Topics

تصور شیخ

کائنات اجرام سماوی، موالید ثلاثہ وغیرہ کتنی ہی مخلوقات اور موجودات کا مجموعہ ہے۔ کائنات کے تمام اجزاء اور افراد میں ایک ربط موجود ہے۔ مادی آنکھ اس ربط کو دیکھ سکے یا نہ دیکھ سکے اس کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں، دیکھنے سے ہمیں اس چیز کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور ہم اس کی صفات کو سمجھ لیتے ہیں یا سنتے ہیں تو اس چیز کی ذات اور صفات ہمارے اندر دور کرتی ہیں۔ ہم آگ کو دیکھتے ہیں، اس کا تصور کرتے ہیں، یا اس کا تذکرہ سنتے ہیں تو آگ کی صفات محسوسات بن کر ہمارے اندر سے گزر جاتی ہیں۔ یہ عمل بہت ہلکا ہو یا محض ادراک کی سطح پر ہو بہرحال ایسا ہوتا ضرور ہے۔ ہم آگ کے تصور کے ساتھ ساتھ گرمی اورروشنی کا احساس کرتے ہیں۔ سرسبز و شاداب درخت کو دیکھ کر یا کسی ہرے بھرے باغ کا تذکرہ سن کر ہمارے اندر فرحت، شگفتگی اور ٹھنڈک کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اسی قانون کے تحت جب ہم محمود کو دیکھتے ہیں یا محمود کا نام سنتے ہیں یا محمود کا تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے تو ہمارے ذہن میں لفظ ’’محمود‘‘ یا محمود کے ہجے نہیں آتے بلکہ محمود کی ذات اور شخصیت آتی ہے جو کتنی ہی صفات کا مجموعہ ہے۔

انسان کو علم و فن یا کسی صلاحیت کی منتقلی دو طرح سے عمل میں آتی ہے۔ ایک طرز میں اسے کسی استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے کر کے بیٹھنا پڑتا ہے اور استاد سبقاً سبقاً کوئی علم سکھاتا ہے۔ وہ الفاظ، تحریر اور عملی مظاہرات کی مدد سے تعلیم دیتا ہے اور شاگرد بتدریج اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرتا جاتا ہے۔ علم کی گہرائی اور وسعت نیز شاگرد کے ذوق و شوق کی مناسبت سے علم کی منتقلی میں ہفتوں، مہینوں اور بسا اوقات سالوں کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

منتقلی کی دوسری طرز میں الفاظ، تحریر یا کسی منظم مظاہرے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ علم یا صلاحیت صرف توجہ اور ذہنی تعلق کی وجہ سے منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال مادری زبان ہے۔

بچہ اپنی ماں یا ماحول کے دوسرے افراد سے تحریری یا زبانی کوئی سبق نہیں لیتا۔ محض تخلیقی ربط اور ذہنی قربت اور تعلق کی وجہ سے وہی زبان بولنے لگتا ہے جو اس کی ماں کی زبان ہوتی ہے۔ یا جو زبان اس کے ماحول کے افراد بولتے ہیں۔ وہ زبان کی ساخت، الفاظ اور جملوں سے بغیر بتائے وہی مطلب اخذ کرتا ہے جو دوسرے افراد سمجھتے ہیں۔ نہ صرف مادری زبان بلکہ دوسری بہت سی صلاحیتیں، عادات و اطوار بچے کو ماحول سے اس طرح منتقل ہو جاتے ہیں کہ بچے کو انہیں سیکھنے کے لئے شاگرد کا مروجہ کردار ادا نہیں کرنا پڑتا۔

روحانی علوم کی منتقلی میں بنیادی طور پر دوسری طرز کام کرتی ہے۔ شاگرد اور استاد کے درمیان روحانی اور قلبی رشتہ کی بدولت استاد کے علوم، استاد کی طرز فکر اور انوار شاگرد کو منتقل ہوتے رہتے ہیں اور شاگرد کا شعور ان چیزوں کے مفہوم کو بتدریج سمجھتا رہتا ہے۔ روحانی استاد ثانوی طور پر روحانیعلوم کو درجہ بندی کے ذریعے، اسباق کی صورت میں اور مظاہرات کی شکل میں شاگرد سے متعارف کراتا ہے تا کہ شعور تریب وار اسے یاد رکھنے کے قابل ہو سکے۔

شاگرد کے دل میں استاد کی محبت اور عشق، شاگرد کے ذہن کو آب و تاب بخشتا ہے۔ جب شاگرد استاد کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو اس سے سوال جواب کرتا ہے، استاد کے ارشادات سے مستفیض ہوتا ہے اس کی قربت میں موجود رہتا ہے تو اوپر بیان کئے گئے تخلیقی قانون کے مطابق استاد کی شخصیت اپنی تمام صفات کے ساتھ شاگرد کے اندر دور کرتی رہتی ہے۔ اسی لئے روحانی استاد کی خدمت میں حاضر باش رہنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

اسی قانون کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاگرد استاد کی شخصیت کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے تصور کی قوت سے کام لے۔ اس بات کے لئے روحانی استاد کا تصور کرایا جاتا ہے تاکہ تصور کے ذریعے استاد سے قائم ذہنی تعلق توانا ہو جائے۔ چنانچہ جب کوئی شاگرد اپنے روحانی استاد کا تصور کرتا ہے تو استاد کی صفات اور استاد کی صلاحیتیں اس کی روح میں گردش کرنے لگتی ہیں۔ جتنی دیر وہ استاد کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ استاد کی صفات اور اس کے انوار شاگرد کے ذہن کی سطح پر عکس ریز ہوتے رہتے ہیں۔ تصور کی مسلسل مشق سے شاگرد کے اندر ایک ایسی کیفیت راسخ ہو جاتی ہے جس سے اس کا روحانی ربط ہر وقت استاد کی ذات سے قائم ہو جاتا ہے۔ استاد کے اندر معرفت الٰہیہ کی صلاحیت مسلسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب شاگرد اپنے استاد کا عکس بن جاتا ہے۔ اس مقام کو تصوف میں ’’فنا فی شیخ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور روحانی استاد کے تصور کو تصور شیخ کہتے ہیں۔روحانی استاد کا تصور کئی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔

1۔ شاگرد مراقبہ میں یہ تصور کرتا ہے کہ اس کا استاد سامنے موجود ہے۔

2۔ یہ تصور کرتا ہے کہ استاد اس پر توجہ کر رہا ہے اور انوار و برکات لہروں کی صورت میں اس کے اندر جذب ہو رہے ہیں۔

3۔ استاد کی ذات اس کے وجود پر محیط ہے۔

4۔ وہ ہر وقت اور ہر آن خود کو استاد تصور کرتا ہے گویا اس کی ذات استاد کی ذات ہے۔ یہ طریقہ تمام طریقوں میں اعلیٰ ترین 

ہے کیونکہ اس میں شاگرد اپنی ذات کی نفی کر دیتا ہے۔ 



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔