Topics
نماز قائم کرنے سے پہلے سات باتیں پوری کرنا ضروری ہیں۔ ان سات باتوں کو شرائط نماز کہا جاتا ہے۔
۱۔ بدن کا پاک ہونا
۲۔ نماز کا وقت ہونا
۳۔ جگہ پاک ہونا
۴۔ مرد کو ناف سے گھٹنوں تک اور عورتوں کو منہ، ہاتھ اور پیروں کے علاوہ سارا بدن اور سر کے بال ڈھانپنا
۵۔ کپڑے پاک ہونا
۶۔ قبلہ کی طرف منہ کرنا
۷۔ نماز کے لئے نیت کرنا
فرض، واجب، سنت اور نفل
فرض اُس عمل کو کہتے ہیں جس کو ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔
واجب کا درجہ فرض سے کم ہے لیکن ادا کرنا اس کا بھی فرض ہے۔
سنت وہ عمل ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود کیا ہے اور خلفائے راشدینؓ نے اس کی پیروی کی ہے۔ سنت کی دو(۲) قسمیں ہیں:
۱۔ سنت مؤکدہ
۲۔ سنت غیر مؤکدہ
سنت مؤکدہ وہ عمل ہے جسے رسول اللہﷺ نے ہمیشہ کیا ہے یا کرنے کا حکم دیا ہے اور بغیر کسی وجہ کے ترک نہیں کیا۔
سنت غیر مؤکدہ وہ ہے جسے رسول اللہﷺ نے کبھی کیا ہے اور کبھی بلاعُذر چھوڑ بھی دیا ہے۔
نفل اور مستحب وہ عمل ہے جس کے کرنے سے اجر ملتا ہے اور چھوڑ دینے میں کوئی مؤاخذہ نہیں۔
اوقات نماز
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْ مِنِیْنَ کِّتبًا مَّوْقُوْتًا (سورہ نساء۔ آیت۱۰۳)
ترجمہ۔ بے شک نماز مؤمنین پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔
چونکہ نماز ادا کرنے کا تعلق اوقات سے ہے، اس لئے اوقات نماز سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔
اگر نماز کے وقت سے پہلے کوئی شخص نماز قائم کرے گا تو نماز نہیں ہو گی۔ اور وہ نماز دوبارہ قائم کرنا ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وقت گزر جانے کے بعد قائم کرے گا تو وہ نماز قضا ہو جائے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کی جائے۔
فجر کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلنے تک ہے۔ سورج کا ذرا سا کنارا بھی نکل آئے تو فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ صبح صادق سورج نکلنے سے تقریباً ڈیڑھ یا پونے دو گھنٹے پہلے ہوتی ہے۔ صبح صادق ہوتے ہی فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور صبح صادق ہوتے ہی تہجد کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ فجر کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ صبح صادق کے بعد پہلے دو رکعت سنت گھر میں ادا فرماتے تھے۔ اس کے بعد مسجد میں تشریف لا کر دو رکعت نماز فرض ادا فرماتے تھے۔
ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ سورج نکل کر جتنا اونچا ہو گا ہر چیز کا سایہ اتنا ہی گھٹ جائے گا۔ جب سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے تو یہ ٹھیک دوپہر کا وقت ہے۔ اس کے بعد جب سایہ بڑھنے لگے تو دن ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے اسی وقت سے ظہر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
عصر کی نماز کا وقت غروب آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پہلے ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ جب سورج بہت نیچا ہو جائے اور دھوپ پیلی پڑ جائے تو نماز کا وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔
سورج غروب ہوتے ہی مغرب کا وقت ہو جاتا ہے۔ آفتاب غروب ہونے کے بعد جب تک مغرب کی طرف آسمان پر سرخی رہے مغرب کا وقت باقی رہتا ہے۔
مغرب کے بعد آسمان پر سرخ شفق نمودار ہوتی ہے۔ اس کے غائب ہونے کے بعد سفیدی باقی رہتی ہے۔ پھر یہ بھی غائب ہو جاتی ہے اور آسمان پوری طرح نظر آنے لگتا ہے اور یہی عشاء کی نماز کا وقت ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے مگر آدھی رات کے بعد عشاء کا وقت مکروہ ہو جاتا ہے۔
مُفسداتِ نماز
جن باتوں سے نماز ساقط ہو جاتی ہے ان کو مفسدات نماز کہتے ہیں۔ وہ باتیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ان کی تعداد اٹھارہ ہے۔
۱۔ نماز میں بات کرنا ارادتاً یا بھُولے سے، کم یا زیادہ، ہر صورت میں نماز قائم نہیں رہے گی۔
۲۔ نماز کی حالت میں ’السلام علیکم‘ یا ایسا ہی کوئی اور لفظ کہنا۔
۳۔ کسی کے سلام کا جواب دینا یا کسی کی چھینک پر یَرْحَمُکَ اللہ کہنا یا نماز سے باہر والے کسی شخص کی دعا پر اٰمین کہنا۔
۴۔ کوئی خبر سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنا یا "الحمدللہ" کہنا یا "سبحان اللہ" کہنا۔
۵۔ درد یا تکلیف کی وجہ سے ’آہ‘ یا ’ اُف‘ کرنا۔
۶۔ اپنے امام کے سوا کسی کو غلطی بتانا۔
۷۔ نماز میں قرآن پاک دیکھ کر پڑھنا۔
۸۔ قرآن شریف پڑھنے میں کوئی ایسی غلطی کرنا جس سے معنی بدل جائیں۔
۹۔ نماز اس طرح ادا کرنا کہ دیکھنے والا یہ خیال کرے کہ یہ بندہ نماز میں نہیں ہے۔
۱۰۔ نماز میں کھانا پینا۔
۱۱۔ نماز میں دو صفوں کی مقدار آگے بڑھ جانا۔
۱۲۔ قبلے کی طرف سے بلا عُذر جسمانی طور پر گھوم جانا۔
۱۳۔ ستر کھل جانے کی حالت میں اتنی دیر ہو جانا کہ نماز کا کوئی رکن ادا ہو جائے۔
۱۴۔ ناپاک جگہ سجدہ کرنا۔
۱۵۔ دعا میں ایسی چیز مانگنا جو عادتاً آدمیوں سے مانگی جاتی ہے جیسے کوئی یہ دعا مانگے ’’یا اللہ! مجھے سو روپے دیدے۔‘‘
۱۶۔ ارادتاً اس طرح رونا کہ آواز سے درد یا رنج کا اظہار ہو جائے۔
۱۷۔ قہقہہ مار کر ہنسنا۔
۱۸۔ مقتدی کا امام سے آگے بڑھ کر کھڑے ہو جانا۔
ان تمام باتوں سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور اس نماز کا لوٹانا ضروری ہوتا ہے۔
سجدۂ سہو
نماز میں جو باتیں واجب ہیں ان میں سے اگر ایک یا کئی واجب بھول سے رہ جائیں تو سجدۂ سہو کرنا واجب ہے۔ سجدۂ سہو کرنے سے نماز درست ہو جاتی ہے۔ اگر سجدۂ سہو نہیں کیا تو نماز دوبارہ ادا کی جائے گی۔
سجدۂ سہو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آخری رکعت کے قعدے میں التحیات کے بعد ایک طرف سلام پھیر کر دو سجدے کئے جائیں۔ پھر بیٹھے ہی بیٹھے التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔
قضا نمازیں
* جو نماز وقت پر ادا نہ کی جائے، وقت گزرنے کے بعد قضا کہلاتی ہے۔ اگر کسی وقت کی نماز وقت پر ادا نہ ہو سکے تو اسے جب بھی وقت ملے ادا کر لینا چاہئے۔
* قضا نمازیں ادا کرتے وقت اوقات کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے یعنی کسی بندے کی پانچ نمازیں قضا ہو گئیں۔ اسے چاہئے کہ پہلے فجر کی پھر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز قائم کرے۔
* قضا نمازوں کو فوراً ادا کرنا چاہئے اور اگر آخر عمر تک قضا نمازیں ادا کرنے کا موقع نہ ملے تو مرنے سے پہلے ان نمازوں کا فدیہ دینے کی وصیت کر دی جائے۔ اگر وصیت بھی نہ کی جا سکے اور ورثا کو معلوم ہو تو وہ اپنی طرف سے بطور احسان سلوک فدیہ ادا کریں۔
* ایک قضا نماز کے بدلے پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت ادا کر دی جائے۔ ایک دن کی چھ نمازیں (مع وتر) قابل فدیہ ہوں گی۔ یہ فدیہ ان لوگوں کو دیا جائے جو زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے مستحق ہیں۔
* اگر کسی کو یاد نہ ہو کہ اس کی کتنی نمازیں قضا ہیں تو وہ محتاط اندازہ لگا کر ان کو ادا کرتا رہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔