Topics

مراقبہ اور نیند

راقبہ اور نیند کو یکجا نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی ایسی حالت میں مراقبہ سے پرہیز کرنا چاہئے جب یہ اندیشہ ہو کہ نیند غالب آ جائے گی۔ اگر ذہنی اور جسمانی تھکن سوار ہو تو کچھ دیر آرام کے بعد مراقبہ کیا جائے۔ تا کہ معمول کا پروگرام پورا ہوتا رہے اور نیند غالب نہ آئے۔ اعصابی اور جسمانی تھکن دور کرنے کے لئے مراقبہ سے پہلے آنکھیں بند کر کے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ آہستہ آہستہ گہری سانسیں لیں اور تصور کریں کہ توانائی کی لہریں جسم میں داخل ہو رہی ہیں۔ چند منٹ تک اس عمل کو جاری رکھیں تا کہ جسمانی اور ذہنی پژمردگی ختم ہو جائے۔

مراقبہ ختم کرنے کے بعد کچھ دیر تک مراقبہ کی نشست میں سکون کے ساتھ بیٹھے رہنا چاہئے۔ مراقبہ ختم کرتے ہی توحید کا ہدف تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح بیدارہونے کے بعد نیند کی کیفیات قدرے غالب رہتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ مکمل بیداری غالب آ جاتی ہے ۔ اسی طرح مراقبہ کے بعد کچھ وقفہ تک ذہن کو آزاد چھوڑ کر بیٹھے رہنے سے مراقبہ کی کیفیت آہستہ آہستہ بیداری میں داخل ہوتی ہے۔ کچھ دیربیٹھےرہنےکےبعدآہستگی سے کھڑے ہو کر کمرے میں ٹہلئے، گفتگو سے پرہیز کیجئے۔ اگر بولنا ہو تو دھیما لہجہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح مراقبہ کے اثرات زیادہ سے زیادہ بیداری میں منتقل ہوتے ہیں۔

روحانیت میں بہت زیادہ سونا ناپسندیدہ عمل ہے۔ زیادہ سونے سے دماغ کے اوپر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ اس لئے نیند میں اعتدال کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اگرچہ کم سے کم سونا روحانی صلاحیتوں کی بیداری میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے لیکن ایک عام شخص کے لئے اور خاص طور پر مبتدی کے لئے نیند کا وقت بہت کم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ نیند کا دورانیہ ذہنی اور جسمانی تقاضے کے مطابق ہونا چاہئے۔ اوسطاً چھ گھنٹے کی نیند مناسب ہے۔

بعض لوگوں کو سونے سے پہلے رسالوں یا کہانیوں کے مطالعے کی عادت ہوتی ہے۔ اس طرز عمل کا نقصان یہ ہے کہ ذہن ان کا نقوش قبول کر لیتا ہے اور نیند کے دوران ان کی باز گشت ہوتی ہے۔ ذہن کی اس عادت سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ سونے سے پہلے کچھ دیر مراقبہ کریں اور پھر بستر میں چلے جائیں تا کہ مراقبہ کی کیفیات ذہن میں دور کرتی رہیں۔ اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ مراقبہ اور نیند کو باہم ملانا صحیح نہیں ہے یعنی مراقبہ کرتے ہوئے ارادے کے ساتھ نیند کو مسلط نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے چند منٹ بیٹھ کر مراقبہ کریں اور پھر سونے کے لئے لیٹ جائیں۔

غذا زود ہضم اور سادہ استعمال کرنی چاہئے اور اتنی ہونی چاہئے کہ معدہ پر بار نہ بنے۔ اس طرح آدمی ہلکا پھلکا رہتا ہے بلکہ ذہنی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل رہتی ہے۔ طبی نقطہ نظر سے بھی ثقیل غذائیں اور تیز مرچ و مصالحے صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ غذا کے معاملے میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ مراقبہ یا کوئی بھی روحانی مشق بھرے پیٹ نہیں کرنی چاہئے۔ مشق اس وقت کریں جب کھانا کھائے ہوئے کم از کم ڈھائی گھنٹے گزر چکے ہوں۔

توانائی کا ذخیرہ:

ہمارا رابطہ ہر وقت کائناتی ذہن سے قائم رہتا ہے۔ مراقبے کے ذریعے کائناتی ذہن کی توانائی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ ہونے لگتی ہے۔ اس توانائی کو محفوظ کر کے صحیح استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے ان تمام مشاغل اور ذہنی کیفیات سے بچنا چاہئے جن سے توانائی ضائع ہوتی ہے۔ یہ توانائی مراقبہ میں مدد دیتی ہے اور ان حواس کو متحرک کرتی ہے جن کا دروازہ روحانی دنیا میں کھلا ہے۔

اگر ہم اپنی ذہنی کیفیات پر کنٹرول نہیں کریں گے توانائی کا رخ اعلیٰ کی بجائے اسفل کی طرف ہو جائے گا اور اسفل حواس میں عمل درآمد کر کے ضائع ہو جائے گی۔ چنانچہ ذہن کو کنٹرول کر کے ایک رخ پر قائم رکھنا چاہئے۔ شروع شروع میں بیزاری، الجھن اور چڑچڑے پن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طبیعت گرانی محسوس کرتی ہے، لیکن بعد میں معمول پر آجاتی ہے۔

اعصابی کھنچاؤ اور ذہنی تناؤ کو کم سے کم کرنا بھی ضروری ہے۔ ذہن کو ارادے کی قوت سے اتنا یکسو اور غیر جانب دار رکھا جائے کہ وہ دماغی الجھنوں سے کم سے کم متاثر ہو۔ بہت سی اطلاعات صدمے کا باعث بنتی ہیں اور بہت سی اطلاعات خوشی کا پیغام ثابت ہوتی ہیں۔ دونوں حالتوں میں جذبات پر کنٹرول رکھنا چاہئے۔ ایسے اعمال کو کم کرنا چاہئے۔ جن سے اعصابی توانائی ضائع ہوتی ہے مثلاً بلند آواز سے گفتگو، چڑچڑاپن، غصہ، بیزاری، غیر ضروری فکر مندی، زیادہ جنسی رجحان وغیرہ۔ ان امور پر مکمل طور پر اعتدال ضروری ہے۔ تا کہ ذہنی رجحانات پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ ذہن کی مختلف حرکات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول سے ذہن ارادے کے تابع ہو جاتا ہے۔

ذہنی تحریکات غیر شعوری طور پر جاری رہتی ہیں اور ہم ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ جب ذہن مراقبے کا رنگ قبول کر لیتا ہے تو غیر شعوری طور پر ذہن یکسو رہتا ہے اس کیفیت کے حصول میں طرز فکر، ماحول کے اثرات اور پریشانیاں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ ماحول کے اثرات کو ایک حد سے زیادہ کنٹرول کرنا ممکن نہیں لیکن طرز فکر کو اس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ ذہنی یکسوئی متاثر نہ ہو۔ صبر، شکر، یقین، توکل اور استغناء وہ خصوصیات ہیں جو ذہن کو شک اور وسوسوں سے آزاد کر کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتی ہیں۔ اخلاق اور تواضع کی خصوصیات اپنانے سے ذہن اسفل کیفیات سے دور ہو جاتا ہے۔ قوت ارادی استعمال کر کے ذہن کو ناپسندیدہ اور فاسد خیالات سے علیحدہ رکھنا چاہئے۔ اگر آدمی خود ذہنی انتشار میں مبتلا ہو تو وہ ہر جگہ پریشان ہی رہتا ہے۔

روزانہ کے معمولات میں تقسیم کار ہونی چاہئے تا کہ بے کار رہنے کی وجہ سےذہن ادھرادھر نہ بھٹکے۔ فاضل اوقات کے لئے مثبت مشغولیت تلاش کی جائے تا کہ لایعنی مصروفیات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی توانائی ضائع نہ ہو۔ اچھی اور معلوماتی کتب اور صحت مند ادب کا مطالعہ، مضمون نگاری، مصوری یا اسی طرح کی دوسری مصروفیات اختیار کی جائیں۔ کھیل کود اور مناسب جسمانی ورزش کا اہتمام کیا جائے۔ بے معنی گفتگو سے پرہیز علم میں اضافہ کرتا ہے۔ 



مراقبہ

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب میں عظیمی صاحب نے اپنی زندگی کے 35سال کے تجربات ومشاہدات کے تحت بیان فرمایا ہے کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوچکی ہے اس کے پیش نظر  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دورعلم وفن اورتسخیر کائنات کے شباب کا دورہے ۔ انسانی ذہن میں ایک لامتناہی وسعت ہے  جو ہر لمحہ اسے آگے بڑھنے  پر مجبورکررہی ہے ۔ صلاحیتوں کا ایک حصہ منصئہ شہود پر آچکا ہے لیکن انسانی انا کی ان گنت صلاحیتیں اورصفات ایسی ہیں جو ابھی مظہر خفی سے جلی میں آنے کے لئے بے قرارہیں۔ انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت حرکت میں آتاہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔ یہ حواس ادراک ومشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طورسے بندرہتے ہیں۔ انہی حواس سے انسان آسمانوں اورکہکشانی نظاموں  میں داخل ہوتاہے ۔ غیبی مخلوقات اورفرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے ۔ روحانی حواس  کو بیدارکرنے کا موثرطریقہ مراقبہ ہے ۔ روحانی ، نفسیاتی اورطبی حیثیت سے مراقبہ کے بے شمار فوائد ہیں ۔ مراقبہ سے انسان اس قابل ہوجاتاہے کہ زندگی کے معاملات میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے ۔ ۷۴ عنوانات کے ذریعہ آپ نے مراقبہ ٹیکنالوجی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ مراقبہ کیا ہے اورمراقبہ کے ذریعے انسان اپنی مخفی قوتوں کو کس طرح بیدارکرسکتاہے ۔






انتساب

غار حرا کے نام

جہاں نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

نے مراقبہ کیا اور حضرت جبرائیل ؑ

قرآن کی ابتدائی آیات لے کر زمین پر اترے۔