Topics
نماز اس مخصوص عبادت کا نام ہے جس میں بندے کا اپنے خالق کے ساتھ براہ راست ایک ربط اور تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ نماز ارکان اسلام میں وہ رکن ہے جسے کوئی باہوش و حواس مسلمان کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ قرآن پاک میں تقریباً سو جگہ نماز کے قیام کی تاکید کی گئی ہے جس سے اس اہم اسلامی رکن کی فضیلت، عظمت و جلالت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ عبادات میں نماز کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بندے کو ایک ایسی روحانی کیفیت سے آشنا کرتی ہے جس سے بندہ اپنی اور اپنے ماحول میں موجود ہر چیز کی نفی کر کے اللہ تعالیٰ کی حضوری حاصل کرتا ہے۔ نماز انسان کے باطنی حواس کے لئے ایک پاسبان کی حیثیت رکھتی ہے اور لوگوں میں اجتماعی نظم و ضبط کی تشکیل کرتی ہے۔ نماز کے اخلاقی، تمدنی، معاشرتی، جسمانی و روحانی بے شمار فوائد ہیں۔ اجتماعی نماز کی پابندی باہمی تعلقات میں استحکام پیدا کرتی ہے۔ صلوٰۃ (نماز) عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی دعا، تسبیح، استغفار، رحمت، تعریف اور طلبِ رحمت کے ہیں۔ نماز کے معنی تعظیم کے بھی ہیں۔ یعنی صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تعظیم بیان کرنا مقصود ہے۔ نماز کو ٹھیک طریقہ پر ادا کرنا اولین رکن دین ہے۔ قبولیت نماز سے دین و دنیا کی ساری سربلندیاں حاصل ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
’’یہ ایسی کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور قائم کرتے ہیں صلوٰۃ اور جو کچھ ہم نے دے رکھا ہے انہیں، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘( سورۂ بقرہ)
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق نماز بندے کو منکرات اور فواحشات سے روکتی ہے۔ نماز کے بارے میں خالق کائنات کا فرمان یہ بھی ہے:
’’اور وہ لوگ جو نمازی ہیں اور اپنی نمازوں سے بے خبر ایسی نمازیں ان کے اپنے لئے ہلاکت اور بربادی بن جاتی ہیں۔‘‘
(سورۂ الماعون)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے اس کا ذمہ لے لیا ہے کہ جو شخص ان پانچ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اس کو میں اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا۔‘‘
آدمی جب نماز کے لئے قیام کرتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ نمازی اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل پردے ہٹ جاتے ہیں۔
نماز مومن کا نور ہے۔
سجدہ کی حالت میں نمازی کا سر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ہوتا ہے۔
نماز مومنوں کی معراج ہے۔
دنیا کے ہر آسمانی مذہب میں خدا کی یاد کا حکم اور اس یاد کے لئے قوانین موجود ہیں۔ اسلام میں اگر حمد و تسبیح ہے تو یہودیوں میں مزمور، عیسائیوں میں دعا، پارسیوں میں زمزمہ اور ہندوؤں میں بھجن ہیں اور دن رات میں اس فریضہ کے ادا کرنے کے لئے ہر ایک میں اوقات کا تعین بھی ہے۔ نماز یہی وجہ ہے کہ اعمال میں ایک ایسا عمل ہے جس پر دنیا کے مذاہب متفق ہیں۔ قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق ہر پیغمبر نے اپنی امت کو صلوٰۃ قائم کرنے کی تعلیم دی ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔ ملت ابراہیمی میں اس کی حیثیت بہت ممتاز ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی ویران سر زمین میں آباد کیا تو اس کی غرض یہ بتائی کہ:
رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃ (سورۂ ابراہیم۔ آیت ۳۷)
"اے ہمارےپروردگار تاکہ وہ صلوہَ قا ئم کریں-"
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اور اپنی نسل کے لئے یہ دعا کی:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلوٰۃ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ (سورہ ابراہیم۔ آیت ۴۰)
"اے میرے پروردگار مجھ کو اور میری نسل میں سے لوگوں کو صلوٰۃ قائم کرنیوالا بنا۔"
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد ہے:
وَکَانَ یَامُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلوٰۃِ (سورہ مریم۔ آیت ۵۵)
"اور وہ اپنے اہل و عیال کو صلوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔"
حضرت لُوط علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان
کی نسل کے پیغمبروں کے متعلق قرآن کہتا ہے:
وَ اَوْ حَیْنَا اِلَیْھِمْ فعلَ الْخَیْرتِ وَ اقامَ الصَّلوٰۃَ(سورۂ انبیاء۔ آیت۷۳)
"اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور صلوٰۃ قائم کرنے کی وحی کی۔"
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو یہ نصیحت فرمائی:
یَا بُنَیَّ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ۔( سورۂ لقمان۔ آیت ۱۷)
"اے میرے بیٹے صلوٰۃ قائم کر۔"
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ۔( سورۂ طٰہٰ۔ آیت ۱۴)
"اور میری یاد کے لئے صلوٰۃ قائم کر۔"
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کو اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کو حکم ہوتا ہے:
وَاَقِیْمُو الصَّلوٰۃ۔( سورۂ یونس۔ آیت۷)
"اور صلوٰۃ قائم کرو۔"
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں:
وَ اَوْ صٰنِیْ بِالصَّلوٰۃِ (سورۂ مریم۔ آیت ۳۱)
"اور خدا نے صلوٰۃ کا حکم دیا ہے۔"
قرآن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے زمانے میں بھی عرب میں بعض یہود اور عیسائی قائم الصلوٰۃ تھے۔
ارشاد ہے:
"مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اُمَّہٌ قَاءِمَۃٌ یَتْلُونَ اٰیْتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ
(سورۂ آل عمران۔ آیت۱۱۳)
"اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راتوں کو کھڑے ہو کر خدا کی آیتیں پڑھتے ہیں اور وہ سجدہ کرتے ہیں۔"
وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُونَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلوٰۃَ اِنَّا لَانُضِیْعُ اَجْرَالْمُصْلِحِیْنَ
(سورۂ اعراف۔ آیت ۱۷۰)
"اور جو لوگ محکم پکڑتے ہیں کتاب کو اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ کو۔ ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکی کرنے والوں کے۔"
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔