Topics
۲۴۔ نومبر
: آج سے چو تھے سبق کا آغاز کیا اللہ تعالیٰ کے فضل و
کر م سے تصور قائم ہو گیا میں نے دیکھا کہ روشنیوں کا آبشار میرے اوپر گر رہا ہے
اور یہ رو شنیاں میرے اندر سے جذب ہو کر پیروں کے ذریعے
EARTHہو رہی ہیں۔ جس وقت رو شنیاںسر میں جذب ہو
تی ہیں ا س کا رنگ نیلا ہو تا ہے اور جب زمین میں ارتھ ہوتی ہیں تو بے رنگ ہو جا
تی ہیں ۔ یوں سمجھئے کہ رنگین لہروں کا رنگ میرے جسم میں پیو ست ہو جا تا ہے کچھ
دیر بعد دیکھا کہ میں ایک گلوب میں ہوں اور اس گلوب کے اندر نیلا رنگ بھرا ہوا ہے
۔ یکا یک ایک وسیع و عریض گنبد پر نظر پڑی جس کا رنگ سبز تھا ۔
صبح کی مشق کے دو ران دیکھا کہ میرا
سر کھل گیا اور رو شنیوں کے دو مجسم پرت میرے سراپا میں داخل ہو گئے اور انہو ں نے
میرے اندر صفا ئی شروع کر دی پھر یہ مجسم پرت روشنی میں تحلیل ہو کر پیروں کے راستے باہر نکل گئے ۔ روحانی یا جسمانی
صفائی کے بعد نیلی شعاعیں تیزی کے ساتھ میرے جسم میں داخل ہو نے لگیں ۔
۲۵۔ نومبر
: مشق کے دوران گنبد کی طر ف خیال چلا گیا ۔ دیکھا کہ جو
رو شنیاں نیچے آرہی ہیں وہ اصل میں سفید رنگ کی ہیں لیکن گنبد سے گزرتے ہی نیلی
ہو جا تی ہیں یہ بھی دیکھا کہ گنبد کی چھت پر رنگوں کے دائرے بنے ہو ئے ہیں ۔پہلا
دائرہ بڑے قطر کا ہے پھر اس سے چھو ٹا پھر دائروں کے قطر بتدریج چھوٹے ہو تے چلے
گئے ۔ان دائروں میں مو تی اور خوبصورت پتھر جڑے ہو ئے ہیں پھر دیکھا کہ گر تی ہو ئی روشنیوں کا رنگ وقفے قفے سے تبدیل
ہو رہا ہے اور میرا جسم مقنا طیس کی طر ح کھینچ کر اس کو اپنے اندر جذب کر رہا
ہے ۔
۲۷۔ نومبر
: دیکھا کہ کو ئی چیز گنبد کی چھت پر بیٹھ گئی اور اس کو
ہلانا شروع کر دیا ۔ گنبد کا ہلنا تھا کہ گر ی ہو ئی رو شنیوںمیں شدت پیدا ہو گئی۔
رو شنی کی اس مو سلا دھار با رش کو میں اپنے جسم پر محسوس کر رہا تھا ۔اور کبھی
کبھی میرے اوپر کپکپی کی کیفیت طا ری ہو جا تی تھی ۔ذہن میں سوال پیدا ہو ا کہ یہ
رو شنیاں کہاں سے آتی ہیں ؟ پتہ چلا کہ گنبد کی چھت پر ایک اینٹینا کاٹاور ہے جو فضا سے روشنیوں کو جذب کر کے
دائروں اور موتیوں کے ذریعے گنبد کے اندر بکھیر رہا ہے ۔
۲۔ ستمبر : طر ح طر ح کے خوبصورت
مناظر دیکھے ۔۔۔عالیشان عمارتیں باغات ، پھول ، پودے تالاب ، یہ سب ٹرا سپیرنٹ تھے
ہر طرف روشنیوں کا دور دورہ تھا۔
محمد سلیم قریشی ، لاہور ۔۔۔
۸
۔ فروری
: پہلے سفید رو شنیوں کا جھما کے ہو تے رہے اس کے بعد زرد
رشنی کی لہریں دکھا ئی دیں پھر دیکھا کہ خا نہ کعبہ ہے لوگ طواف کر رہے ہیں ۔ اس
منظر کو میں نے کافی اونچائی سے دیکھا اس کے علاوہ اور بھی چیزیں نظر آئیں لیکن
یاد نہیں رہیں ۔ ایک دفعہ ایسا لگا کہ جیسے کمر کے نچلے حصے سے کو ئی چپکی ہو ئی
چیز نیچے اتر رہی ہے ۔
۱۵۔ فر وری
: پہلے زرد رنگ کی لہریں ناک کی طر ف سے آتی دیکھیں ۔ اس
کے بعد نظر آیا کہ بہت سے لوگ ایک قطار
میں نماز پڑ ھ رہے ہیں یکایک کسی نے زمین پر کو ئی چیز پھینکی اس کے چھینٹے ادھر
اُدھر بکھرے اور میں ان سے اپنا منہ بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اس کے بعد چھو ٹے
سائز میں سفید رنگ کی چمکدار خوبصورت لہریں ناک کے پاس سے گزریں ۔ لگ رہا تھا کہ
جیسے کا فی وقت گزر چکا ہے ۔ آج سر میں ہلکا سا درد ہو ا ۔
۱۲۔ فر وری
: آج زرد لہروں کو ساکت حالت میں دیکھا ، پھر دیکھا کہ سفید رنگ کے تختے ہیں اور ان پر کا لے رنگ سے کچھ کچھ لکھا ہوا ہے ۔
ملک حق نواز ۔۔۔
۲۰۔ فر وری
: مشق کے بعد سونے کے لئے لیٹا تو میرے دل سے کر نٹ نکل
کر سارے جسم میں سرا یت کر گیا اور جسم کی اس شدت سے تھر تھر کا پنے لگا ۔کے بعد
دیکھا کہ میرے سامنے سے اندھیرا چھٹ گیا ہے ۔
محمد لطیف، کر اچی ۔۔۔
۲۹
۔ اپر یل : مر اقبہ شروع کیا تو کا لے رنگ کے
دائرے نظر آئے لیکن کچھ ہی دیر بعد بائیں آنکھ کے اوپر ایک رو شن گو لہ نظر آیا
پھر ایک دم مجھے اپنے چاروں طر ف نور ہی نور نظر آیا پھر وقفے قفے سے نور کے
جھماکے ہو تے رہے ۔
ایم اے ، راولپنڈی ۔۔۔
۱۰
۔ مئی
: شیشے کا بنا ہواایک گنبد ہے اس میں سے روشنی نکل کر
میرے سر پر پڑ رہی ہے یکا یک ایسا محسوس ہو اجیسے کسی نے گنبد کو چھیڑ دیا ہو اور
لہر میرے سر میں سے ہو کر پیروں میں سے ہو تی ہو ئی زمین میں جذب ہو گئی ۔یہ کیفیت
تقریباً ۸۰ سیکنڈ قائم رہی ۔
۱۶۔ مئی
: دیکھا کہ سفید رنگ کا گنبد ہے اور اس کا رنگ تبدیل ہو
رہا ہے کبھی سبز ہو جاتا ہے کبھی نیلا ۔
۶۔ جنوری
: خدا خدا کر کے تصور قائم ہو ا ساتھ ہی تیسری مشق
کے دوران مرتب ہو نے والی کیفیات کا تصور بھی آتا رہا ۔دیکھا کہ جب
رو شنی میرے دماغ کے اندر جذب ہو تی ہے دماغ بھا ری ہو جا تا ہے اس کے بعد خود کو
ایک چاکور چیز میں پر واز کر تے دیکھا ۔ دوران مر اقبہ ایک بزرگ بھی دکھائی دیئے جو کبھی میری شکل کے بن جا تے اور میں کبھی
ان کی شکل کا بن جاتا۔ صبح کی نماز ادا کر رہا تھا تو محسوس ہوا کہ میں خلا میں
نماز ادا کر رہا ہوں ۔
۷
۔ جنوری
: آنکھوں کے سامنے سونے کے محل کی طر ح کو ئی چیز آگئی
۔ جس میں حضرت عائشہؓ کھڑی ہو ئی تھیں ۔ لیکن چہرہ مبا رک دوسری طر ف تھا ۔
۱۱۔ جنوری
: مراقبہ میں جا تے ہی غنو دگی چھا گئی ۔ اس عالم میں
خود کو ایک غار کے اندر دیکھا جسم میں کو ئی چیز بر قی رو کی طر ح گر دش کر تی رہی
۔سر کے دائیں جا نب کو ئی چیز سرکتی ہوئی اور ساتھ ہی کو ئی ٹھنڈی چیز دما غ میں
رینگتی ہو ئی محسوس ہو ئی پھر ایک خوبصورت با غ دکھائی دیا ۔اس کی چار
دیواری سونے اور چا ندی کی طرح تھی فرش کا رنگ سبز تھا پھر میں نے خود کو ایک گنبد
پر کھڑا دیکھا۔ ابھی گنبد پر ہی تھا کہ آسمان سے انسانی شکل کا ایک گر وہ میری
طرف آتا دکھائی دیا ۔ گنبد پر اتر کر انہوں نے کہا کہ ہم تم کو لینے آئے ہیں
اوران میں سے ایک بزرگ نے تخت پر مجھے اپنی طر ف کھینچ لیا۔ تخت تیزی سے پر واز کر
تا ہواآسمان پر جا پہنچا ۔وہاں پر بہت خوبصورت چیزیں دیکھیں ۔بہت سے لوگ بھی تھے
کو ئی کچھ کہہ رہا تھا کو ئی کچھ ان میں سے ایک رو ٹی کھا رہا تھا ۔اس نے مجھے بھی
رو ٹی دی ۔پھر وہ مجھے ایک چمکدار سفید کمر ے میں لے گیا اور کہا کہ یہ آپ کا
کمرہ ہے۔ کمرہ اتنا سفید تھا کہ اندر کی چیزیں دکھا ئی دیتی تھیں یعنی اس کی
دیواریں بالکل شیشے کی طر ح ٹرانسپیرنٹ تھیں ۔ میں کمرے کے اندر گیا ابھی دوسرے
دروازے کی طر ف جا نے ہی والا تھا کہ پا ؤں پھسل گیا ۔ اور وہاں بھی مجھے نیلی رو شنیاں ہی دکھا ئی دیں ۔ میں نے
آنکھیں کھولیں تو فو ری طور پر نہیں کھلیں ۔ آہستہ آہستہ کھلیں جب چلنے لگا تو
ایسا محسوس ہوا کہ ہوا میں چل رہا ہوں اور دایاں پا ؤں سن ہے ۔
٭٭٭٭٭
جواب: جہاں تک قوت متخیلہ کا تعلق ہے
اس سے کو ئی ایک فرد بھی انکار نہیں کر سکتاکہ ساری زندگی خیالات کے تا نے با نے
سے بنی ہو ئی ہے ۔ قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اپنی کتاب ‘’لوح و قلم “ میں اس تانے
بانے پر بنی ہو ئی تخلیق کو نسمہ کہا ہے اور جنات کی تخلیق نسمہ مفرد سے، انسان اور
انسان کی دنیا کی تخلیق نسمہ مر کب سے عمل میں آتی ہے ۔اس بات کو نقشہ میں دکھا
کر پو ری طرح سمجھا یا گیا ہے ۔ لہریں جو زندگی دیتی ہیں زندگی کے سارے تقاضے
ہمارے اندر پیدا کرتی ہیں ۔ہمارے دماغ کے
اندر نصب شدہ اینٹینا(ANTENNA) جب
ان کو جذب کر تا ہے تو خیالات اور جذبات بن کر نشر ہو نے لگتی ہیں ۔ خیالات کی نشر
یات ہی زندگی ہیں ۔قوت متخیلہ کو ایک لا یعنی اور ایک غیر موثر چیز سمجھنا بجز جہالت
کےکچھ نہیں ہے ۔
آئیے ایک تجر بہ کر تے ہیں ۔
آرام کے ساتھ بستر پر لیٹ کر جسم
ڈھیلا چھوڑ دیں اور اپنی پو ری تو جہ اس بات پر مبذول کردیں آپ کے پیر گر م ہو
رہے ہیں پھر یہ تصور کریں کہ لہرآپ کے دماغ میں مسلسل اور پیہم نزول کر رہی ہے ۔
اور پیروں کے ذریعے خارج ہو رہی ہیں ۔لہروں کے اندر گر می آپ کے پیروں کو گرم کر
رہی ہے ۔ جیسے ہی آپ کی توجہ اس عمل میں مر کوز ہو جا ئے گی آپ کے پیر گرم ہوتے
ہو ئے محسوس ہو نگے اور پھر یہ معلوم ہو گا کہ سارے جسم کی گر می پیروں میں سمٹ
آئی ہے اور آپ کے پیروں کے تلوے جلنے لگیں گے ۔
بالکل یہی صورت اس وقت ہو گی جب آپ
سرد ہواؤں کا تصور کر یں گے خیالات کی مر کز یت پیروں کو اتنا ٹھنڈا کر دیتی ہے کہ
معلوم ہو تا ہے کہ پیر بر ف کی طر ح یخ ہو گئے ۔
ما ورا ئی علوم کے لئے یہ کہہ کر گزر
جا نا کہ یہ سب قوت متخیلہ کا نتیجہ ہے
دراصل فرار کی ایک شکل ہے اور یہ با تیں ایسے لوگ کر تے ہیں جن کے اندر قوت عمل
تقریباً صفر ہو تی ہے ۔
ایثار و ایقان ، نفرت و حسد ، بھوک
اور پیاس زندگی کے سارے تقاضے کیا ہیں ؟ سب خیالات کی ادلتی بدلتی تصویریں ہیں
۔اگر جسم ہمیں بھوک کے تقاضے سے ،خیال کے ذریعے، مطلع نہ کرے تو ہم کھا نے کی طرف
متوجہ نہیں ہو ں گے یہ ساری کا ئنات خیال کی ایک مر بوط فلم ہے ۔
٭٭٭٭
جواب
: کائنات میں موجود جملہ مخلوقات میں انسان سب سے پیچیدہ
نفسیات اور طبیعات کا حامل ہے ۔بعض اوقات کچھ افراد سے ایسے افعال سرزد ہو تے ہیں
جنہیں ہم SUPER NATURAL یعنی
ما فوق الفطرت کہہ دیتے ہیں اور جو عام لوگوں کی نظروں میں عجیب و غریب حیرت انگیز
ہو تے ہیں ۔حالانکہ غور کیا جا ئے تو اس کا رخانہ قدرت میں کو ئی چیز ما فو ق
الفطرت نہیں ہے ۔ چو نکہ ہرشئے کی ابتداء اور انتہا قوانین فطرت کے تحت ہے ۔اس لئے
یہاں کو ئی موجود شئے فطرت سے بالا تر نہیں ہو سکتی ۔
ہماری اس کا ئنات میں فطرت کے بے شمار
قوانین کا ر فر ما ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو ہمیں معلوم ہیں اور بہت سے قوانین ہمیں
اپنی لا علمی کی وجہ سے معلوم نہیں ۔ جن کے بارے میں ہمارا علم نا قص ہے ۔انہیں ہم
فورا ً فوق الفطرت کہہ دیتے ہیں مثال کے طور پر ہمارے اندر یہ صلا حیت موجود ہے کہ
ہم محض اپنے تصور کی قوت سے چار ہزار میل پر بیٹھے ہو ئے کسی دو سرے شخص کو متا ثر
کر دیں یا کسی بیمار کے بدن پر ہا تھ پھیر کر اس کا مر ض دور کر دیں۔کسی شخص کو
چند منٹ نظر جما کر دیکھیں اس پر نیند طاری ہو جا ئے ۔ ہم اپنی آنکھوں کو بند کر کے لا ہور کے انار کلی بازاریا لندن کے
پکا ڈلی کا تصور کر یں اور وہاںکا پو را جیتا جا گتا منظر ہمارے سامنے اس
طر ح آجا ئے گو یا ہم خود ان با زاروں میں چل
پھر رہے ہیں ۔قدرت نے ہمارے اندر یہ صلا حیت بھی ودیعت کی ہے کہ ہم دو سروں
کے دل کا حال بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔ ان کے اندرداخل ہو کر اگلی پچھلی زندگی
کے اہم واقعات دیکھ سکتے ہیں ۔فطرت نے ہمارے دماغ پر یہ قوت بھی رکھی ہے کہ مستقبل
میں پیش آنے والے واقعات پردہ اسکرین پر فلم کی طر ح ہمارے سامنے رقصاں رہیں ۔
یہ تمام صلا حیتیں کسی نہ کسی قانون
کے مطا بق ہیں ۔ مگر جب ہم کسی شخص میں اس قسم کی کو ئی قوت متحرک پا تے ہیں تو
اسے سوپر نیچرل کہہ دیتے ہیں حالا نکہ ایسا نہیں ہے ہماری کا ئنات میں فو ق الفطرت
کو ئی چیز نہیں ہے ۔
ہم میں سے ہر شخص خاص خاص مشقوں ، مجا ہدوں اور ریاضتوں کے ذریعے دماغ
کی خو ابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کر کےان
علوم کو حاصل کر سکتا ہے ٹیلی پیتھی غیب بینی ، سچے خواب ، مستقبل بینی ، شرح صدر THOUGHT READING دوران علاج بذریعہ خیال،
تاثیر بذریعہ تصور ، انتقال امواج ، مسمر یزم ،، ہپنا ٹزم کا نام دیا جاتا ہے ۔
اگر آپ بھی اپنے اندر غیر معمولی ذہنی صلا حیتیں اور قوتیں پیدا کر نا چاہتے ہیں تو
کسی استاد کامل کی نگرانی میں مشقیں کیجئے ۔آپ میں بھی غیر معمولی قوتیں پیدا ہو
جا ئیں گی ۔
ایک بات یاد رکھئے ، ہر انسان اپنی
سیرت کی بنا پر از سر نو جنم لیتا ہے اور اوج ثریا تک پہنچ جا تا ہے ۔ سیر ت کی
جڑیں اخلا قی قدروں سے نشوونما پا تی ہیں اس لئے اگر آپ مستقبل بینی کے لئے قدم
اٹھا تے ہیں تو پہلے اپنی سیرت کا جا ئزہ لیجئے اپنی مستقل مزاجی کا امتحان لیجئے
کیوں کہ پیش بینی کا آغاز آپ کی اپنی ذات سے ہی ہو سکتا ہے ۔پہلے آپ خود اپنے
اوپر تجر بات کریں گے۔اس کے بعد یہی طاقت
دو سروں پر آزمائی جا ئے گی ۔اگر آپ کی
سیرت قابل اطمینان نہیں ہے تو آپ غلط راستوں پر بھی جا سکتے ہیں ۔ قدرت کا
چلن یہ ہے کہ کوئی غیر معمولی طا
قت اس کو ملتی ہے جو اس کا موزوں استعمال جا نتا ہے اور وہ لوگ اس قسم کی طا قت
حاصل کر نے کے بعد بے جا فخر اور گھمنڈ کے نشے میں غیر اخلا قی اور غیر انسانی حر
کات شرو ع کر دیتے ہیں ۔ان سے یہ طاقت چھین لی جا تی ہے ۔اس لئے یاد رکھئے کہ سب
سے پہلے آپ کے دل میں اپنی شخصی تعمیر اور پھر تعمیر کا ئنات کا عزم ہو نا چا ہئے
۔
٭٭٭٭٭
خواجہ شمس الدین عظیمی
انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔