Topics
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ فرض تو ہر اس مسلمان پر ہو جاتی ہے جسے میت کی خبر ہو جائے لیکن اگر ان سب میں سے چند آدمی بھی نماز جنازہ ادا کر لیں تو سب کے ذمہ سے یہ فرض اتر جاتا ہے۔ ہاں، کوئی بھی نہ ادا کرے تو سب کے سب سخت گنہگار ہوں گے۔
مسئلہ۱:
نماز جنازہ ادا کرنے میں بدن کا پاک ہونا، ستر پوشی، قبلہ کی طرف منہ ہونا اور نیت کرنا شرط ہے۔
مسئلہ ۲:
آج کل یہ بات عام ہے کہ جنازہ کی نماز جوتا پہنے پہنے ادا کی جاتی ہے، اس میں دو باتوں کا خیال ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ جس جگہ نماز پڑھ رہے ہیں وہ جگہ پاک ہو۔ دوسری بات یہ کہ جوتے پاک ہوں اور اگر جوتوں میں سے پیر نکال کر ان پر کھڑے ہوں تو اس صورت میں بھی جوتوں کا پاک ہونا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہو گی۔
مسئلہ ۳:
نماز جنازہ میں دو چیزیں فرض ہیں۔ چار مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنا اور قیام کرنا۔
مسئلہ۴:
جنازہ کی نماز امام اور مقتدی دونوں کے لئے یکساں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امام تکبیریں اور سلام بلند آواز سے کہے گا اور مقتدی آہستہ۔ باقی سب چیزیں یعنی ثناء، درود شریف اور دعاء مقتدی اور امام دونوں آہستہ پڑھیں۔
مسئلہ ۵:
جنازہ کی نماز بھی ان چیزوں سے فاسد ہو جاتی ہے جن چیزوں سے دوسری نماز فاسد ہو جاتی ہے۔
مسئلہ ۶:
نماز جنازہ میں اس لئے زیادہ دیر کرنا کہ جماعت زیادہ ہو جائے مکروہ ہے۔
مسئلہ ۷:
جنازہ اٹھانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے اگلا داہنا پایہ اپنے بائیں کندھے پر رکھے اور دس قدم چلے۔ اس کے بعد پیچھے کا داہنا پایہ بائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے۔ اس کے بعد آگے کا بایاں پایہ پھر پچھلا بایاں پایا۔ اس طرح چاروں پایوں کو ملا کر چالیس قدم چلنا سنت ہے۔
میت کو قبر میں رکھتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ وَ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ پڑھنا مستحب ہے۔
ترجمہ: ہم نے تجھے اللہ کے نام کی برکت حاصل کرتے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دین پر قبر میں رکھا۔
میت کو قبر میں رکھ دینے کے بعد جتنی مٹی قبر کھودتے وقت نکالی تھی وہ سب واپس ڈال دیں۔ مٹی ڈالنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے ابتداء کی جائے اور ہر شخص اپنے دونوں ہاتھوں میں تین مرتبہ مٹی بھر کر قبر میں ڈالے۔ پہلی مرتبہ پڑھے مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ دوسری مرتبہ پڑھے وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ تیسری مرتبہ پڑھے وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی مٹی ڈال چُکنے کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا مستحب ہے۔
پانی سرہانے کی طرف سے چھڑکتے ہوئے پیروں کی طرف آئے۔ دفن کرنے کے بعد تھوڑی دیر قبر پر ٹھہرنا اور میت کے لئے دعائے مغفرت کرنا مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب دفن سے فارغ ہو جاتے تھے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے:
اَسْتَغْفِرُ و اللّٰہَ لِاَخِیْکُمْ وَاسْءَلُوا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہٗ اَلْاٰنَ یُسْأَلُ
ترجمہ: اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا خدا سے مانگو اور (منکر نکیر کے جواب میں) اس کے ثابت قدم رہنے کی درخواست کرو کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے۔
دفن کے بعد قبر پر سورۂ بقرہ کی شروع کی آیتیں مُفْلِحُوْنَ تک سرہانے اور اخیر کی آیتیں اٰمَنَ الرَّسُوْلُ سے ختم سورہ تک پاؤں کی طرف پڑھی جاتی ہیں۔
قبرستان میں ہنسی مذاق، سگریٹ نوشی وغیرہ اچھی بات نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جنازے کے شرکاء میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو ذکر اللہ میں مشغول رہے اور جب تک جنازہ کندھوں سے نیچے نہ رکھا جائے اس وقت تک نہ بیٹھے۔
نماز جنازہ
کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ کے مصداق ہر شخص کو جو پیدا ہوا ہے وقت مقررہ پر اس عالم اسباب و وسائل سے دوسرے عالم میں جانا ہے۔ مذہب انسانوں کے اوپر ایک دوسرے کے حقوق عائد کرتا ہے۔ آدمی جب مر جاتا ہے تو پس ماندگان کے اوپر بھی مرنے والے کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اور پہلا حق، نماز جنازہ کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ نماز میت کے حق میں دعا کی حیثیت رکھتی ہے۔ نماز جنازہ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے:
نیت:
دل میں یا زبان سے کہے کہ چار تکبیر نماز جنازہ، ثناء اللہ کے لئے، درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور دعا اس میت کے لئے۔
نیت کے بعد پہلی تکبیر کہے اَللّٰہُ اَکْبَرُ
پھر ثناء پڑھے:
سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالیٰ
پاک ہے تیری ذات اے اللہ اور تو ہی مستحق تعریف ہے اور تیرا نام بابرکت ہے اور بلند ہے
جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَاءُکَ وَ لَآ اِلٰہَ غَیْرُکَ
تیری شان بزرگی کے ساتھ اور بڑی ہے تیری تعریف اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
ثناء پڑھ کر دوسری تکبیر کہے اور نماز والے دونوں درود شریف پڑھے۔ پھر تیسری تکبیر کہے۔
اگر جنازہ بالغ مرد و عورت کا ہو تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَآ ءِبِنَا
اے اللہ! مغفرت فرما ہمارے زندوں کی اور مُردوں کی اور حاضر کی اور غائب کی
وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَ اُنْثٰنَا اَللّٰھُمَّ مَنْ
اور چھوٹے کی اور بڑے کی اور مرد کی اور عورت کی اے اللہ! تو جس کو
اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَ مَنْ تَوَ فَّیْتَہٗ
زندہ رکھنا چاہے ہم میں سے اس کو زندہ رکھ اسلام پر اور جس کو موت دینا چاہے
مِنَّا فَتَوَ فَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ
ہم میں سے اس کو موت دے ایمان پر۔
اوپر کی دعا پڑھ کر چوتھی تکبیر کہے۔ پھر نماز کی طرح دونوں طرف سلام پھیر دے۔
اگر میت نابالغ کی ہو تو تیسری تکبیر کے بعد اوپر والی دعا نہ پڑھے بلکہ نابالغ لڑکا ہو تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَ طًا وَّ اجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّ
اے اللہ! اس (بچے) کو ہمارے لئے پیشرو بنا اور اس کو ہمارے لئے اجر بنا اور
ذُخْرًا وَّ اجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا
ذخیرہ اور اس کو بنا ایسا سفارش کرنے والا جس کی سفارش قبول کی جائے۔
اگر میت نابالغ لڑکی کی ہو تو یہ دعات پڑھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَ طًا وَّ اجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّ
اے اللہ! اس (بچے) کو ہمارے لئے پیشرو بنا اور اس کو ہمارے لئے اجر بنا اور
ذُخْرًا وَّ اجْعَلْہُ لَنَا شَافِعَۃً وَّ مُشَفَّعًا
ذخیرہ اور اس کو بنا ایسی سفارش کرنے والی جس کی سفارش مقبول ہو۔
قبرستان میں پڑھنے کی دعائیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیارت قبور کے وقت بہت سی دعائیں منقول ہیں جو آپﷺ خود بھی پڑھا کرتے تھے اور صحابۂ کرامؓ کو بھی سکھاتے تھے۔ ان میں سے چند دعائیں یہ ہیں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَ اِنَّا اِنْشَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ
تم پر سلامتی ہو اے قوم مومنکے گھر والو! اور انشاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلیٰ اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنََ الْمُسْلِمِیْنَ
مومن اور مسلمان قبر والو! تم پر سلامتی ہو
وَبَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّاوَالْمُسْتَاخِرِیْنَ
اور ہمارے اگلے پچھلوں لوگوں پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
وَ اِنَّآ اِنْشَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُرْنَ
انشاء اللہ ہم بھی تمہارے پاس پہنچنے والے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقَبُوْرِ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَ لَکُمْ اَنْتُمْ
اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ ہم کو اور تم کو بخش دے
سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ
تم ہم سے پہلے آ گئے ہو ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔
ثواب پہنچانے کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص قبرستان جائے اور وہاں سورہٰ یٰسٓ پڑھے تو اس روز وہاں کے مردوں سے عذاب کم کر دیا جائے گا۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو کر سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص (قل ہو اللہ) اور سورۂ تکاثر (الہٰکم التکاثر) پڑھ کر اس کا ثواب قبرستان کے مردوں کو بخش دے تو اس قبرستان کے مکین اس شخص کی شفاعت کریں گے۔
میت کے ورثاء کو چاہئے کہ قرآن کریم، آیت کریمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْن اور استغفار وغیرہ پڑھ کر ثواب بخشتے رہیں۔ غرباء کو کھانا کھلائیں، مستحق کو کپڑا پہنائیں یا کسی بدنی اور مالی عبادت کا ثواب پہنچائیں۔
یاد رکھئے!مرنے کے بعد مُردہ زندوں کا محتاج ہوتا ہے۔ اس لئے ایصال ثواب میں اپنی طرف سے کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
نماز اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ نماز ایک عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے ۔ اہل اسلام کو اس فرض کی بہتر طور پر ادائیگی کی ترغیب وتعلیم کے لئے اہل تصوف نے بہت علمی کام کیا ہے ۔ تصوف کی تقریباً تمام اہم کتابوں میں نماز کی اہمیت اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ ان کو ششوں میں اولیائے کرام کے پیش نظر یہ مقصد رہاہے کہ امت مسلمہ ذوق وشوق اورخشوع کے ساتھ اس رکن اسلام پر کاربندرہے ۔ سلسلہ عظیمیہ کے بزرگ بھی امت مسلمہ کے فرزندوں کو قائَم بالصلوٰۃ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسی مقصد کے پیش نظر خواجہ شمس الدین عظیمی نے زیرنظر کتاب تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں نما زکی روحانی، ذہنی ، جسمانی ، نفسیاتی اورسائنسی فوائد بیان کرتے ہوئے نماز کی اہمیت اورغرض وغایت پر روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انبیاء کرام علیہم السلام کی نماز ، خاتم النبیین رسول پاک ّ کی نماز ، صحابہ کرام اورصوفیائے کرام کی نماز کے روح پرور واقعات بھی پیش کئے گئے ہیں ۔