Topics
نماز دراصل ایسا نظام ہے جو انسان کو اپنی روح سے قریب کر دیتا ہے اور جب کوئی بندہ اپنی روح کو جان لیتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ خود اللہ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگایئے کہ آپ کی ہستی اس وقت کیا ہوتی ہے اور آپ اللہ کے کتنے قریب ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس طرز عمل میں ہماری ہر تحریک اللہ کی تحریک پر مبنی ہوتی ہے۔
اس طرز عمل کی نفسیاتی گہرائی پر غور کریں کہ انسان خالصتاً للہ جب کوئی کام کرتا ہے تو اسے کتنی بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ وہ خوشی اس کے اندر سما جاتی ہے جو اس کی روح کے کونے کونے کو منور کر دیتی ہے۔ اس خوشی سے اس کی روح اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو بھول جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ گویا وہ اسی قسم کی زندگی گزارتے تھے جس طرح ایک عام آدمی زندگی گزارتا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ طرز عمل کی لذت سے آشنا تھے جب کہ ہم اس سے آشنا نہیں ہیں۔ کیا سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر امتی کے لئے یہ ممکن نہیں جیسا کہ ہمارے بزرگوں کے لئے ممکن ہوا؟ یقیناً ہم سب کے لئے ممکن ہے لیکن ہم غفلت میں ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس لذت سے آشنا ہو کر نماز اور حقیقی نماز کی برکت سے ایک بڑی جماعت کی شکل اختیار کی اور چند لوگوں کی جمعیت نے دنیا کو الٹ پلٹ کر اس کا نقشہ بدل دیا۔ مگر جب مسلمانوں نے نماز کو نماز کی طرح ادا کرنا چھوڑ دیا اور اس مقدس کیمیاء اثر عبادت کو ایک رسم بنا لیا تو قدرت نے اس پاداش میں ہم سے ہر قسم کی سرداری اور حاکمیت چھین لی۔ ہماری روح میں حرارت باقی نہ رہی۔ سوز و گداز، عجز و انکسار، حلم و علم، فہم و عقل اور فکر سلیم سے ہم تہی دامن ہو گئے۔ نماز میں ارتکاز توجہ، روح کا عرفان، دل کا گداز اور اللہ سے دوستی نہ ہو تو ایسی نماز اس جسم کی طرح ہے جس میں روح نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی نمازیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر ادا کرتے ہیں تو پھر ہماری نمازیں، نمازیں کیوں نہیں ہیں؟ ہم ان برکات و انعامات سے کیوں بے بہرہ ہیں جن سے ہمارے اسلاف مالا مال تھے؟
اللہ اور اس کے برحق رسول مقبول سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق نماز ہمارے تمام دکھوں کا علاج اور ہمارے اندر ہر زخم کو مُندمل کرنے کے لئے مرہم اور ہر درد کا مداوا ہے لیکن ہم نے اپنی مصلحتوں کے پیش نظر اس عمل خیر کو بے روح بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
تمام نبیوں نے خدا پرستی اور نیک عمل کی دعوت دی ہے۔ وہ ان مقدس اور پاکباز ہستیوں میں ہیں جن کے اوپر خدا کا انعام ہوا اور جو سعادت اور کامیابیوں کے لئے چُن لئے گئے۔ لیکن سعادت نا آشنا، شقاوت پسند لوگوں نے اللہ کے فرستادہ، صالح اور راست باز قدسی نفس حضرات کی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور شیطان کے پیرو کار بن گئے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’لیکن ان کے بعد پھر ایسے ناخلف جانشیں ہوئے جنہوں نے نماز کی حقیقت کھو دی اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے سو قریب ہے ان کی سرکشی ان کے آگے آئے۔‘‘ (سورہ۱۹۔ آیت ۵۹)
آیت مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ صلوٰۃ عبادت کا جوہر ہے۔ اگر ہم اس کی حقیقت سے باخبر نہ ہوئے تو سب کچھ ضائع ہو گیا۔
علم اخلاقیات پر اگر غور کیا جائے تو ترقی کا سب سے بڑا اور سب سے مؤثر ذریعہ انسان کا ذاتی وصف (Character) ہے اور وصف کی کامل تصویر نماز کی حرکات و سکنات سے بنی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق کردار کی بہترین محرک نماز ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے۔
’’قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ۔ یاد رکھو جو کچھ بھی تم اپنے لئے سرمایہ پہلے سے فراہم کرو گے اللہ کے پاس اس کے نتائج موجود پاؤ گے۔ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (پارہ۲، آیت۱۱)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔
’’اے ایمان والو! صبر اور صلوٰۃ سے سہارا پکڑو، یقین کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
(سورہ بقرہ۔ آیت۱۵۲)
یہی دو قوتیں ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی تمام مشکلات، آزمائشوں، تکلیفوں، ذلت و رسوائی سے نجات پا سکتے ہیں۔ اگر مسلمانوں میں یہ دو قوتیں جمع ہو جائیں تو دنیاوی بادشاہت کا سہرا ان کے سر پر سجے گا۔ دین و دنیا میں کبھی ناکام نہ ہوں گے۔
صلوٰۃ روحانیت کا سرچشمہ ہے۔ صلوٰۃ ایک ایسا قلعہ ہے جو برائیوں کے لشکر سے ہماری حفاظت کرتا ہے۔ صلوٰۃ (نماز) انسان کو تمام برائیوں سے روکتی ہے۔ صرف حرکات کو پورا کر لینے کا نام نماز نہیں ہے۔نماز کی غرض وغایت کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ قرآن رسمی نماز قائم کرنے کا حکم نہیں دیتا،تمام ارکان کی تکمیل کا حکم دیتا ہے، صاف صاف اور واضح طور پر کہتا ہے کہ ذہنی یکسوئی اور حضور قلب کے بغیر نماز، نماز نہیں ہے۔
’’کتاب میں سے جو تم پر وحی اتری اس کو پڑھو اور نماز قائم کرو، بیشک صلوٰۃ بداخلاقیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ اللہ تمہاری کاریگری خوب جانتا ہے۔‘‘ (القرآن ۲۹۔۴۵)
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔