Topics
اذان حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے سے رائج ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا۔
’’تعمیر تو میں نے ختم کر لی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا۔
’’پروردگار عالم! میری آواز کہاں تک پہنچے گی؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’تم اعلان کر دو،پہنچانا میرے ذمے ہے۔‘‘
عرض کیا۔
’’کن الفاظ میں دعوت دوں؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’کہو۔۔۔لوگو! تم پر قدیم گھر کا حج کرنا فرض کر دیا گیا ہے تو آسمان اور زمین والوں نے سن لیا۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ وہ دور دور کے شہروں سے لبیک کہتے ہوئے کس طرح آتے ہیں۔‘‘
ایک اور روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ قبس پر چڑھ گئے اور انگلیاں اپنے کانوں میں رکھ لیں اور اعلان کیا۔
’’لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار کا حکم قبول کرو۔‘‘
تو روحوں نے مردوں کی پیٹھ میں اور عورتوں کے بطن میں لبیک کہا۔ پس قیامت تک حج کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعلان پر لبیک کہا۔
ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ ہم جب کسی سے ہمکلام ہونا چاہتے ہیں تو اسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ متوجہ کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ کوئی چیز بجا کر متوجہ کیا جائے، آواز دے کر متوجہ کیا جائے، کسی کے ذریعے پیغام بھیج کر متوجہ کیا جائے یا ذہنی اور روحانی طور پر ارتکاز توجہ کے ساتھ متوجہ کیا جائے۔
ہر مذہب میں اپنے پیروکاروں کو متوجہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ رائج ہے۔ کہیں گھنٹہ اور گھڑیال بجا کر لوگوں کو پرستش اور عبادت کے لئے جمع کیا جاتا ہے تو کہیں سنکھ بجا کر پجاریوں کو پوجا پاٹ کی دعوت دی جاتی ہے اور لوگوں کو ایک مرکز پر جمع کیا جاتا ہے۔
نوع انسانی میں جو چیز رائج ہو جاتی ہے وہ برقرار رہتی ہے۔ صرف طرزوں میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ اسلام نے امت مسلمہ کو ایک مرکز پر جمع کرنے اور اللہ کی پرستش کے لئے بلانے کا جو طریقہ وضع کیا ہے، اس کا نام ’’اذان‘‘ ہے۔ اذان اپنی جگہ عبادت بھی ہے۔ اسلام نے اللہ کے نام کے منادی کرنے والوں کو عزت سے سرفراز کیا ہے۔ ایک آدمی صاف ستھرے لباس کے ساتھ ایک اونچے مقام پر کھڑا ہو کر ادب و احترام کے جذبے سے سرشار یہ آواز بلند صدا لگاتا ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہ اَکْبَرْ پھر وہ اللہ کی بادشاہی اور حاکمیت کی شہادت دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی گواہی دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے دائیں بائیں اعلان کرتا ہے ،نماز خیر و برکت ہے، نماز فلاح دارین ہے۔ یہ اعلان اللہ کی بڑائی سے شروع ہوتا اور اللہ کی عظمت و رحمت پر ختم ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اذان سے یہ بات پوری طرح واضح کر دی جاتی ہے کہ ہر کام کی ابتداء اور ہر کام کی انتہا اللہ ہے۔
اذان دینے والا بندہ خوش الحان ہونا چاہئے۔ اس کے دل و دماغ روشن اور پاکیزہ ہونے چاہئیں اس لئے کہ آواز کے ساتھ جذبات بھی نشر ہوتے ہیں۔ اگر مؤذن کے جذبات لطیف نہیں ہیں اور اس کا دماغ محلہ سے آنے والی خوراک اور روٹیوں میں ملوث ہے تو ایسے آدمی کا ذہن گداز سے خالی ہو گا اور جب ذہن میں گداز نہیں ہو گا تو آواز کے صوتی اثرات دوسرے لوگوں کو متاثر نہیں کریں گے۔ نمازیوں کے اوپر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ مؤذن کو اس کے شایان شان درجہ دیں اور اس کی عزت و تکریم میں کمی نہ آنے دیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔