لا ہور سے منیرہ فا طمہ لکھتی ہیں کہ میں بہت دنوںسے ٹیلی پیتھی سیکھنے کی خواہش مند تھی ۔ روحا نی ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی کی پہلی مشق شائع ہو ئی تو میرے دل کی مراد پو ری ہو ئی تو میں نے اللہ کانام لے کر مشق شروع کر دی مشق کے دو ران جو کیفیت مرتب ہو ئی جو چیزیں سامنے آئیں ان کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
۹ ۔ جون : نور کے سمندر میں ڈوب جا نے والی مشق کر رہی تھی تو معلوم نہیں کس وقت نیند کا غلبہ ہوا اور میں سو گئی ۔خواب میں دیکھا کہ اللہ کانور ہے جس کا رنگ مرکری لائٹ(MERCURY LIGHT) کی طرح لیکن اس روشنی میں اتنی زیادہ چمک تھی کہ جب میں نے نظر بھر کے دیکھا تو میری آنکھیں چند ھیاگئیں ۔اس کے بعد اس مقام کی زیارت کی جہاں شہیدوں کی رو حیں رہتی ہیں ۔
فجر کی نماز کے بعد خوا ب میں دیکھا کہ کافی تیز طوفان اور میں دورازے کھڑکیاں بند کر نے کی کو شش کر رہی ہوں وہ بند نہیں ہو تیں۔ اتنے میں ایک گوالا آتا ہے اور مجھے خاص طور سے دودھ دیتا ہے جو کہ بہت گا ڑھا ہے ۔ وہ مجھے یہ دودھ پینے کی تلقین کر تا ہے ۔ اس کانام علم دین ہے دروازہ کھلا چھو ڑ کر جب میں آنگن سے کمرے کی طر ف آتی ہوں توآسمان کی طر ف دیکھتی ہوں میرے سر کے عین اوپر ایک نہایت روشن ستارہ ہے جو بہت خوبصورت ہے اس کے ارد گرد بال ہیں پہلے تو میں اسے دیکھ کر ڈر جا تی ہوں پھر مطمئن ہو کر اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول ہو جا تی ہو ں ۔
۱۰ ۔ جون : آج رات بھی نور کے دریا میں ڈوبنے کا تصور کر تے کر تے سو گئی خواب میں دیکھا کہ ایک نہا یت باریک پٹی زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہے اور یہ زمین سے آسمان کی طر ف جا نے کا راستہ ہے جو بہت زیادہ رو شن ہے ۔میری نظر یں اس روشن راستے کو عبور کر کے جب آسمان میں داخل ہو ئی تو میں نے اللہ کی آواز سنی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر ما یا ‘’تم اس راستے پر (نوری راستہ جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے )چلنا چا ہتی ہو تو لوگوں کو نیکی اور ہمدردی کی ہدایت کرو ۔ “
۱۱ ۔ جون : مراقبہ نور کے درمیان یوں محسوس ہو ا جیسے کسی نے میرے سامنے سے ایک کالی اسکرین ہٹا دی شگاف کے اندر جب میں نے غور سے دیکھا تو مجھے عجیب عجیب سے چیزیں نظر آئیں مثلاً ایک بہت بڑی میز ، بہت خوبصورت اور بڑا سا پیا لہ وغیرہ وغیرہ ۔
۱۳۔ جون : مراقبہ نور کے درمیان یوں محسوس ہوا جیسے نظر وں کے سامنے نور کا ایک عظیم اور لا محدود سمندر ہے جس میں ساری کائنات ڈوبی ہو ئی ہے ایسے میں ، میں نے اپنے آپ کو اندر سے کھوکھلا پا یا اور میں نے دیکھا میں تو جسم کے نام پر محض ایک باریک ورق ہوں جہاں چا ہوں جب چا ہوں جا سکتی ہوں ۔لہٰذا اپنے استاد کے پاس فضا ئے بسیط میں تیرتے ہو ئے جا نے کا سو چا خیال کے آتے ہو ئے ہی اپنے آپ کو اڑتا ہوا محسوس کر نے لگی اور میرا رخ خود بخود کراچی کی طر ف ہو گیا ۔
۱۵۔ جون : نور کے دریا میں غرق ہو گئی ایک بڑی کتاب دیکھتی ہوں ۔ کھول کر پڑھتی ہوں اس میں فا رسی زبان میں کچھ لکھا ہو ا ہے اس تحریر کے ساتھ ساتھ اوپر کی طر ف پینٹنگز بنی ہو ئی ہیں یعنی ہر تصویر کے بارے میں تفصیل درج ہے ایک تصویر دیکھی جو نور کے سمندر کی عکا س ہے ، نیلی شعاعوں کا بہت بڑا سمندر ہے جو حد نظر تک پھیلا ہوا ہے ۔شعاعوں کی اس قدر زیادتی ہے کہ دیکھ کر خوف آتا ہے۔سمندر بہت بڑی بڑی لہروں اور گہرے با دلوں کی صورت میں موجود ہے ۔جب میں دو سرا ورق پلٹتی ہوں تو ایک پینٹنگ ہے جس میں ایک نہا یت ہی گہرے ہلکے نیلے رنگ کا ایک بہت بڑا سمندر ہے اس کے بیچوں بیج ایک بہت با ریک مگر نیلگوں سفید روشنی کا راستہ ہے ۔ راستے کے دائیں طر ف ایک بہت بڑا درخت ہے راستے کے اختتام پر ایک بہت ہی نہا یت ہی شفیق اور معصوم بزرگ کھڑے ہیں ۔ ان کا لباس مر کر ی لا ئٹ جیسا ہے سمندر میں مر کر ی روشنی اس قدر ہے کہ میں دو با رہ دیکھنے کی جرات نہ کر سکی ۔لیکن ہمت کر کے دیکھا تو وہ بزرگ راستے کے اختتام پر استقبال کر نے کے لئے کھڑے ہیں ان پر ایک عجیب سی روشنی پڑ رہی ہے جو ان کے پیچھے دیوار میں سے آرہی ہے ۔ وہ اس دیوار کو نہیں دیکھ رہے ہیں یو ں محسوس ہو تا ہے کہ جیسے سمندر جو کہ بہت ہی گہرے نیلے با دلوں اور مر کری شعاعوں کا مجموعہ ہے اس راستے کو ڈبو دے گا۔ اور پھر یوں ان بزرگ کا بھی پتہ نہیں چلے گا۔ مگر ایسا نہیں ہے کیوں کہ سمندر صرف راستہ تک آتا ہے اور واپس چلا جا تا ہے ۔
میں نے جب یہ مشقیں شروع کیں ہیں نہ جا نے کیوں میرے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے ۔اس کے علاوہ چہرے پر بر دباری آگئی ہے اور اللہ تعالیٰ اس قدررحمٰن ورحیم نظر آتا ہے کہ اس کے قہر و جلا ل کا تصور بہت کم ہو گیا ہے ۔ جی چا ہتا ہے کہ بس خاموش رہوں اور اپنے خدا کا تصور کر تی رہوں میرے اندر سے آواز آتی ہے ‘’میری بندی ! میں تیرے پاس ہوں ، پر تو مجھ سے ابھی دور ہے ۔ “
فر شتے :
سانگھڑ سے جناب ممتاز علی لکھتے ہیں ک پہلے سبق پر عمل کے نتیجے میں مر تب ہو نے والی کیفیات پیش کر دہا ہوں ۔
رات کو مشق کی اور مشق کے بعد مر اقبہ کیا ۔ دوران مراقبہ میں نے دیکھا کہ میرا پو را وجود خربوزے کی کاشوں کی طر ح کھل گیا اور کچھ لوگ جو غالباً فر شتے تھے یا کو ئی اورمخلوق تھی ، میرے جسم کے اندر سے سیاہ رنگ کے سانپوں جیسی چیزیں نکال نکال کر پھینک رہے ہیں ۔
۱۵۔ جون : نور کے سمندر ڈوبنے کی مشق کر نے میں سخت مزاحمت پیش آرہی ہے محسوس یہ ہو تا ہے کہ مجھے جنات پر یشان کر رہے ہیں اور میر ے اندر گھس کر بیٹھ گئے ہیں ۔
۱۶۔ جون : نیم غنود گی کے عالم میں ایک مقام دیکھا جس کا رنگ سبز ہے اس کے اندر ایک نوجوان اور خوبصورت عورت ٹہل رہی ہے،۔ بس ایک لمحہ کی جھلک تھی اس کے بعد منظر نظروں سے غائب ہو گیا دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی کہ کچھ کامیاب ہو رہا ہوں ۔اب کیفیت یہ رہتی ہے کہ دن کے وقت جب آنکھیں بند کر تا ہوں تو اپنے آپ کو سمندر میں ڈوبا ہوا محسوس کر تا ہوں ۔جسم میں طا قت اور چستی اور بھر پور قوت ارادی محسوس کر رہا ہے ۔
۱۸۔جون : خواب میں خود کو ایک سبز رنگ کی دنیا میں دیکھا جہاں کی ہر چیز مکانات ، با غات مرداور عورتیں غر ض کہ اس دنیا کی سب چیزیں سبز ہے ۔
نیند کی دیوی :
نیاز احمد شیخو پورہ۔
جب کسی ایک نتھنے سے سانس کو اندر کھنچتا ہوں تو بمشکل تین چار سیکنڈ تک کھینچ سکتا ہوں، بائیں نتھنے کی نسبت دائیں نتھنے سے سانس لینے میں زیادہ دقت پیش نہیں آتی ۔ حالانکہ سانس باہر خارج کر نے میں پا نچ سیکنڈ آسانی سے پو رے کر لیتا ہوں اور جب سانس اندر رو کتا ہوں تب بھی کو ئی تکلیف نہیں ہو تی میں آسانی سے۳۰ سیکنڈ تک سانس روک سکتا ہوں ۔لیکن دو ران مشق پانچ سیکنڈ تک ہی سانس روکتا ہوں ۔
” تصور نور “ کی مشق مکان کی چھت پر چا ر پا ئی پر بیٹھ کر کر تا ہوں پہلے تین روز تک تو نور کا کوئی تصور ہی قائم نہیں ہو سکا۔طر ح طر ح کے خیالاات تنگ کر تے رہے لیکن اب خیالات کے شدت میں کمی آگئی ہے ۔
۱۴ ۔ جون : مشق شروع کی حسب معمول خیالات کی فوج ظفر موج یلغار کر دی میں نے کسی خیال کو نہ تو رو کنے کی کو شش کی اورنہ ہی ارادہ کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ کو ئی بھی خیال جو آتا فوراً گز ر جا تا ۔پھر چند سیکنڈغالباًدو سیکنڈ تک نور کی ایک لکیر سی نظر آئی جو ایک طر ف سے باریک اور دو سری طر ف سے مو ٹی تھی ۔ اور وہ کسی پہاڑ کی طر ف جا تی تھی ۔
۱۸۔ جون : میں نے اپنے وجود کو ایک سر سبز علاقے میں پا یا اور میرے پا ؤں کی طر ف سے ایک نالی جو رو شنی سے بھر ی ہو ئی تھی ۔ لہلہاتے کھیتوں اور با غات سے گزرتی ہو ئی ایک پہاڑ کے دامن میں جا گر گم ہو گئی ۔
جب میں سانس کی مشق کر تا ہوں تو نیند کی دیوی آدھمکتی ہے جو بار بار اصرار کر تی ہے کہ میں اس کی آغوش میں چلا جاؤں ۔ مگر جب میں آدھے گھنٹے بعد تصور نور میں لیٹ جا تا ہوں تو نیند کی وہ پیا ری دیوی نہ معلوم کہاں گم ہو جا تی ہے ۔
نور میں ڈوبی ہو ئی کا ئنات :
کراچی سے رضیہ سلطانہ نے ۲۰ ۔ جو لا ئی سے ۲۷ جو لا ئی تک کی رپو رٹ لکھی ہے :
آج سے نور کے سمندر میں غر ق ہو نے کی مشق شروع کی ۔ عشاء کی نماز کے بعد رات گیارہ بجے تصور کیا کہ ساری کا ئنات نور میں ڈوبی ہو ئی ہے اور میں بھی نور کے سمندر میں ہوں ۔ مشق شروع کر نے سے قبل پچاس مر تبہ دردود شریف اور سو مر تبہ یا حیی یا قیوم کا ورد کیا ۔ تصور تقریبا ً پندرہ منٹ کیا لیکن تصور قائم نہ ہو سکا ۔چو نکہ کا فی تھکی ہو ئی تھی پندرہ منٹ بعد سو گئی
۲۴۔ جولائی : آج میں نے تقر یبا ً بیس منٹ مشق کی مجھے یوں محسوس ہوا گو یا کہیں کہیں سے رو شنی کی کر نیں آرہی ہیں ۔کر نیں آنکھ کے دائیں با ئیں گو شے سے آتی ہوئی محسوس ہوئیں لیکن کسی واضح شکل میں سامنے نہیں آئیں بلکہ تیزی سے حر کت میں رہیں جیسے کو ئی شعاع منعکس ہو۔
۲۷۔ جولا ئی : دوران مشق یوں محسوس ہوا گو یا ہلکے سفید رنگ کے کچھ دھبے سے ہیں ۔یہ دھبے ایک کے بعد ایک آتے رہے ۔کا فی مختصر عرصہ کے لئے نگا ہو ں کے سامنے رہے اور پھر غائب ہو گئے ۔
تیسری آنکھ :
فا روق مصطفی ۔بہا ول پور۔۔۔
۳۔ اگست : مراقبہ نور کی مشق شروع کر نے کے تھوڑی دیر بعد دریا کا تصور کچھ قائم ہوا ۔ مراقبہ ہوتے وقت میرا رخ شمال کی طر ف تھا مگر دریا کا تصور مشرق سے مغرب کی طر ف قائم ہوا ۔دیکھا کہ ایک نور کا دریا ہے سفید رنگ نورانی رو شنی میں ہلکی سے پیلا ہٹ ہے سامنے زمین سے بہت دور ایک کنا رہ ہے دو سرا کنا رہ بھی زمین سے بہت دور ہے۔ زمین وسط میں ڈوبی ہوئی ہے۔دائیں طرف بہت دور سے دریا آرہا ہے اور بائیں طرف کو کہیں دور جا رہا ہے ۔
تصورقائم ہو تے ہی یوں محسوس ہوا کہ جیسے چہرے پر سفید روشنی پڑ رہی ہو مشق کے شروع میں خو ف سا محسوس ہو ا تھا لیکن پھر فو را ً ہی ختم ہو گیا ۔
۱۱ ۔ اگست : ایک طویل راہ داری نظر آئی جس کی دو سری طر ف سر سبز درخت رو شنی سے نہائے ہو ئے موجود تھے ۔ روشنی بعض اوقات سفید ٹیوب لا ئٹ جیسی نظر آتی ۔ اور بعض اوقات دھو پ جیسی محسوس ہو تی ہے ۔
۱۴اگست : مشق شروع کر نے کے کچھ دیر بعد جب تصور نور میں ڈوبا ہوا تھا ایک دم آنکھوں کے سامنے روشن چمکیلی سفید لہر آئی اورمعدوم ہو گئی اور سارے جسم میں سنسنی سی دوڑگئی۔
۱۵۔ اگست : ایک موم بتی نظر آئی ۔شعلہ سبز رنگ کا تھا اور شعلے کے درمیانی جگہ سیاہ تھی پھر کئی موم بتیاں نظر آئیں ۔
۱۷۔ اگست : مشق شروع کر تے ہی نور کے دریا میں ڈوب گیا اور اس کے ساتھ میرے اوپر غنودگی سی چھا گئی ۔ نہیں معلوم غنو دگی میں کیا کیا نظر آیا ۔ تھوڑی دیر بعد نیند کا جھٹکا لگا اور بیدار ہو گیا۔ پھر تصور قائم ہو تے ہی غنو دگی میں چلا گیا کافی دیر تک یہ چکر چلتا رہا جھٹکے لگتے رہے اور غنو دگی چھا تی رہی ۔
۲۲۔ اگست : اب کیفیت یہ ہے کہ میں آنکھیں بند کر کے کسی بھی وقت جس چیز کا بھی تصور کر تا ہوں ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے وہ چیز میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
۱۷۔ ستمبر : حسب معمول شمال کی طر ف مشق کر کے شروع کی ۔لیکن فو را ً خیال آیا کہ مغرب کی طر ف منہ کر نا چا ہئے یوں لگا جیسے میرا جسم مغرب کی جا نب گھوم رہا ہے ۔یہ خیال اتنا طا قتور تھا کہ واقعتا مغرب کی طر ف منہ کر نے پر مجبور ہوگیا ۔پھر تصور قائم ہو تے ہی غنو دگی میں چلا گیا اس کے بعد ذہنی سکون ہو گیا ۔جسم کے مختلف حصوں میں سوئیاں چھبتی رہیں ۔پھر یوں لگا جیسے سینا اور پیٹ کے درمیان ایک لمبا سا شگا ف پڑ گیا ہے اور پھر اوپروالا حصہ لباس کی طرح جسم سے اتر نا چا ہتا ہے۔
۲۳۔ ستمبر : آج مراقبہ شروع کر نے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ محسوس ہو اکہ میری پیشانی کے عین درمیان میں ایک آنکھ موجود ہے اور آنکھ اس نور کو دیکھ رہی ہے جس نور کے اندر میں خود اور سو ئیاں ڈوبی ہو ئی ہیں سو ئیاں چبھنے کا احساس آج بھی ہو تا رہا ۔
دعا قبول ہو گئی :
محمد جہا نگیر تبسم ، ڈیرہ اسمعیل خاں ۔۔۔
۱۳۔ ستمبر : مراقبہ میں دیکھا کہ میں نور کے دریا میں غوطے کھا رہا ہوں ۔صرف سر با ہر ہے اسی دو ران کسی غیبی آواز نے مبا رک باد دی مشق کے دوران میں نے سر میں ایک بھا ری پن محسوس کیا۔
۱۴۔ ستمبر : سر میں بائیں طر ف کسی لہر نے سر کتے ہو ئے میرے دماغ میں ہلچل مچادی اور میں نے اپنی آنکھوں سے سفید رنگ کی رو شنی کی لہریں نکلتی ہو ئی محسوس کیں۔
۱۶۔ ستمبر : دیکھا کہ میرے چا روں طر ف نور ہی نور ہے اور سامنے اونچا مینار ہے ۔ میں دریا نور میں غوطہ کھا تا ہوا مینار تک پہنچا ۔ اس کے بعد تصور ٹوٹ گیا سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو اور میرے دماغ میں رو شنی کی لہریں نکلنے لگیں ۔
۲۰۔ ستمبر : رات دس بجے نور کے سمندر میں ڈوبنے کی مشق کے دو را ن دیکھا کہ میں نور کے سمندر میں ڈو با ہوا ہوں دو سرے اور بھی لوگ میرے ساتھ سمندر میں ڈوبے ہو ئے ہیں ۔ اچانک میرے دماغ میں با غ کا تصور ابھر ا اور دیکھا کہ باغ کے اندر بہت سے بزرگ بیٹھے ہو ئے ہیں میز پر ہر طرح کے کھا نے لگے ہو ئے ہیں ایک پلیٹ میں سبز قسم کی کوئی چیز رکھی ہوئی ہے اور باقی پلیٹوں میں قسم قسم کے کھا نے ہیں ۔ بزرگ ان کو دو سری چھوٹی پلیٹوں میں ڈالتے ہیں ۔اس کے بعد اچا نک کو ئی چیز میرے سامنے آگئی وہ چیز اتنی رو شن تھی کہ اس کی چمک سے میری آنکھیں چند ھیا گئیں ۔
۲۱۔ ستمبر : آج رات تصور کے دو ران میں نے دیکھا کہ میں ایک باغ میں ہوں ۔اچا نک ایک آوا ز آئی ‘’اے میرے بندے ! “میں نے آسمان کی طر ف دیکھا ایک جگہ بہت زیادہ روشنی تھی پھر دو سری آواز آئی ‘’اے میرے بندے ! ہم تھوڑی سی بھی نیکی کا بہت بڑا اجر دیتے ہیں مراقبہ کر اور اللہ کی کتاب کو سمجھ کر پڑھ۔ “ اس کے بعد میں نے دعا کی ‘’یا اللہ !مجھے ٹیلی پیتھی میں کا میابی عطا فر ما ۔ “اور یہ دعا قبول کر لی گئی ۔
ڈوب ڈو ب کر ابھر نا :
راولپنڈی سے عقیل احمد لکھتے ہیں :۔
آپ کی ہدا یت کے مطا بق ٹیلی پیتھی کی مشقیں شروع کیں تفصیل حسب ذیل ہے ۔
۱۸ ۔ جون : آنکھیں بند کر کے یہ تصور کر نا شروع کیا کہ نور کا ایک دریا ہے جس میں ساری کائنات اور میں خود ڈوبا ہواہوںبڑی مشکل یہ ہے کہ اردگردخاموشی نہیں ہو تی۔ کہیں سے مسلسل پنکھے چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے تو کہیں سے ریڈیو پر مسلسل گا نے نشر ہو تے رہتے ہیں جو ارتکاز توجہ میں خلل ڈالتے ہیں ۔بہر حال تھوڑی دیر بعد نور کا تصور قائم ہو نا شروع ہوگیا دو ران مشق جس چیز کا بھی خیال آیا وہ کبھی مکمل اور کبھی نہ مکمل طور پر نور میں ڈوبی ہو ئی دکھا ئی دی ۔نور کا مکمل تصور قائم نہ ہو سکا ۔
۲۲۔ جون : نور کا تصور قائم ہو ا اور میں اپنے آپ میں سے نکل کر کھلی فضا میں چلا گیا ۔میں نے نور کے دریا میں غوطے لگا نا شروع کر دئیے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہو نے لگا جیسے میں بھی نور کے دریا میں ڈو با ہوا ہوں ۔اور نور میں ڈھل کر نور بن گیاہوں اور ایک بات میں نے یہ نوٹ کی وہ یہ ہے کہ اب کام کر نے کو بہت جی چا ہتا ہے پہلے حال یہ تھا کہ ہر کام کو نہ کر نے اور ٹالنے کے بہا نے سوچتا رہتا تھا لیکن اب طرز فکر یہ ہو گئی ہے کہ جب کا م کر نا ہی تو کر ڈالو ۔
۲۷۔ جون : سونے کے لئے جب بستر پر لیٹا اور آنکھیں بند ہو ئیں تو یوں محسوس ہو ا جیسے میں نور کے سانچے میں ڈھلا ہوابستر پر لیٹا ہوا ہوں ۔رات کو نیند سے بیدار ہو کر آ نکھوں میں مدھم مدھم سی رو شنی دکھائی دی ۔آنکھیں کھو لی تو یہ رو شنی غائب ہو گئی اب نیند بہت گہر ی آتی ہے ۔
۱۔ ستمبر : آج نور کا تصور زیادہ واضح طورپر قائم ہو ا میں نور کے دریا کے اوپر پر واز کر تا رہا نو ر میں غو طہ لگا تا رہا ۔چلتاپھر تا رہا اور ڈوب ڈوب کر ابھر تا رہا میں نے اپنے آپ کو ان گنت جسموں میں تقسیم ہو تے دیکھا ۔
جنت کا باغ :
محمد صفدرتا بانی ، شیخوپورہ لکھتے ہیں :۔
۲۹۔ اکتوبر : صبح فجر کی نما زکے بعد ٹیلی پیتھی کی پہلی مشق کا آغاز کیا مختلف خیالات دل میں آتے رہے پھردیکھا کہ ایک دریا میں جس کا پا نی ٹھاٹھیں ما ررہا ہے ۔پھر ایک سمندر نظر آیا جس میں لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہو ئی کنارے کی جا نب بڑھ رہی تھیں ۔مجھے خیال آیا یہ تو پا نی کا دریا ہے لیکن مجھے تو نور کے دریا کی تلاش ہے یہ خیال آتے ہی ایک با غ سامنے آگیا ۔ اس میں ایک نہر جا ری تھی جس کا پا نی شیشے کی مانند چمک رہا تھا میں نے اس میں ہا تھ ڈالا تویہ معلوم ہو ا کہ یہ پا نی نہیں ریت اور پا ؤ ڈر کی طر ح چمک دار چیز ہے ۔ پھر کئی خوبصور ت منا ظر فلم کی طرح نگا ہوں کے سامنے آتے رہے ۔
۳۰۔اکتوبر : نماز فجر کے بعد مراقبہ شروع کیا کل کی طرح ندیاں اور دریا سامنے آگئے اس پر دھند سی چھا ئی ہو ئی تھی ۔ سمندر کا پا نی بھی دھند کی طر ح سفیداوربا دلوں کی طرح ادھر اُدھر اڑرہا تھا ۔ سماں بہت سہا نہ تھا میں نے اس سمندر میں غو طہ لگا نے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکا پھر میرے ذہن میں یہ خیال آیا مجھے تو یہ تصور قائم کر نا ہے کہ ساری دنیا اور میں خود نور میں ڈوبا ہوا ہوں ۔اور پھر میں نور کی تلاش میں نکل پڑا ۔دریا اور سمندر دھند کی شکل میں سامنے آتے رہے ۔ رات کے مراقبہ میں دیکھا کہ ایک پہاڑ ہے جس پر میں کھڑا ہوا ہوں نیچے جھا نکا تو کہیں سے سفید رنگ کی رو شنی آتی ہو ئی دکھا ئی دی ۔ ذرا اور آگے بڑ ھ کر دیکھا تو سفید اور نیلے رنگ کی تو رو شنی چا روں پر پھیلی ہو ئی تھی ۔ میں نے چاہا کہ اس میں غوطہ لگا ؤں ۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہو ا یہ تو ابلتے ہو ئے پا نی کا چشمہ ہے وہاں میں ایک ایسی وادی میں پہنچ گیا جس کے مکا نات سیاہ اور سنہرے پتھروں سے بنے ہو ئے تھے ۔یہ مکانات بہت اونچے تھے اور چاند کی رو شنی ایسا سماں پیدا کر رہی تھی کہ مجھے پر ستاں کا گمان ہو نے لگا ۔پھر میں نے ایک دروازہ کھو لا تو دیکھا کہ ایک نہر ہے جس میں پانی کے بجا ئے نور ہی نور ہے ۔اس طر ح میں نے تین چار دوازے کھولے اور دروازے کے اندر ایک نہر دیکھی جس کا پا نی سفید اور نیلا تھا رنگ بڑا چمکدار تھا ۔تب میں نے اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کیا کہ میں خود اور ساری دنیا نور میں ڈوبے ہو ئے ہیں ساری دنیااور خود کو بھی چا ند کی چا ندنی میں ڈوبا دیکھا ۔پھر میں نے بلب کی روشنی کی طرح لہریں دیکھیں ۔ یہ لہریں شمال سے جنوب کی طر ف جا رہی تھیں ۔
۳۱۔ اکتوبر : مرا قبہ میں دیکھا کہ نور کا رنگ اس طر ح تھا جیسے چا ندنی میں تھوڑی سی نیلا ہٹ ملی ہو ئی ہو ۔ یکایک میں اڑا اور ایک پہاڑی پرجا پہنچا ۔ اور ایک غار میں کھڑے ہو کر اللہ کے گھر کی طر ف دیکھا ۔وہاں نور ہی نور برس رہا تھا ، میں اس غار سے نکل کر ایک پتھر پر جا بیٹھا۔وہ پتھرمجھے لیکر اوپر اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمانوں سے اندر ہو تا ہوا کسی ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں سفید دیواروں پر سیاہ رنگ کے حاشیے بنے ہو ئے تھے ان سیاہ حاشیوں میں NEON SIGN کی طرغ کو ئی عبا رت لکھی ہو ئی تھی ۔ابھی میں یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے تا یا جان نے مجھے آواز دی اور میں نے مراقبہ ختم کر دیا گھڑی دیکھی تو آدھا گھنٹہ گزر چکاتھا ۔
رات کو مراقبہ میں ٹیلی ویژن کی طرح ایک اسکرین نظر آئی اور مختلف خیالات ذہن میں آتے رہے ۔پھر پہاڑیوں اور وادیو ں کی سیر کر تا ہو ا ایک دروازے کے سامنے جا پہنچا ۔ دورازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو خود کو ایک جنت نما با غ میں پا یا ۔وہاں چا روں طر ف مر کر ی لائٹ پھیلی ہو ئی تھی ۔ کچھ دیر وہاں ٹھہر کر میں دروازے سے با ہر آگیا اور دروازہ بند کر دیا۔
۵۔ نومبر : مرا قبہ شروع کیا اور میں نے دیکھا کہ فضا میں اڑ رہا ہوں ۔ اڑتے اڑتے ایک پہاڑی پر قیام کیا ۔ وہاں سے اڑا تو خلا میں جا پہنچا ۔خلا میں سے زمین اور چا ند کا مشاہدہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ زمین گول ہے اور چا ند کی سطح پر غار اور ٹیلے ہیں پھر میں ایک سیارے پر اتر گیا ۔پتا چلا کہ یہ مر یخ ہے ۔وہاں سے ایک کرسی پر بیٹھ کر اوپر اٹھنے لگا اور سورج کے بہت قریب جا پہنچا سورج میرے سرپر تھااور کہکشانی نظام میرے سامنے اچانک میرے ذہن میں سوال ابھر ا کہ سورج کے نزدیک ہو تے ہو ئے سورج کی تپش مجھے کیوں محسوس نہیں ہو رہی ؟ جواب ملا کہ تم نور کے ایسے حلقے میں ہو جہاں سورج کی تپش اثر انداز نہیں ہو تی ۔
آواز خیالات کے دو ش پر :
امداد علی ملک ، آزاد کشمیر ۔
۱۲۔ اکتوبر :مراقبہ میں دیکھا کہ ایک شخص فضائے بسیط پر چل رہا ہے ۔اس کے خیالات میرے دماغ سے ٹکرانے لگے یعنی جو کچھ وہ سوچ رہا تھا میں اسے وہ سننے لگا وہ سوچ رہا تھا کہ کتنی خو ب صورت زمین ہے ! مجھے آدھ گھنٹے کے لئے اس پر سو جا نا چا ہئے پھر وہ فوراً سو گیا اور آدھ گھنٹہ کے بعدبیدار ہو ا ۔لیکن یہ آدھ گھنٹہ میرے لئے چند سیکنڈ کے برابر تھا ،۔پھر دیکھا کہ میں نے اس شخص کے خیالات پر قابو پا لیا وہ محض وہی کام کر تا ہے جو میں سو چتا ہوں ۔ میں اپنی توجہ اس کے دماغ پر مر کوز کر کے خیال کے عالم میں چیخا تو وہ سچ مچ چیخیں ما رنے لگا ۔
۱۴۔ اکتوبر : دیکھا کہ دو شخص ایک لڑکی کی خا طر لڑ رہے ہیں ۔ ایک چا ہتا ہے کہ وہ لڑکی کی کے ساتھ جا ئے۔ دوسرے کی بھی یہی خواہش ہے اور وہ ایک دو سرے کو گا لیاں دے رہے ہیں پھر تھوڑی بعد آنکھوں کے سامنے پا نچ ستا رے آگئے ۔ستا رے غائب ہو ئے تو سانپ جیسی کو ئی چیز آگئی ۔وہ بالکل سفید تھی ۔ پھر دیکھاکہ کہیں دو ر سے ٹارچ کی رو شنی آرہی ہے جب قریب آئے تو میں نے دیکھا کہ ٹارچ میرے بھا ئی کے ہا تھ میں ہے انہوں نے وہ ٹارچ میری طر ف پھینکی اور میں نے پکڑ لی ۔ پھر مجھے محسوس ہو ا کہ بھائی صاحب کئی میل دور سفر کر رہے ہیں ، انہوں نے یکے بعد دیگر ے دو تین ٹارچیں وہاں سے پھینکیں اور میں نے وہ ٹارچیں اپنے کمرے میں چار پا ئی پر پکڑ لیں ۔
۱۵۔ اکتوبر : تصور فوراً قائم ہو گیا ایک چمکدار رو شنی وقفے وقفے سے نظر آتی رہی کچھ وقفے کے بعد ایک عورت سامنے آگئی پہلے اس کا چہرہ نظر نہ آسکا لیکن جب چہرہ دیکھا تو حیران رہ گیا بڑی بھیا نک شکل تھی اس کی ۔ لمبے لمبے بال ہوا میں اڑ رہے تھے ۔پھر اس کے بعد دماغ میں روشنی کی لہریں جمع ہو تی رہیں اور میں اپنا جسمانی توازن بے قرار رکھنے کی کو شش کر تا رہا کیوں کہ میں اس وقت ہوا میں اڑ رہا تھا پھر دیکھا کہ دو بارہ چار پا ئی پر پہنچ گیا ہوں ۔دو ر سے کسی عورت کا چہرہ دکھا ئی دیا اور پاس جا کر دیکھا تو وہ کسی بجری جہاز میں سفر کر رہی ہے ۔میں حیران ہو گیا کہ وہ کون ہے اچانک میرے دماغ کی سطح پر کچھ آوازیں پیدا ہوئیں ۔اس عورت کا تعلق انڈو نیشیا سے ہے اور یہ چھتیس سال سے سفر کر رہی ہے ، پھر بند آنکھوں سے اندھیرے میں سامنے والی دیوار نظر آئی وہ نور کی تھی اور سامنے والی کھڑکی بھی نور سے پر دکھا ئی دی میں گھپ اندھیرے میں اپنے سائے کو بھی دیکھ رہا تھا ۔
۱۷۔ اکتو بر : ایک بار عب شخص کو دیکھامجھے معلوم ہو اکہ یہ شخص ٹیلی پیتھی جا نتا ہے میں نے اس شخص کوکو ئی جگہ بتا ئی اور درخواست کی کہ مجھے اس جگہ پہنچا دو ۔تب اس نے آنکھیں اٹھا کر میری آنکھوں میں دیکھا ۔ میری تمام قوتیں ختم ہو گئیں ۔اور میں ہوا میں غبارے کی طرح بجلی کی سی تیزی سے دوڑنے لگا ۔ میں نے قوت ارادی سے کام لیا اور رکنے کی کوشش کی ۔ تھوڑی بہت کا میابی ہو ئی اور میں منزل مقصود پر پہنچ گیا ۔
۱۸۔ اکتوبر : دیکھا کہ میں سمندر میں تیر رہا ہوں ۔ اور میرے جسم کی پشت کی جا نب ایک سفید اد رچمک وار ہیولا موجود ہے ۔جس کا فا صلہ تقریباً ایک فٹ ہے۔میں نورا نی زمین پر آلتی پا لتی ما رے بیٹھا ہو اہوں ایک لڑکا میرے پاس آیا اور میرے سامنے بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ تم نو را نی زمین کو خراب کر رہے ہو یہ سن کر وہ مجھ پر ہنسنے لگا ۔اچا نک اس کی نشست کی جگہ سے نور ختم ہو گیا اور وہ نیچے گر پڑا ۔گر نے کے دو ران اس نے لکڑی کو پکڑ کر پنکھے کی طرح حرکت دیناشروع کر دی ۔ تب میں نے اسے وہاں سے نکالا وہ بھا گ گیا۔
ایک بات دیکھنے میں آئی کہ نور میری مر ضی کے مطا بق سامنے آتا ہے اگر میں ٹھوس نور کا خیال کر تا ہو ں تو برف کی طرح ہو تا ہے ۔اور اگر ما ئع نور دیکھنے کی مشق کر تا ہوں تو پا نی کی طرح نظر آتا ہے ۔
۴ نو مبر : سانس کی مشق کے دو ران دماغ ہلکا سا محسوس ہو اور اچانک ایک شخص کی آواز سماعت سے ٹکرائی جس کو میں جا نتا ہوں مجھ پر یہ بات منکشف ہو ئی کہ اس نوجوان کے خیالات آواز کی صورت میں مجھ تک پہنچ رہے ہیں میں نے سناتو وہ ایک لڑکی سے متعلق تھے ۔
اگر چہ یہ بات نا ممکن نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی پیتھی کی مشقوں کی وجہ سے لوگوں کے خیالات مجھ تک پہنچ جا تے ہیں ۔ایک بار ہمارے گھر کے نزدیک سانپ نکل آیا لوگ اسے ما رنے لگے ۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہو کر سانپ کو پتھر ما رنے لگا حالانکہ میرے گھر والوں نے مجھے سانپ ما رنے سے منع کیا ہوا ہے ۔اتفاق سے میری حرکت کو بھا ئی صاحب نے دیکھ لیا ۔لیکن اس وقت کچھ نہیں بو لے ۔اور گھر کے اندر چلے گئے ۔ میں بہت فکر مند ہوا اور گھر آکر یک سوئی سے سوچنے لگا کہ نہ جا نے بھا ئی صاحب کیاکہیں گے ۔ یکا یک میرے ذہن نے بھا ئی کی غصیلی آواز سنی ‘’کہاں تھے تم ؟ “ فوراً ہی ذہن نے اس کا جواب دیا چا ئے پی رہا تھا ۔ بھا ئی صاحب کی آواز گو نجی ‘’اس سے پہلے کہاں تھے ؟ “ ‘’کھا نا کھا رہا تھا ۔ بھائی صاحب نے غصہ بھری آواز میں پو چھا اور ‘’اس سے پہلے کہاں تھے ؟ “اس کا میں نے کو ئی جواب نہیں دیا ۔اور بھا ئی صاحب نے کہا ‘’تم کو شرم نہیں آتی ؟ “کتنی دفعہ منع کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اسطرح ان کی ڈانٹ کی آواز آتی رہی ۔
یہاں پر یہ مکالمہ آرائی ختم ہو ئی ہی تھی کہ بھا ئی صاحب کمرے میں داخل ہو ئے اور جس طر ح میں نے اپنے ذہن میں آواز محسوس کی تھی اسی انداز اوران ہی الفاظ میں کہا ۔
‘’کہاں تھے تم ؟ “
میری زبان سے فو راً نکلا ‘’چا ئے پی رہا تھا ۔ “
اور پھر لفظ بہ لفظ انہوں نے مجھ سے وہی سوال کئے اور ڈانٹا جو میں اپنے ذہن میں پہلے ہی سن چکا تھا ۔
ایک اور واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص میرے پا س آیااور اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کہتا میرے دماغ میں یہ خیال تیزی سے پیدا ہوا کہ یہ مجھ سے چا قو مانگ رہا ہے اور دوسری ہی لمحہ اس نے مجھ سے کہا مجھے چا قو کی ضرورت ہے آپ مجھے چا قو دے دیں ۔ “
دوسری اہم بات یہ ہے کہ میرے خیال میں ایسی قوت پیدا ہو گئی ہے کہ جو کچھ میں ارادہ کر تا ہوں وہ فوراً پو را ہو جا تا ہے ۔ایک روز میرے دو چھوٹے بھا ئیوں میں لڑائی ہو گئی ۔ اور بڑے نے چھوٹے کو تھپڑ مار دیا ۔کچھ دیر تک دونوں ناراض رہے پھر ہنسی خوشی کھیلنے لگے ۔ میں نے ارادہ کیا کہ چھوٹے بھا ئی کو چا ہئے کہ بدلہ کے طور پر بڑے بھا ئی کو تھپڑ ما رے۔ ابھی میں نے یہ سو چا ہی تھا کہ چھوٹے بھا ئی نے بڑے بھا ئی کو ایک بھر پور تھپڑ رسید کر دیا ۔
اوپر میں نے جو مشاہدات اور تجر بات بیان کئے ہیں یہ ان بے شمار واقعات میں سے چندہیں جو آج کل روز مرہ میرے ساتھ پیش آرہے ہیں ۔
انتساب ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج حاصل کر نا چاہتے ہیں اور ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین
کی مانگ میں سیندور بھر یں گے ۔