی خاکی جسم کی تمام قیود سے آزاد ہو جاتا ہے۔
یہ صلاحیت ترقی کر کے ایک ایسے درجے میں پہنچ جاتی ہے کہ خواب اور بیداری کے حواس Parrallelہو جاتے ہیں اور انسانی شعور جس طرح بیداری کے معاملات سے واقف ہے اسی طرح خواب کی حرکات سے بھی مطلع رہتا ہے۔ چنانچہ وہ خواب کے حواس میں اپنی روح سے حسب ارادہ کام لے سکتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔
انتساب
غار حرا کے نام
جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ
قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔