Topics

کائنات کا قلب

ہمارے ذہن میں ہمہ وقت مختلف خیالات اور تصورات وارد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں ہمیں اپنا ارادہ استعمال نہیں کرنا پڑتا۔ ارادے اور اختیار کے بغیر خیالات کڑی در کڑی نقطہ شعور میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی میں خیالات، تصورات، کیفیات اور جو تقاضے کام کرتے ہیں وہ تین درجوں پر مشتمل ہیں۔

ایک طرح کے خیالات و احساسات آدمی کو اپنی موجودگی کا ادراک عطا کرتے ہیں جن کی بدولت آدمی خود کو آدمی کی صورت میں دیکھتا ہے۔ گویا یہ انفرادی احساس ہے۔ اس طرز کا شعور کائنات کی تمام مخلوقات کو حاصل ہے۔ بکری بھی اپنا احساس رکھتی ہے اور فاختہ کو بھی اپنی موجودگی کا احساس ہے۔

دوسرا شعور فرد کو اس کی نوع کے تصورات سے آشنا کرتا ہے مثلاً آدمی کے اندر جب شعور کام کرتا ہے تو آدمی سے آدمی کی پیدائش ہوتی ہے اور گائے سے گائے کا بچہ جنم لیتا ہے۔ آدم کے بچے کے وہی احساسات ہوتے ہیں جو اس کے والدین کے ہیں اور گائے کا بچہ وہی احساسات لے کر پیدا ہوتا ہے جو گائے کے ہیں۔

خیالات و ادراک کا ایک مجموعہ وہ شعور ہے جو تمام مخلوقات میں یکساں جاری ہے اور اس ہی شعور کا مظاہرہ ’’نظر‘‘ ہے۔ یہ شعور جس مقام پر جلوہ گر ہوتا ہے ایک ہی طرز رکھتا ہے۔ مثلاً آدمی پانی کو پانی سمجھتا ہے اور بکری بھی پانی کو پانی سمجھ کر پیتی ہے۔ اس شعور یا نظر کے کردار میں ازل سے ابد تک کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ مکانیت کے تبدیل ہونے سے بھی اس کے کردار میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔

اسی شعور کی بدولت تمام مخلوقات ایک دوسرے سے نظر نہ آنے والے رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی بنیادی اقدار ایک ہیں۔ بھوک پیاس، رنج و غم، بصارت، سماعت اور لمس کی قوتیں ساری مخلوقات میں موجود ہیں۔ جب یہ قوتیں نوعوں میں حرکت کرتی ہیں تو ہر نوع اپنی اقدار کے مطابق ان کو مختلف طرزوں میں استعمال کرتی ہے۔ مثلاً بھوک کا احساس شیر میں بھی موجود ہے اور بکری میں بھی کام کرتا ہے لیکن دونوں تقاضے کی تکمیل الگ الگ کرتے ہیں۔ خیال میں معانی کی بنیاد پر نوع کا ذہن انفرادی طور پر کام کرتا ہے۔ یعنی نوع کا ذہن فرد میں انفرادی شعور بن جاتا ہے۔

کائناتی ذہن درخت کے بیج کی مانند ہے۔ درخت کا تنا، شاخیں، پھول اور پھل سب کی مادی بنیاد ننھا سا بیج ہے۔ ایک بیج اپنا اظہار ہزار ہا شکلوں میں کرتا ہے۔ اگر بیج نہ ہو تو درخت کا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کائناتی ذہن سے تمام نوعیں اور نوع کے افراد حرکت میں آتے ہیں۔ نوع اور نوع میں کام کرنے والے تمام خیالات، تصورات اور احساسات سب ایک اکائی کا پھیلاؤ ہیں۔

اگر نوع کے ذہن کو برقی رو جان لیا جائے تو تمام انواع اور ان کے افراد کی حیثیت برقی قمقموں جیسی ہو گی۔ جس طرح برقی رو بجلی گھر سے تاروں کے ذریعے لاکھوں قمقموں تک پہنچتی ہے اسی طرح کائناتی ذہن سے اطلاعات نوع اور اس کے افراد تک پہنچتی ہیں۔ چونکہ اطلاعات کا نظام برقی رو کی طرح ہے اس لیے تمام انواع کا ذہن ایک دوسرے سے منسلک ہو کر کام کرتا ہے۔

زندگی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ذہن کا ایک رخ مادی زندگی میں حرکت کرتا ہے اور دوسرا رخ زندگی کی اطلاعات کا سورس (Source) ہے جس میں زندگی کی تمام اطلاعات اور حرکات محفوظ ہیں۔ ہماری شعوری زندگی اسی حصے کے تابع ہے۔ ہمارے جسم میں ہزار ہا حرکات، کیمیاوی اور برقی اعمال شعوری ارادے کے بغیر واقع ہوتے ہیں مثلاً سانس لینے، پلک جھپکنے، دل دھڑکنے میں ہمیں ارادی قوت صرف نہیں کرنا پڑتی۔ یہ سارے اعمال از خود ایک ترتیب کے ساتھ واقع ہوتے رہتے ہیں۔

تخلیق کے مرحلے میں نوع کے خدوخال، نوع کے تصورات اور اطلاعات فرد سے پیدا ہونے والے بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔ پیدائش میں انفرادی شعور کا کردار سطحی ہے۔ نوعی ذہن اور کائناتی ذہن بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

جینیات (Genetic) کے علم کی ترقی کے بعد یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کی شکل و صورت ماں باپ یا رشتے داروں سے مشابہت رکھتی ہے۔ نوعی اعتبار سے بچہ ان ہی خدوخال پر پیدا ہوتا ہے جو اس کے نوع کے دیگر افراد کے ہیں۔ نہ صرف جسمانی خدوخال وراثت میں منتقل ہوتے ہیں بلکہ عادات و اطوار بھی منتقل ہوتے ہیں۔ باالفاظ دیگر نوع کے نقوش اور کائناتی ذہن کی صفات ایک ریکارڈ کی طرح والدین سے بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔ پیدا ہونے والے ہر بچے میں یہ دونوں ریکارڈ محفوظ ہوتے ہیں۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے اس کی نوع کے شعور میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔

ان حقائق سے یہ بات دھوپ کی طرح روشن ہے کہ ہمارے اندر ارادی حرکات سے ماوراء ایک با اختیار اور باشعور نظام کام کرتا ہے۔ اسی باشعور تشخص کو روحانیت میں نوع کا شعور کہتے ہیں اور یہی تشخص جب تمام نوعوں کے اندر مشترک اقدار کو کنٹرول کرتا ہے تو اس کا نام کائنات کا اجتماعی شعور رکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں شعور جو پوری کائنات کی بنیاد ہیں مجموعی طور پر ’’روح‘‘ ہیں۔

کسی شخص کے اندر اس کے انفرادی شعور کے ساتھ ساتھ نوع کا ذہن اور کائنات کا شعور بھی موجود رہتا ہے۔ نوع سے مراد ابتدائے آفرینش سے لے کر موجودہ لمحہ تک وجود میں آنے والے افراد ہیں۔ نوع کے محسوسات کا اجتماع فرد کے شعور میں نہیں بلکہ نوع کے ذہن میں ہوتا ہے اور یہیں سے شعور کو منتقل ہوتا ہے۔ 

مثال:

ایک شخص کتابت کا فن سیکھنا چاہتا ہے۔ جب وہ اس فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مروجہ قواعد و ضوابط کے تحت اس فن کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وقت مقررہ کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنے ارادے سے اس فن کا مظاہرہ کر سکے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے اندر موجود ایک صلاحیت کو حرکت میں لا کر شعور کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح وہ اپنی نوع کے کسی علم یا فن کو سیکھ لیتا ہے۔ یہ صلاحیت انسان کے نوعی ذہن میں محفوظ ہوتی ہے اور یہیں سے منتقل ہو کر شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص اپنی نوع کے ذہن یا کائناتی ذہن کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی کوشش میں کم و بیش اسی طرح کامیاب ہو جاتا ہے جس طرح وہ نوعی ذہن کو متحرک کرنے میں کامیاب ہے۔

اگر انفرادی شعور کی تمام کیفیات نوع کے شعور میں جذب کر دی جائیں تو انفرادی شعور نوع کے شعور میں تحلیل ہو جاتا ہے اور وہ نوع انسانی کے مجموعی شعور سے رابطہ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ مظاہر کو وسیلہ بنائے بغیر اپنا خیال کسی بھی شخص کو پہنچا سکتا ہے۔ چاہے وہ کتنے ہی فاصلے پر کیوں نہ ہو۔ اسی طرح وہ اس کے خیال کو وصول بھی کر سکتا ہے۔ خیالات کے اس علم سے تسخیر و تعمیر شخصیت کے بہت سے کام لئے جا سکتے ہیں۔ عرف عام میں اسی علم کو انتقال خیال کہتے ہیں۔ اگر انفرادی شعور ترقی کر کے کائنات کے شعور سے ہم آہنگ ہو جائے تو وہ تمام مخلوقات کے اجتماعی شعور سے آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ حیوانات، جمادات، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ سیاروں اور سماوی نظاموں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

اگر کسی شخص کا انفرادی ذہن، نوع ذہن اور اس کے بعد کائناتی ذہن میں داخل ہو جائے تو وہ پوری کائنات کا مطالعہ کر سکتا ہے کیونکہ کائنات میں ایک ہی شعور کارفرما ہے اور اس کے ذریعے ہر لہر دوسری لہر کے معانی سمجھتی ہے چاہے یہ دو لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ چنانچہ اگر ہم اپنی توجہ کے ذریعے شعور کو پس پردہ کام کرنے والے دونوں ذہنوں میں جذب کر دیں تو ان دونوں کو بالکل اسی طرح سمجھ سکتے ہیں جس طرح اپنی شعوری واردات و کیفیات سے واقف ہیں۔

ارتکاز توجہ کے ذریعے اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ انسانوں، حیوانوں، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات اور جمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کی جا سکتی ہیں۔ مراقبہ کی مسلسل مشق، ارتکاز توجہ کا باعث بنتی ہے اور شعور کائناتی ذہن میں تحلیل ہو کر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا، سمجھتا اور حافظہ میں محفوظ کر دیتا ہے۔



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔