Topics

کہکشا نی نظام

بڑی مشکل یہ پیش آگئی ہے کہ ہم رگ پٹھوں کی بنا وٹ اور ہڈیوں کئے دھا نچے کو انسان کہتے ہیں حا لا نکہ ہہ انسان وہ انسان نہیں ہے جس کو قدرت انسان کہتی ہے ہم اس رگ پٹھوں سے مرکب انسان کو اصل انسان کا لباس کہہ سکتے ہیں ۔

مثال :
جب ہم مر جاتے ہیں تو ہمارے جسم میں اپنی کو ئی حرکت نہیں رہتی ۔ اس جسم کے ایک ایک عضو کو کا ٹ ڈالئے ، پورے جسم کو گھسیٹئے ، مضروب کیجئے اور اس مر دہ جسم کو ایک طر ف ڈال دیجئے کچھ بھی کیجئے جسم کی طر ف سے کو ئی مدافعت کو ئی حرکت عمل  میں نہیں آئے گی ۔اس میں زندگی کا کو ئی شائبہ کسی لمحے بھی پیدا ہو نے کا امکان نہیں ہے ۔

اب ہم اسی مثال کو دو سری طر ح بیان کر تے ہیں:

آپ نے قمیض پہنی ہو ئی ہے ۔ اگر آپ یہ چا ہیں کہ قمیض بذات خود جسم سے الگ رہ کر بھی حر کت کر ے تو یہ بات ممکنات میں سے نہیں ہے ۔جب تک قمیض جسم کے اوپر ہے جسم کی حرکت کے ساتھ اس کے اندر بھی حر کت موجود ہے ۔اگر آستین ہا تھ کے اوپر ہے تو ہا تھ ہلانے سے آستین کا ہلنا بھی ضروری ہے ۔اگر آپ یہ چا ہیں کہ ہا تھ تو حر کت کر ے لیکن آستین میں حرکت پیدا نہ ہو ایسا ہو نا بعید از قیاس ہے جب تک ہا تھ کے اوپر آستین ہے ہا تھ کی حرکت کے ساتھ آستین کا ہلنا ضروری ہے بالکل یہی حال جسم کا بھی ہے ۔

جسم کو جب ہم لبا س کہتے ہیں تو اس سے ہمارا مقصد یہ ہو تا ہے کہ رگ پٹھوں اور ہڈیوں کے پنجر سے مراکب خاکی جسم روح کا لباس ہے ۔جب تک روح موجود  ہے جسم متحرک ہے اور اگر روح موجود  نہیں ہے تو روح کے لباس (جسم کی )حیثیت قمیض کی طر ح ہے۔

انسان دو تقاضوں سے مرکب اور محرک ہیں ۔ایک تقاضہ جبلی اور دوسرا فطری ۔جبلی تقاضے پر ہم با اختیار ہیں اور فطری تقاضے پر ہمیں کسی حدتک تو اختیار ہے مگر اس ارادہ کو کلیتاً رد کر نے پر اختیار نہیں رکھتے ۔ ایک ماں اپنے بچے سے محبت کر تی ہے ۔بچہ مر جا تا ہے ماں رودھوکر بالآخر صبر کر لیتی ہے ۔ عرف عام میں ماں کی محبت کو فطری تقاضہ کہا جا تا ہے ۔ دراصل یہ تقاضہ فطری نہیں جبلی ہے ۔ ماں کی محبت کو اگر فطری جذبہ قرار دیا جا ئے تو بچہ کی جدائی کے غم  میں اپنے بچے کے ساتھ ہی مر جا ئے گی یا بچہ کی یاد اس کے حواس کا شیرازہ بکھیر دے گی لیکن ایسانہیں ہوتا ۔

اس کے بر عکس فطری تقاضے بھوک اور نیند کے سلسلے میں غور کیا جا ئے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کو ئی آدمی بھوک کو رفع کر نے کے لئے خوراک میں کمی بیشی تو کر سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ وہ کبھی کچھ نہ کھا ئے یا پیا س کا تقاضہ پو را کر نے کے لئے بالکل پا نی نہ پئے ۔یاساری عمر جاگتا رہے یاپو ری زندگی  سو تا رہے ۔اس حقائق کی رو شنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جذبات فطری ہوں یا جبلی ، بہر کیف ان کا تعلق خیالات سے ہے جب تک کو ئی تقاضہ خیال کی صورت میں جلوہ گر نہیں ہو گا ہم ا س سے بے خبر رہیں گے ہمارے اوپر (بصارت ، سماعت ، گو یا ئی لمس )کا انکشاف نہیں ہو گا ۔

انسان کے اندر یہ کوخواہش فطری ہے کہ وہ یہ معلوم کر ے کہ خیالات کیوں آتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور خیالات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مل کر کس طر ح زندگی بنتے ہیں ۔

عام زبان میں تفکرکو انا کانام دیا جا تا ہے اور انااور تفکر ایسی  کیفیاات کا مجموعہ ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں ۔اس طر ح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی ہیں ہمارے شعور میں یہ بات یا توبالکل نہیں آتی یا  بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ، ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبا دلہ خیال  ہوتارہتا ہے ،۔ ان کی انا یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں ۔اور ہم سے بہت کچھ لیتی بھی ہیں تمام کا ئنات اس وضع کا تبا دلہ خیال کا ایک خاندان ہے ۔ مخلوق میں فرشتے اورجنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں ۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب اور تبا دلہ خیال کے لحا ظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہے ۔کہکشانی نظام اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے ۔پے درپے جو خیالات ہمار ے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی  آبا دیوں سے ہمیں وصول ہو تے رہتے ہیں ۔یہ خیالات رو شنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں رو شنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے بے شمار تصویر خانے لیکر آتی ہے ۔ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں تو ہم تخیل ، تصور اور تفکر کا نام دیتے ہیںسمجھا یہ جا تا ہے یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں لیکن ایسا نہیں بلکہ تمام مخلوق کے سو چنے کی طر زیں ایک  نقطہ ءمشترک رکھتی ہے وہی نقطہ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے ۔یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے ۔ شعور جو اسلوب اپنی اَنَا کے اقدار کے مطا بق قائم کر تا ہے تصویر خانے اس ہی اسلوب کے ڈھا نچے میں ڈھل جا تے ہیں ۔

اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طر ز عمل میں زیادہ اشتراک ہے ۔ان ہی کا تذکرہ قرؤن پاک میں انسان ، فر شتہ ، جنات کے نام سے کیا گیا ہے ،یہ نو عیں کا ئنات کے اندر سارے کہکشانی نظام وںمیں پا ئی جا تی ہیں قدرت نے  کچھ ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں یہ تین نو عیں تخلیق کا رکن بن گئی ہیں۔ان ہی کے ذکر سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کا ئنات پر منتشر ہو تی ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کر کے معین نقطے پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظا ہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔کائنات زمانی مکانی فا صلوں کا نام ہے ۔ یہ فا صلے انا کی چھو ٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں ان لہروں کا چھوٹا بڑ ا ہونا ہی تغیر کہلا تا ہے ۔

یہ قانون بہت زیادہ فکر سے ذہن نشین کر نا چا ہئے کہ جس قدر خیالا ت ہمارے ذہن میںدور کر تے ہیں ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی اطلاعات سے ہو تا ہے جو اس کا ئنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں ۔یہ اطلاعات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں ۔

سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں ۔لیکن وہ اتنی زیادہ تیز رفتار نہیں کہ وہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔ البتہ انا کی لہر یں لا متنا ہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہو تی ہیں زمانی اور مکانی فا صلے ان کی گر فت میں رہتے ہیں ۔ یہ الفاظ دیگر کہہ سکتے ہیں کہ ان لہروں کے لئے زمانی مکا نی فا صلے موجو دہی نہیں ہیں ۔ رو شنی کی لہریں جن فا صلوں کو کم کر تی ہیں انا کی لہریں ان ہی فا صلوں کو بجا ئے خود مو جود نہیں جا نتیں ۔اس بات کی تصدیق قرآن حکیم میں حضرت سلیمان ؑ کے سلسلے میں بیان کر دہ واقعات سے بھی ہوتی ہے ۔

 

حضرت سلیمان ؑ کا دربار :

 

حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی درباری خدمات کے لئے حاضر رہتے تھے اور اپنے مراتب اور سپر د کر دہ خدمات پر بے چوں و چرا عمل کر تے تھے ۔

دربار سلیمان ؑ پورے کے جا وہ حشم کے ساتھ منعقد تھا ۔ حضرت سلیمان ؑ نے جا ئزہ لیا تو ہد ہد کو غیر حاضر پا یا ۔ ارشاد فر ما یا :

"میں ہد ہد کو موجود نہیں پا تا ۔ کیا وہ واقعی غیر حاضرہے ؟ اگر ان کی غیرحاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ۔یا ذبح کر ڈالوں گا ۔یا وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بتا ئے ۔ 145 145 ابھی زیادہ دیر نہیں ہو ئی تھی کہ ہد ہد حاضر ہو گیا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی بازپرس پر اس نے کہا ۔

"میں ایک ایسی یقینی خبر لا یا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے ۔وہ یہ ہے کہ یمن میں علاقے میں سبا کی ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت سلطنت اپنی خوبیوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پر ست ہے ۔شیطان نے انہیں گمراہ کر دیا اور وہ خدا ئے لا شریک کی پر ستش نہیں کر تے ۔ "

حضرت سلیمانؑ نے کہا ۔

"تیرے جھوٹ اور سچ کا امتحان ابھی ہو جا ئے گا تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لیجا اور اس کو ان تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کر تے ہیں ۔ "

ہدہد جب یہ خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا  سورج دیوتا کی پر ستش کے لئے جا رہی تھی ۔ ہدہد نے راستے میں ہی ملکہ کے سامنے یہ خط دال دیا ۔
جب یہ خط گرا تو ملکہ نے اٹھا کر پڑھا اور اپنے درباریوں سے کہا ۔

"ابھی میرے پاس ایک مکتوب آیا ہے جس میں درج ہے کہ یہ خط سلیمان کی جانب سے اور اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے ۔ تم کو ہم سے سر کشی اور سر بلندی کا اظہار نہ کر نا چا ہئے اور تم میرے پاس خدا کے فرماں برادر بن کر آؤ "۔

ملکہ سبا نے خط کی عبا دت پڑھ کر کہا ۔" اے میرے اراکین سلطنت ! تم جا نتے ہو کہ میںاہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کر تی اس لئے اب تم مشورہ دو مجھے کہا کر نا چا ہئے ۔"

ارکان حکومت نے عرض کیا ۔ـ"جہاں تک مر عو ب ہو نے کا تعلق ہے اس کی قطعاًضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم زبر دست طا قت ، اور جنگی قوت کے مالک ہیں رہا مشورے کا معاملہ تو آپ جو چا ہیں فیصلہ کر یں ،۔ ہم آپ کے فر ماں بردار ہیں ۔ "

ملکہ نے کہا ۔"جس عجیب طر یقے سے سلیمانؑ کا پیغام ہم تک پہنچا ہے وہ ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ سلیمان کے معاملے میں سوچ سمجھ کر کو ئی قدم اٹھا یا جا ئے ۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کر وں اور وہ سلیمان کے لئے عمدہ اور بیش قیمت تحائف لے جا ئیں ۔"

جب ملکہ سبا کے قاصد تحا ئف لیکر حضرت سلیمان ؑ کی خد مت میں حاضر ہو ئے تو انہوں نے فر ما یا۔" تم اپنے  ہدایاواپس لے جا ؤ اور اپنی ملکہ سے کہو اگر اس نے میرےپیغام کی تعمیل  نہیں کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچو ں گا اور تم اس کی مدافعت اور مقابلے سے عاجز رہو گے اور پھر میں تم کو ذلیل اور رسوا کرکے شہر بدر کر دوں گا۔"

قاصد نے واپس آکر ملکہ سبا کے سامنے تمام صورت حال بیان کر دی اور حضرت سلیمان ؑ کی عظمت و شوکت کا جو حال دیکھا تھا حرف بہ حرف کہہ سنایا اور بتا یا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جن حیوانات بھی ان کے تابع فر مان اور مسخر ہیں ۔

ملکہ نے جب یہ سنا تو اس نے طے کر لیا کہ حضرت سلیمان ؑ کی آواز ہر لبیک کہا جا ئے ۔ لہذا انہوں نے سفر شروع کر دیا اورحضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ ہو گئی ۔

حضرت سلیمانؑ کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہو رہی ہیں ۔ آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا ۔"  میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اس دربار میں موجود ہو ۔"

ایک دیو پیکر جن نے کہا ـــ"آپ کے دربار برخاست کر نے سے پہلے ہی میں تخت لا سکتا ہوں "۔

جن کا  یہ دعویٰ سن کر ایک انسان نے جس کے پاس آ کتاب کا علم تھا یہ کہا "اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے یہ تخت میں آپ کی خدمت پیش کر سکتا ہوں ۔ "

حضرت سلیمان ؑ نے رخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔

ٹائم اسپیس کی حد بندیوں میں جکڑے ہو ئے شعور کے لئے یہ امر قابل غور ہے کہ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر ملکہ سبا کا تخت شاہی خیال کی رفتار سے پلک جھپکتے ہی حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں پہنچ گیا ۔ یعنی بندے کے خیال کی لہریں تخت کے اندر کام کر نے والی لہروں میں جذب ہو کر تخت کو منتقل کر نے کا ذریعہ بن گئیں ۔

انسانوں کے درمیان ابتدائے آفر نیش سے بات کر نے کا طر یقہ رائج ہے ۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جا تے ہیں سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں ۔ یہ طر یقہ اس ہی تبا دلہ خیال کی نقل ہے جو انا کی لہریں کے درمیان ہو تا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہو نٹوں کی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ  سمجھ جاتے ہیں ۔ یہ طر یقہ بھی پہلے طر یقے کا عکس ہے جانور آواز کے بغیر ایک دو سرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں ۔یہاں بھی انا کی لہریں  خیالات کی منتقلی  کاکام کر تی ہیں درخت بھی آپس میں گفتگو کر تے ہیں یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہو تی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہو تی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے ۔ کنکروں ، پتھروں مٹی کے ذرات میں من و عن اسی طر ح تبا دلہ خیال ہو تا ہے ۔

روحانی طا قت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں ساری کا ئنات میں ایک ہی لا شعور کا ر فر ما ہے ۔ اس کے ذریعے غیب شہود کی ہر لہر  دوسرےکے معنی سمجھتی ہے چا ہے یہ دونوں  لہریں کائنات کے دوکنا روںپر واقع ہو ں ۔ غیب وشہود کی فرا ست اور معنویت کا ئنات کا رگ جاں ہے  جو خود ہماری  اپنی رگ جاں بھی ہے۔ تفکر اور رتو جہ کر کے ہم اپنے سیا ر ے اور دو سرے سیا رو ں کے آثارو کے آحوال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ انسانوں ، حیوانوں  ، جنات اور فرشتوں کی حر کا ت و سکنات ، نبا تات و جمادات کی اندرو نی تحر یکات بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔مسلسل مشق اور ارتکاز توجہ سے ذہن کا ئناتی لا شعور میں تحلیل ہو جا تا ہے اور ہمارے سراپا کا معین پرت انا کی گر فت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق  ہرچیزدیکھتا ہے سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر دیتا ہے ۔

یہی روحانیت ہے اور یہی ٹیلی پیتھی ہے فر ق صرف اتنا ہے کہ روحانیت اپنے اند رایک وسعت رکھتی ہے اور ٹیلی پیتھی صرف خیالات کے تبادے کا نام ہے ۔

حضرت غوث علی شاہ ؒ کی کتاب ‘’تذکرہ غو ثیہ  “ میں مو لا نا گل حسن صاحب فر ما تے ہیں کہ ایک روز راقم نے غرض کیا ۔ ‘’حضرت کبھی آپ کو عشق بھی ہوا ہے ؟  “۔

حضرت نے فر مایا :

جب ہم گھر سے چل کر بنارس پہنچے تو وہاں ہمارے بھا ئی فیض الحسن تھا نیدار تھے ۔ ان سے مل کر طبیعت بہت خوش ہو ئی ۔ بھا ئی نے اصرار کیا کہ گھر پر ٹھیرو ۔ مگر ہم کو سوائے مسجد کے آرام کہاں تھا گنگا کے کنا رے ایک مسجد تھی ۔اس میں ٹھہر گئے ۔مسجد کے ایک طر گ گھاٹ تھا اور دو سری طر ف شارع عام تھی ۔بھائی صاحب بھی  روزمرہ وہاں تشریف لا تے تھے ۔کھا نا بھی وہی  بھجتے تھے ۔ایک روز عصر کی نماز کے بعد مسجد کی دیوار پر بیٹھے ہو ئے ہم سیر کر رہے تھے کہ یکا یک ایک نا زنیں ، مہ جبیں غارت ایمان ودیں ،چو دہ پندرہ کا سن و سال قیامت کی چال ڈھا ل قوم سے  کشمیری بر ہمن ن اپنی ہمجولیوں کے جلو میں آفتاب عالمتاب کی طر ح نظر کو خیرہ کر تی ہو ئی ہمارے سامنے آگئی نظر چار ہو تے ہی ہو ش و حواس کھو بیٹھے ۔ لیکن ابھی اتنی عقل با قی تھی کہ ہم نے مسجدکے مولوی سے کہہ دیا کہ ہمارے بھا ئی آئیں یا کھا نا بھجوائیں تو تم  ان سے یہ کہہ دینا کہ ہم چلے میں بیٹھے ہیں اور سب سامان مجھ کو دے دیا ہے اور جس وقت ضرورت ہو گی میں کھا نا تیار کر کے دے دوںگا ۔ملا کو یہ بات سمجھا کر ہم نے حجرے کا دروازہ بند کر لیا ۔ اور اس پر ی ر و کا تصور قائم کر کے عالم خیال میں گم ہو گئے اس عرصے میں کھا نا ،پینا ،نماز ،رو زہ سب با لائے طاق رکھ دیا ۔آٹھویں دن وہ تصویر مجسم ہو کرسامنے آکھڑی ہوئی اسی دن وہ نا زنین دل رُبا اپنے شوہر کے ساتھ تھالی میں شیرنی رکھے مسجد میں آموجود ہو ئیں ۔ اس نے حجرہ کی زنجیر کھڑکا ئی ۔کان میں آواز پڑی تو دل نے کہا مطلوب آپہنچا ۔ ہم نے کنڈی کھول دی وہ دو نوں حجرے کے اندر آگئے ۔ دیکھا کہ اس کا شوہر بھی حسن و جمال میں  یکتا وبے مثال تھا ۔

ہم نے پو چھا ‘’تم دونوں کس لئے آئے ہو ؟ “

بولے ۔ ‘’ہم کو اولاد کی تمنا ہے ۔  “

ہم سمجھ گئے کہ یہ سب فساد حضرت عشق کا ہے ورنہ  ابھی تو ان کے دن کھیلنے کودنے اور سیر تما شے کے ہیں کیسی اولاد اور کیسی تمنا ! اس حسین قتالہ نے ہماری طر ف ٹکٹکی باندھ لی ۔ اس کے شو ہر سے ہم نے کہا ۔’’ذرا تم با ہر جا کر زنجیر لگا دو ۔ ہم کو تمہاری بیوی سے ایک پر دے کی بات پو چھنی ہے۔  “

وہ غر یب دروازہ بند کر کے با ہر ہو گیا۔ اس زمانے میں ہماری عمر پنتا لیس سال کی تھی ، ہم نے اپنے دل سے کہا ۔ بولو حضرت ! کیا ارادہ ہے ۔ا گر اس کو جو رو بنانا چا ہتے ہو تو میاں بیوی دونوں راضی ہیں بہن بنانا چا ہتے ہیں تو پھر اپنی  ماں اور بہن کو کیوں چھو ڑا ۔ جس کے لئے آٹھ دن سے بے تابی اور بے قراری تھی ۔ وہ موجود ہے ۔ کہہ کیا کہتا ہے ۔

دل نے جواب دیا ۔ یہ بھی ایک کھیل کھیلنا تھا تو کھیل چکے بس اب کو ئی خواہش با قی نہ رہی ۔

اس کے بعد ہم نے اس سے ایک دو با تیں پو چھ کر اس کے خاوند کو بلالیا اور ایک تعویز لکھ کر ان کے حوالے کیا اور کہا جا ؤ ، خدا حافظ !  “
ان کے جانے  کے بعد یہ خیال آیاکہ عشق ضرور کچھ رنگ لا ئے گا اور طرف ثانی کو بھی ستا ئے گا یہاں سے چل دینا ہی بہتر ہے ۔ یہ سوچ کر ہم آدھی رات گزرنے پر وہاں سے چل دئیے اور بیس کوس دور جا کر دم لیا ۔

دو سرے دن وہ نیک بخت بھی شوہر کے ہمراہ یکہ میں بیٹھی عصر کے وقت اسی مقام پر آپہنچی ۔ بال پریشاں، طبیعت اداس ، چہرہ پژمردہ ، دل افسردہ اور یاد زدہ ۔ میرے قریب آکر زارو قطار رو تے ہو ئے التجا کی کہ آپ بنا رس تشریف لے چلیں ۔جب دونوں نے بہت اصرار کیا تو ہمیں مجبو راً کہنا پڑا کہ ہم یہاں ضروری کام سے آئیں ہیں وہ ہو جائے گا تو ہم دو چار دن میں خود ہی بنا رس چلے جا ئیں گے ۔ غرض تسلی و تشفی دے کر ان کو بنارس کی طر ف روانہ کیا ہم نے لکھنو کی راہ لی ۔ نہیں معلوم بعد میں اس پر کیا گزری۔

حضرت غوث علی شاہ ؒ کے واقعہ میں یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خیالات مسلسل ایک نقطہ پر مر کوز ہو جا ئیں یا کر دئیے جا ئیں معمول خواہ ان خیالات سے متفق نہ ہوں لیکن وہ عامل کے خیال کی قوت سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہتا ۔

٭٭٭٭٭


ٹیلی پیتھی سیکھئے

خواجہ شمس الدین عظیمی

انتساب
ان شاداب دل د و ستوں کے نام جو مخلوق
کی خدمت کے ذریعے انسانیت کی معراج
حاصل کر نا چاہتے ہیں
اور
ان سائنس دانوں کے نام جو ن دو ہزار چھ عیسوی کے بعد زمین کی مانگ میں سیندور
بھر یں گے ۔